غزل
سبھی سوالوں کے ہم سے جواب ہو نہ سکے
کرم تھے اِتنے زیادہ ، حساب ہو نہ سکے
عَمل سب باعثِ اجر و ثَواب ہو نہ سکے
دَوائے درد و دِلی اِضطراب، ہو نہ سکے
رہے گراں بہت ایّام ِہجر جاں پہ مگر!
اُمیدِ وصل سے حتمی عذاب ہو نہ سکے
بَدل مہک کا تِری، اے ہماری نازوجِگر !
کسی وَسِیلہ سُمن اور گُلاب ہو نہ...
اثرؔ لکھنوی
غزل
بہار ہے تِرے عارض سے لَو لگائے ہُوئے
چراغ لالہ و گُل کے ہیں جِھلمِلائے ہُوئے
تِرا خیال بھی تیری ہی طرح آتا ہے
ہزار چشمکِ برق و شرر چُھپائے ہُوئے
لہُو کو پِگھلی ہُوئی آگ کیا بنائیں گے
جو نغمے آنچ میں دِل کی نہیں تپائے ہُوئے
ذرا چلے چلو دَم بھر کو ، دِن بہت بیتے
بہارِ صُبحِ...
غزل
فضاؔ اعظمی
محشرِ خواب و خیالات لیے بیٹھے ہیں
تم سے اُمیدِ مُلاقات لیے بیٹھے ہیں
تم نہیں ہو تو عَجب عالَمِ تا رِیکی ہے
صُبح ہوتی ہی نہیں، رات لیے بیٹھے ہیں
ایسی کیا بات ہے، دَم بھر کے لیے آ جاؤ
کب سے ہم، چھوٹی سی اِک بات لیے بیٹھے ہیں
آپ بے رنگیِ مَوسم سے نہ گھبرائیں، کہ ہم
آپ کے واسطے،...
نوازش جواب کے لیے :)
خ پر نقطہ نہ ہونے کی وجہ سے حال ہے شاید
ہونا یوں چاہیے:
بوسۂ خال کی قیمت مِری جاں ٹہھری ہے
دوسرامصرعہ میں گراں کے مقابل "چیز کتنی سی" خال ہی کو( ہیّت میں حقیر ہونے کی وجہ سے) صحیح گردانتی ہے
رُلاتی ہے مُجھے راتوں کو خاموشی سِتاروں کی
نِرالا عِشق ہے میرا، نِرالے میرے نالے ہیں
نہ پُوچھو مُجھ سے لذّت، خانماں برباد رہنے کی
نَشیمن، سینکڑوں مَیں نے بناکر پُھونک ڈالے ہیں
غزل
خواہشِ دل دبائے رکّھا ہے
اُن سے کیا کیا چُھپائے رکّھا ہے
ڈر نے ہَوّا بنائے رکّھا ہے
کہنا کل پر اُٹھائے رکھا ہے
مُضطرب دِل نے آج پہلے سے
کُچھ زیادہ ستائے رکّھا ہے
مِل کے یادوں سے تیری، دِل نے مِرے
اِک قیامت اُٹھائے رکّھا ہے
تیری آمد کے اِشتیاق نے پِھر
دِیدۂ دِل بچھائے رکّھا ہے
از سَرِ...
غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
کُچھ روز بڑھ رہا تھا مُقابل جو لانے کو!
جذبہ وہ دِل کا مَیں نے تَھپک کر سُلادِیا
تصدیقِ بدگمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب جب اُس نے تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب
خط میرے نام لکھ کے جب...
غزل
غلام ربانی تاباںؔ
ہَم ایک عُمر جلے، شمعِ رہگُزر کی طرح !
اُجالا غیروں سے کیا مانگتے، قمر کی طرح
کہاں کے جیب و گریباں، جِگر بھی چاک ہُوئے
بہار آئی، قیامت کے نامہ بر کی طرح
کَرَم کہو کہ سِتم، دِل دہی کا ہر انداز
اُتر اُتر سا گیا دِل میں نیشتر کی طرح
نہ حادثوں کی کمی ہے، نہ شَورَشوں کی...
غزل
تیری نظروں سے اُلجھ جانے کو جی چاہتا ہے
پِھر وہ اُلفت بھرے پیمانے کو جی چاہتا ہے
تیرے پہلُو میں دَبک جانے کو جی چاہتا ہے
غم سے کُچھ دیر نِکل آنے کو جی چاہتا ہے
دِل میں ڈر سے دَبی اِک پیار کی چنگاری کو
دے ہَوا، شعلہ سا بھڑکانے کو جی چاہتا ہے
جاں بچانے ہی ہم محفوظ مقام آئے تھے!
پھر مُصیبت...
