امان زرگر

  1. امان زرگر

    حمد مثنوی کے انداز میں ایک کوشش

    ۔۔۔ فعولن فعولن فعولن فعو کے وزن پر مثنوی کے انداز میں حمد۔ افق سے جو مژدہ سحر کا ملا مرے گھر کا آنگن بھی روشن ہوا ادا سے پہن کر نئے پیرہن سجائے گل و لالہ نے سارے بن لہکتی پھرے بادِ صبحِ چمن جو مہکائے پل بھر میں کوہ و دمن دمک شبنمی قطروں کی گھاس میں چمک یہ گہر میں نہ الماس میں یہ سرمست...
  2. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (میں، تم اور شاعری)

    ۔۔۔ میں، تم اور شاعری زندگانی ہے کیا تیری میری صنم پانیوں میں کھلا ایک رنگیں کنول یا کسی شاہ کا خوبصورت محل اک مصور کی شہ کار تصویر ہے ایک شاعر کے خوابوں کی تعبیر ہے ایک موزوں و منظوم اظہار ہے یہ فصاحت بلاغت کا معیار ہے سات شعروں کی ہے خوشنما اک غزل جس کا دنیا میں اب تک نہیں ہے بدل اک تسلسل...
  3. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 64)

    ۔۔۔ میں بکھرا ہوں سمیٹے گا مگر آہستہ آہستہ وہ کچھ ہونٹوں سے بولے گا مگر آہستہ آہستہ اسے تم دھوتے جاؤ بس ذرا نمکین پانی سے یہ دل کا زنگ اترے گا مگر آہستہ آہستہ سبب اس خستہ حالی کا کبھی چاہے تو نام اپنا مرے چہرے سے پڑھ لے گا مگر آہستہ آہستہ بس اب ہے ختم ہونے کو شبِ تاریک کا قصہ شفق میں رنگ...
  4. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 63)

    ۔۔۔ گواہ دار ہے میری یہ آبلہ پائی کہ دشت چھانتا پھرتا ہے تیرا سودائی بُنے گا جھونکا کوئی رہ گزر تبھی بادل چلیں گے بامِ افق سے بہ کوئے صحرائی فریبِ ذات سے نکلا، جنوں نے گھیر لیا بھٹکتا پھرتا ہوں ڈالے گلے میں رسوائی خزاں رسیدہ سہی دشت میں کھڑا تو ہے اس ایک پیڑ سے چڑیوں کی آس بھر آئی بہت کثیف...
  5. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 62)

    ... یہ نگارِ شام ہو پر لطف گر ایسا کریں سامنے بیٹھے رہیں وہ ہم انہیں دیکھا کریں دل ہو پر امید وہ آ کر ملیں گےخواب میں پھر خیالِ یار میں ہم رات بھر سویا کریں ہم ادا کرتے پھریں گے ان کی گلیوں کو خراج بام پر وہ آئیں، ہم کوچے سے جب گزرا کریں وہ لبِ دریا ہی گہرائی ہیں بیٹھے سوچتے کھوج پائیں گہرے...
  6. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 61)

    ۔۔۔ تجھے بام پر جو صنم دیکھتے ہیں دل و جاں ہتھیلی پہ ہم دیکھتے ہیں بیاں خستہ حالی کروں اور کیسے وہ چہرے پہ آنسو رقم دیکھتے ہیں کہاں اتنی فرصت دلِ مبتلا کو! وہ سود و زیاں بیش و کم دیکھتے ہیں اشاروں میں آنکھوں کے جادو چھپا ہے بیاں میں بھی اک زیر و بم دیکھتے ہیں نہیں کچھ کمی جذب و مستی میں...
  7. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 60)

    دیکھ کر ہنس دیا میرا سایہ مجھے اس جنوں نے تماشا بنایا مجھے لٹ گئے خواب سارے مری آنکھ سے یوں شبِ تار نے پھر ڈرایا مجھے سارے برباد کرنے پہ آمادہ تھے پھر جنوں نے مرے آ بچایا مجھے ہجر کی لمبی راتوں میں تیرے سوا کس تصور نے آ کر ستایا مجھے! ٹکڑے اس دوش میں آئینے کے ہوئے روپ اس نے مرا بس دکھایا...
  8. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 59)

