افتخار عارف

  1. بلال جلیل

    افتخار عارف ستمبر کی یاد میں

    ستمبر کی یاد میں اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آ گئی تھی اُس نے پوچھا ”افتخار! یہ تم نظمیں ادھوری کیوں چھوڑ دیتے ہو” اب اُسے کون بتاتا کہ ادھوری نظمیں اور ادھوری کہانیاں اور ادھورے خواب یہی تو شاعر کا سرمایہ ہوتے ہیں پورے ہو جائیں تو دل اندر سے خالی ہو جاتا ہے...
  2. بلال جلیل

    افتخار عارف رات کے دوسرے کنارے پر --”ایک رات اور انتظار میں ہے”

    رات کے دوسرے کنارے پر جانے کیا بات ہے کہ شام ڈھلے خوف نادیدہ کے اشارے جھلملاتے ہوئے چراغ کی لَو مجھ سے کہتی ہے”افتخار عارف” رات کے دوسرے کنارے پر ”ایک رات اور انتظار میں ہے” کوئی چُپکے سے دل میں کہتا ہے رات پہ اس بس چلے نہ چلے خواب تو اپنے اختیار میں ہے افتخار عارف
  3. محمد بلال اعظم

    افتخار عارف سیلِ جنوں ساحل کی جانب آتا ہے

    سیلِ جنوں ساحل کی جانب آتا ہے خواب شبِ تاریک پہ غالب آتا ہے ذرہ ہوں منسوب ہوا ہوں مہر کے ساتھ روشن رہنا مجھ پر واجب آتا ہے دل کی تباہی کے چھوٹے سے قصے میں ذکر ہزار اطراف و جوانب آتا ہے مٹی پانی آگ ہوا سب اس کے رفیق جس کو اصولِ فرقِ مراتب آتا ہے دل روئے اور گریے کی توفیق نہ ہو ایسا وقت بھی...
  4. محمداحمد

    افتخار عارف غزل ۔ منصب نہ کُلاہ چاہتا ہوں ۔ افتخار عارف

    غزل منصب نہ کُلاہ چاہتا ہوں تنہا ہوں گواہ چاہتا ہوں اے اجرِ عظیم دینے والے! توفیقِ گناہ چاہتا ہوں میں شعلگیء وجود کی بیچ اک خطِّ سیاہ چاہتا ہوں ڈرتا ہُوں بہت بلندیوں سے پستی سے نباہ چاہتا ہوں وہ دن کے تجھے بھی بھول جاؤں اُس دِن سے پناہ چاہتا ہوں افتخار عارف
  5. طارق شاہ

    افتخار عارف "اِنہیں میں جیتے اِنہی بستیوں میں مر رہتے" غزلِ افتخارعارف

    غزلِ افتخارعارف اِنہیں میں جیتے اِنہی بستیوں میں مر رہتے یہ چاہتے تھے مگر کِس کے نام پر رہتے پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں ہم ایسے کون خدا تھے، کہ اپنے گھررہتے پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنا پر اپنے ہم شجروں سے تو باخبر رہتے بس ایک خاک کا احسان ہے، کہ خیر سے ہیں وگرنہ...
  6. طارق شاہ

    افتخار عارف امید وہم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

    غزلِ افتخار عارف امید وہم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا میں اب اپنے حجرۂ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں تمام خانۂ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سردست...
  7. طارق شاہ

    افتخار عارف ہم جہاں ہیں، وہاں اِن دنوں عِشْق کا سِلْسِلہ مُختلف ہے (غیر مروّجہ، خود ساختہ بحر میں غزل )

    افتخار عارف صاحب کی یہ غزل کسی مروّجہ بحر میں نہیں بلکہ انکی اپنی کئی تشکیل دی ہوئی بحروں میں سے، ایک میں ہے غزل در خود ساختہ بحر ہم جہاں ہیں، وہاں اِن دنوں عِشْق کا سِلْسِلہ مُختلف ہے کاروبارِ جُنوں عام تو ہے، مگر اِک ذرا مُختلف ہے آج کی رات ننّھی سی لو بھی، اگر بچ رہے تو غنیمتاے چراغِ...
  8. طارق شاہ

    افتخار عارف وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا

    غزل وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا اک جاگنے والا مری تقدیر میں ہوتا اک عالم خوبی ہے میّسر، مگر اے کاش اس گُل کاعلاقہ، مری جاگیر میں ہوتا اُس آہوئے رم خوردہ وخوش چشْم کی خاطر اک حلقۂ خوشبو مری زنجیر میں ہوتا مہتاب میں اک چاند سی صورت نظرآتی نسبت کا شرف سِلسِلۂ میر میں ہوتا مرتا بھی جو...
  9. طارق شاہ

    افتخار عارف جو فیض سے شرفِ استفادہ رکھتے ہیں

    نذر فیض افتخار عارف جو فیض سے شرفِ استفادہ رکھتے ہیں کچھ اہلِ درد سے نِسبت زیادہ رکھتے ہیں رُمُوزِ مُملکتِ حرْف جاننے والے دِلوں کو صُورتِ معنی کشادہ رکھتے ہیں شبِ ملال بھی، ہم رہْروانِ منزلِ عِشْق وصالِ صُبْح سفر کا اِرادہ رکھتے ہیں جمالِ چہرۂ فردا سے، سُرخ رُو ہے جو خواب اُس ایک...
  10. علی فاروقی

    افتخار عارف بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے ۔ افتخار عارف

    بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی میرا ہے آنکھیں بھی میری خوابِ پریشاں بھی میرا ہے جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی میرا ہے جو ہاتھ اُٹھے تھے وہ سبھی ہاتھ تھے میرے جو چاک ہو اہے وہ گریباں بھی میرا ہے جس کی کوئی آواز نہ پہچان نہ منزل وہ قافلہِ بے سر...
  11. علی فاروقی

    افتخار عارف حجرہ جاں میں باغ کی جانب ایک نیا در باز کیا ،،،،افتخار عارف

    حجرہ جاں میں باغ کی جانب ایک نیا در باز کیا ہم نے میر سے رو تابی کی بدعت کا آغاز کیا خوابوں کی پسپائ کے چرچے گلی گلی تھے جب ہم نے دل کے ہاتھ پہ بیعت کر لی دنیا کو ناراض کیا جانے وہ کیسا موسم تھا جس نے بھری بہار کے بعد اُ س گُل کو شادابی بخشی ہم کو دست دراز کیا زندہ لفظ کے مدّ مقابل...
  12. علی فاروقی

    افتخار عارف غزل-غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئ تو کیا-افتخار عارف

    غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئ تو کیا گھر کو جلا کے خا ک اُڑا دی گئ تو کیا غارتِ گریِ شہر میں شامل ہے کون کون یہ بات اہلِ شہر پر کھل بھی گئ تو کیا اِک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا اِک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئ تو کیا میثاقِ اعتبارمیں تھی اِک وفا کی شرط اِک شرط ہی تو تھی جو اُٹھا دی گئ تو...
  13. علی فاروقی

    افتخار عارف غزل- بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہوگا-افتخار عارف

    بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا چراغِ حجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لو ہو ا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا کہانی آپ اُلجھی ہے کہ اُلجھائی گئی ہے یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشا ختم ہو...
  14. ظ

    افتخار عارف سورج تھے ، چراغِ کفِ جادہ میں نظر آئے ( افتخار عارف )

    سورج تھے ، چراغِ کفِ جادہ میں نظر آئے ہم ایسے سمندر تھے کہ دریا میں نظر آئے دنیا تھی رگ و پے میں سمائی ہوئی ایسی ضد تھی کہ سبھی کچھ اسی دنیا میں نظر آئے سرمایہِ جاں لوگ ، متاعِ دو جہاں لوگ دیکھا تو سبھی اہل تماشا میں نظر آئے خود دامنِ یوسف کی تمنا تھی کہ ہو چاک اب کہ وہ ہنر ،...
  15. ظ

    افتخار عارف سرِ بام ہجر دیا بُجھا تو خبر ہوئی ( افتخار عارف )

    سرِ بام ہجر دیا بُجھا تو خبر ہوئی سرِشام کوئی جدا ہوا تو خبر ہوئی مرا خوش خرام ، بلا کا تیز خرام تھا مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی مرے سارے حرف تمام حرفِ عذاب تھے مرے کم سُخن نے سُخن کیا تو خبر ہوئی کوئی بات بن کے بگڑ گئی تو پتہ چلا مرے بےوفا نے کرم کیا تو خبر ہوئی مرے...
  16. فرخ منظور

    افتخار عارف جاہ و جلال دام و درم اور کتنی دیر۔ افتخار عارف

    غزل بشکریہ مہر فاطمہ ون اردو فورم جاہ و جلال, دام و درم اور کتنی دیر ریگِ رواں پہ نقش قدم اور کتنی دیر اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف گرد و غبار عہدِ ستم اور کتنی دیر حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیان یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر پل بھر میں ہو رہے گا حسابِ نبود و بود پیچ و خم و...
  17. محمداحمد

    افتخار عارف غزل ۔ یہ مشقِ تیر سنان و سنگ بہانہ کر ۔ افتخار عارف

    غزل یہ مشقِ تیر سنان و سنگ بہانہ کر گہرِ کلاہِ امیرِ شہر نشانہ کر یہی طنطنہ یہی دبدبہ یہی طمطراق اس طمطراق کو ٹھوکروں میں روانہ کر تجھے موت آئے جوازِ راہِ مفر نہ ڈھونڈ ترے سر پہ خاک ، دل اس قدر بھی برا نہ کر وہ بات جس سے نزار ہے تری جانِ زار وہی بات کہہ کے ادائے قرضِ زمانہ کر...
  18. محمداحمد

    افتخار عارف غزل۔ عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی ۔ افتخار عارف

    غزل عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی نئے سفر کے لئے راستہ نہ مانگے کوئی بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی تمام شہر مکّرم بس ایک مجرم میں سو میرے بعد مرا خوں بہا نہ مانگے کوئی کوئی تو شہرِ تذبذب کے ساکنوں سے کہے نہ ہو یقین تو پھر معجزہ نہ...
  19. محمداحمد

    افتخار عارف غزل ۔ جُنوں کا رنگ بھی ہو شعلہ نمو کا بھی ہو ۔ افتخار عارف

    غزل جُنوں کا رنگ بھی ہو شعلہ نمو کا بھی ہو سکُوتِ شب میں اک انداز گفتگو کا بھی ہو میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو وُہ جس کے چاک گریباں پہ تہمتیں ہیں بہت اسی کے ہاتھ میں شاید ہنر رفو کا بھی ہو وہ جس کے ڈوبتے ہی ناؤ ڈگمگانے لگی کسے خبر...
  20. محمداحمد

    افتخار عارف غزل۔ حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے ۔ افتخار عارف

    غزل حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے اس بار بھی دنیا نے ہدف ہم کو بنایا اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے بیچ آئے سرِ قریۂ زر جوہرِ پندار جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اُتارے ہیں جو...
Top