غزل
شہریار
کشتی جاں سے اُتر جانے کو جی چاہتا ہے
اِن دِنوں یُوں ہے کہ، مرجانے کو جی چاہتا ہے
گھر میں یاد آتی تھی کل دشت کی وُسعت ہم کو
دشت میں آئے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کوئی صُورت ہو، کہ پِھر آگ رگ و پے میں بہے
راکھ بننے کو، بِکھر جانے کو جی چاہتا ہے
کیسی مجبُوری و لاچاری ہے، اُس کُوچے...
غزل
اگر نِکلا کبھی گھر سے، تو اپنے ہونٹ سی نِکلا
بُرا دیکھے پہ کہنا کیا مَیں غصّہ اپنا پی نِکلا
بڑھانا عِشق میں اُس کے قدم بھی پَس رَوِی نِکلا
کہ دل برعکس میرے، پیار سے اُس کا بَری نِکلا
محبّت وصل کی خواہش سے ہٹ کر کُچھ نہ تھی ہر گز
معزّز ہم جسے سمجھے، وہ ادنٰی آدمی نِکلا
تصوّر نے...
غزل
نظیؔر اکبر آبادی
گُل رنگی و گُل پیرَہَنی گُل بَدَنی ہے
وہ نامِ خُدا حُسن میں سچ مُچ کی بنی ہے
گُلزار میں خُوبی کے اب اُس گُل کے برابر
بُوٹا ہے نہ شمشاد نہ سرو چَمَنی ہے
انداز بَلا، ناز، سِتم، قہر، تبسّم
اور تِس پہ غضب کم نگہی، کم سُخَنی ہے
اُس گورے بدن کا کوئی کیا وصف کرے آہ !
ختم اُس کے...
غزل
فِراقؔ گورکھپُوری
یہ تو نہیں کہ غم نہیں!
ہاں میری آنکھ نم نہیں
تم بھی تو تم نہیں ہو آج!
ہم بھی تو آج، ہم نہیں
نشّہ سنبھالے ہےمجھے
بہکے ہُوئے قدم نہیں
قادرِ دو جہاں ہے، گو !
عشق کے دَم میں دَم نہیں
موت، اگرچہ موت ہے
موت سے زیست کم نہیں
کِس نے کہا یہ تُم سے خضر!
آبِ حیات سم نہیں
کہتے ہو...
غزل
شہریار
مَیں چاہتا ہُوں! نہ آئیں عذاب، آئیں گے
یہ جتنے لوگ ہیں، زیرِعتاب آئیں گے
اِس اِک خبر سے سراسیمہ ہیں سبھی، کہ یہاں !
نہ رات ہوگی، نہ آنکھوں میں خواب آئیں گے
ذرا سی دیر ہے خوشبُو و رنگ کا میلہ
خِزاں کی زد میں ابھی یہ گُلاب آئیں گے
ہر ایک موڑ پہ اِک حشر سا بَپا ہوگا
ہر ایک لمحہ، نئے...
غزل
دِل بھی بَلیَوں اُچھال سکتا ہے
جو تحیّر میں ڈال سکتا ہے
کیا تخیّل نہ ڈھال سکتا ہے
مفت آزار پال سکتا ہے
خود کو بانہوں میں ڈال کر میرے
اب بھی غم سارے ٹال سکتا ہے
کب گُماں تھا کسی بھی بات پہ یُوں
اپنی عزّت اُچھال سکتا ہے
جب ہو لِکّھا یُوں ہی مُقدّر کا!
تب اُسے کون ٹال سکتا ہے
ذہن، غم دِل...
غزل
جنُوں کا دَور ہے، کِس کِس کو جائیں سمجھانے
اِدھر بھی ہوش کے دُشمن، اُدھر بھی دیوانے
کَرَم کَرَم ہے تو، ہے فیضِ عام اُس کا شعار
یہ دشت ہے وہ گُلِستاں، سحاب کیا جانے
کسی میں دَم نہیں اہلِ سِتم سے کُچھ بھی کہے !
سِتم زدوں کو، ہر اک آ رہا ہے سمجھانے
بشر کے ذَوقِ پَرِستِش نے خود کیے تخلیق...
غزل
کُچھ مُداوا ئےغمِ ہجر بھی کرتے جاؤ
جُھوٹے وعدوں سے پڑے زخم تو بھرتے جاؤ
کُچھ تو دامن میں خوشی جینےکی بھرتے جاؤ
اِک مُلاقات ہی دہلیز پہ دھرتے جاؤ
جب بھی کوشِش ہو تمھیں دِل سے مِٹانے کی کوئی
بن کے لازم تم مزِید اور اُبھرتے جاؤ
ہے یہ سب سارا، تمھارے ہی رویّوں کے سبب
جو بتدریج اب...