    ۔۔۔۔۔۔۔۔ تیز ناوک ہے مژہ اور یہ ابرو ہیں کماں آج بدلے ہوئے لگتے ہیں کچھ اندازِ شہاں میری تشکیل کے لمحے یہ ہوا حکم رواں ہو جگر قیس کا منصور کی دو اس کو زباں باز آئیں وہ ستم سے جو کبھی دم بھر کو کھول کر سینہ میں دکھلاؤں دلِ سنگِ گراں آشیاں برقِ تپاں روز جلاتی ہے مرا اور بھی آباد ہیں لاکھوں خس...
  9. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 58)

    ۔۔۔۔ ہو شرحِ زبوں حالی، نا گاہ ملے تاثیر اے آہِ دلِ سوزاں! افلاک کا سینہ چیر اس واسطے نالاں ہیں یہ لالہ و گل ہم سے رکھی ہے مقابل میں ہم نے جو تری تصویر خوش رو جو سرِ محفل بے پردہ ہیں آ بیٹھے بے باک نگاہوں سے ہو جائے گی پھر تقصیر اک لذتِ آزارِ جاں باقی رہے دل میں پیوست جگر میں یہ رہنے دے نظر...
  10. امان زرگر

    گزشتہ شب یوں لگا کہ اندر سے کٹ رہا ہوں ٭ عمیر نجمی

    ... گزشتہ شب ۔۔۔ یوں لگا کہ اندر سے کٹ رہا ہوں میں اِس اذیّت میں ' ساٹھ پینسٹھ مِنٹ رہا ہوں تو مجھ کو رونے دے یار! شانے پہ ہاتھ مت رکھ میں گیلے کاغذ کی طرح چُھونے سے پَھٹ رہا ہوں یقین کر ۔۔ سخت' سرد ' بےجان آدمی تھا گلے مِلا تو لگا ستوں سے لِپٹ رہا ہوں وہ ہجر تھا ' جس نے نم کیا اور بَل...
  11. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 57)

    ۔۔۔ ابرِ گوہر زیرِ بارِ منتِ درباں ہوا گھر مرے وہ نو بہارِ ناز جو مہماں ہوا کل نسیمِ سحر وادی میں تھی نازاں گھومتی دستِ گلچیں جس کے باعث واقفِ خوباں ہوا چھو لیا بادِ صبا نے پتیوں کو دفعتاً پھول سے وہ بلبلِ زار اس لئے نالاں ہوا کچھ کہا جب آ کے گل کے کان میں صیاد نے صحنِ گلشن میں نئی تخریب کا...
  12. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 56)

    ۔۔۔ نقش گلشن میں سجا کر چل دیئے گل کو وہ پردہ بنا کر چل دیئے غیر کی تہذیب ہے تو آپ کیوں آئینے سے منہ چھپا کر چل دیئے جب نکالا اس نے محفل سے تو ہم درد ماتھے پر سجا کر چل دیئے دفعتاً دیکھا مجھے محفل میں جب شرم سے آنچل گرا کر چل دیئے مرکزی کردار تھا اپنا جہاں عین اس لمحے بس آ کر چل دیئے مجھ...
  13. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 55)

    ۔۔۔ اک صدائے کن سے یہ عالم ہویدا ہو گیا کھودنے کو جوئے شیریں عشق تیشا ہو گیا چھپ گئے تارے فلک پر چودھویں کی رات میں آج کی شب چاند جوبن پر تھا، تنہا ہو گیا چاک سینے کی طلب میں چبھ گیا تارِ رفو یوں مرا زخمِ جگر کچھ اور گہرا ہو گیا جب گلوں کے ساتھ دیکھے گلستاں میں خار بھی کارگاہِ دہر میں دل کو...
  14. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 54)

    ۔۔۔ کس آس پہ آیا ہوں سرِ راہ گزر آج کچھ بھی تو نہیں پاس مرے زادِ سفر آج اک تا بہ افق زرد سی رنگت کا دھواں ہے پھیلا ہوا ہے ایک فلک حدِ نظر آج احساس نہ ہو سجدہ کناں تیری جبیں سے بے کار ہے تسبیح بھی اور دیدۂِ تر آج یہ ظلم فقط تیری ہی بستی میں روا ہے ملتا ہے بدل میں جو ہر اک گل کے شرر آج پابندِ...
  15. امان زرگر

    عروضیے از افتخار حیدر

    ... عروضیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلے کٹے ،بھنے ہوئے ،سڑے ہوئے عروضیے جما لیا ت کے عدو یہ شاعری کے مستری الف گرا گئے کہیں ،کہیں پہ ی بٹھا گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات بات پر لڑیں ۔بگڑ پڑیں ،جھگڑ پڑیں کوئی کہے روا ہے یوں کوئی کہے روا نہیں یہ صف بہ صف ادھر ادھر بٹے ہوئے عروضیے...
  16. محمد طلحہ گوہر چشتی

    کیوں لگے ہے مجھ کو اکثر یہ جہاں دیکھا ہُوا

    غزل کیوں لگے ہے مجھ کو اکثر یہ جہاں دیکھا ہُوا چاند، سورج، کہکشائیں، آسماں دیکھا ہُوا دیکھا ہے جب سے تمہیں، لگتا ہے کچھ دیکھا نہیں زُعم تھا مجھ کو کہ ہے سارا، جہاں دیکھا ہُوا تم مجھے حیران بھی کر سکتے ہو سوچا نہ تھا ایسا چہرہ آنکھ نے تھا ہی کہاں دیکھا ہُوا دیکھ رکھے دوستی کے نام پر دھوکے بہت...
  17. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل-54)

    ۔۔۔۔ دہشتِ حسن سے مرعوب ہوا لشکرِ دل کچھ نگاہوں سے نگاہوں کی ہوئی ایسی جھڑپ یا دہشتِ حسن سے مرعوب ہوا لشکرِ دل بس نگاہوں سے نگاہوں کی ہوئی ایک جھڑپ یا دہشتِ حسن سے مرعوب ہوا لشکرِ دل بس نگاہوں کی نگاہوں سے ہوئی ایک جھڑپ آخرِ شب میں دیا جب کہ بجھا چاہتا ہے شعلۂِ عشق کی کچھ اور بڑھی جائے تڑپ یا...
  18. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 53)

    ۔۔۔ ہجومِ آفات کے مقابل ہے ذات میری اُڑے گی دنیا میں خاک بن کر حیات میری عجیب طوفانِ معصیت ہے بپا جہاں میں تو حشر میں بھی طفیل اس کے نجات میری! مزاجِ اربابِ فکر و فن کو گراں نہ گزرے تو ہے خیالاتِ چرخِ نو سے برات میری ثبات ذوقِ نمو سے قائم ہے اس چمن میں فروغِ کن سے جڑی ہے یہ کائنات میری مزاجِ...
  19. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 52)

    ۔۔۔ وہ عشق جو تھا، پہاڑ کیسے اکھڑ نہ جاتا! وگرنہ کوشش عبث تھی پل میں پچھڑ نہ جاتا! جڑا رہا تلخ موسموں میں بھی شاخ سے جو وہ زرد پتا ذرا لرزنے پہ جھڑ نہ جاتا! نئے زمانے کے طور مجھ کو ہلا ہی دیتے قدم جو چرخِ کہن پہ ہوتا، اکھڑ نہ جاتا! کسی بھی جانب سے اک تشفی کا لفظ سنتا ستم رسیدہ سہی میں طوفاں...
  20. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 51)

    ۔۔۔ بات دل میں نہیں کو بہ کو بھی نہیں کم سخن سے مری گفتگو بھی نہیں سانس بھی مشک بو دھڑکنیں بھی رواں گرچہ اب وہ مرے رو برو بھی نہیں کل تلک ڈھونڈتی تھی نظر بام و در آج دل میں غمِ آرزو بھی نہیں شوقِ منزل، نوائے رحیلِ سفر آبلہ پا کو اب جستجو بھی نہیں کیوں عدو تیری محفل میں لوٹے گا اب میرے جیسا...
Top