سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
شبِ فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
سوالِ وصل پر اُن کو عدو کا خوف ہے اِتنا
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں...
ہم لوٹتے ہیں وہ سو رہے ہیں
کیا ناز و نیاز ہو رہے ہیں
کیا رنگ جہاں میں ہو رہے ہیں
دو ہنستے ہیں چار رو رہے ہیں
دنیا سے الگ جو ہو رہے ہیں
تکیوں میں مزے سے سو رہے ہیں
پہنچی ہے ہماری اب یہ حالت
جو ہنستے تھے وہ بھی رو رہے ہیں
تنہا تہ خاک بھی نہیں ہم
حسرت کے ساتھ سو رہے ہیں
سوتے ہیں لحد میں سونے...
یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا، پتا کہاں کوئے نازنیں کا
غبار آسا نہیں کہیں کا، نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا
بڑھے سلیماں کے جتنے رتبے، تمہاری الفت کے تھے کرشمے
یہ نقش جس دل میں جم کے بیٹھے، بلند ہو نام اس نگیں کا
کہاں کا نالہ، کہاں کا شیون، سنائے قاتل ہے وقتِ مردن
قلم ہوئی ہے بدن سے گردن، زباں...
کبابِ سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں
جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں
سیہ پوشاک بن کر خانۂ کعبہ میں جا پہنچے
بلا کا بھیس او کافر ترے گیسو بدلتے ہیں
بہار آئی ہے صبحِ عید کا عالم ہے گلشن میں
نئی پوشاک شمشادِ کنارِ جُو بدلتے ہیں
نزاعِ کفر و دیں ہے دُور دَورِ زلف و عارض میں
مسلمانوں...
غزل
عِشق میں جینے کے بھی لالے پڑے
ہائے کِس بیدرد کے پالے پڑے
وادئ وحشت میں جب رکھّا قدم
آ کے میرے پاؤں پر چھالے پڑے
دِل چلا جب کوُچۂ گیسو کی سمت
کوس کیا کیا راہ میں کالے پڑے
دُور تھا، زندا تھے کیا دشتِ جنوُں
چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑے
کِس نگر نے کردِیا عالم کو مست
ہر جگہ لاکھوں ہیں...
غزل
مُوئے مِژگاں سے تِرے سینکڑوں مرجاتے ہیں
یہی نشتر تو رگِ جاں میں اُتر جاتے ہیں
حرم و دیر ہیں عُشاق کے مُشتاق، مگر
تیرے کوُچے سے اِدھر یہ نہ اُدھر جاتے ہیں
کوچۂ یار میں اوّل تو گُزر مُشکل ہے
جو گُزرتے ہیں، زمانے سے گُزر جاتے ہیں
شمع ساں جلتے ہیں جو بزمِ محبّت میں تِرے
نام روشن وہی...
ُ
غزل
نِیم جاں چھوڑ گئی نِیم نِگاہی تیری
زندگی تا صد و سی سال الٰہی تیری
ناز نیرنگ پہ، اے ابلقِ ایّام نہ کر
نہ رہے گی یہ سفیدی یہ سِیاہی تیری
دِل تڑپتا ہے تو کہتی ہیں یہ آنکھیں رو کر
اب تو دیکھی نہیں جاتی ہے تباہی تیری
کیا بَلا سے توُ ڈراتی ہے مجھے، اے شَبِ گور
کچھ شبِ ہجْر سے بڑھ کر ہے...
رندِ خراب تیرا، وہ مے پیے ہوئے ہے
لذّت سے جان جس پر زاہد دیے ہوئے ہے
کس شان سے وہ مے کش آتا ہے مے کدے میں
قاضی سبو، صراحی مفتی لیے ہوئے ہے
آتا نہیں نظر کچھ، گو سامنا ہے اس کا
کیا بیچ میں تحیّر پردہ کیے ہوئے ہے
ہو کون بخیہ گر سے زخمی کا تیرے ساعی
رشتہ کھنچا ہے سوزن، منہ کو سیے ہوئے ہے
پیرِ...
غزلِ
امیر مینائی
گھر گھر تجلّیاں ہیں طلبگار بھی تو ہو
موسیٰ سا کوئی طالبِ دیدار بھی تو ہو
اے تیغِ یار! کیا کوئی قائل ہو برق کا
تیری سی اُس میں تیزئ رفتار بھی تو ہو
دِل درد ناک چاہیے لاکھوں میں خُوب رُو
عیسیٰ ہیں سینکڑوں کوئی بیمار بھی تو ہو
چھاتی سے میں لگائے رہُوں کیوں نہ داغ کو
اے...
رندِ خراب تیرا، وہ مے پیے ہوئے ہے
لذّت سے جان جس پر زاہد دیے ہوئے ہے
کس شان سے وہ مے کش آتا ہے مے کدے میں
قاضی سبو، صراحی مفتی لیے ہوئے ہے
آتا نہیں نظر کچھ، گو سامنا ہے اس کا
کیا بیچ میں تحیّر پردہ کیے ہوئے ہے
ہو کون بخیہ گر سے زخمی کا تیرے ساعی
رشتہ کھنچا ہے سوزن، منہ کو سیے ہوئے ہے
پیرِ...
نعت کا لفظ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذات گرامی اور صفات حمیدہ و طیبہ کے بیان کے لیے مخصوص ہے _ دوسری ہستیوں کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان میں وصف، مدح، مدحت، منقبت، تعریف، توصیف اور دیگر الفاظ استعمال ہوئے لیکن لفظ نعت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کے...
غزلِ غالب
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں...
امیر مینائی کا مشہور شعر ہے:
وہ تجھے بھول گئے، تجھ پہ بھی لازم ہے امیر
خاک ڈال ، آگ لگا، نام نہ لے، یاد نہ کر
کیا خوب شعر ہے اور کس کیفیت کو کیا الگ رنگ میں بیان کیا ہے مینائی نے، کہ کم کسی کے کہنے میں لفظ ایسے ہوتے ہیں ، جیسے امیر کے کہنے میں تھے۔
آج ہی محترم یعقوب آسی صاحب کا اس شعر کا...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں
خضر کیا جانیں مرگ کی لذت
اس مزے سے وہ آشنا ہی نہیں
شعر وصفِ دہن میں سُن کے کہا
ایسا مضمون کبھی سُنا ہی نہیں
کس طرح جائیں اُن کی محفل میں
جن کے دل میں ہماری جا ہی نہیں
کیا سُنیں گے وہ...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
دامنِ رحمت اگر آیا ہمارے ہاتھ میں
پھول ہوجائیں گے دوزخ کے شرارے ہاتھ میں
گل ترے پھلوں کے ہیں اے گل جو سارے ہاتھ میں
باغ الفت کا ہے گلدستہ ہمارے ہاتھ میں
پوچھتے ہو کس سے جو چاہو کرو مختار ہو
دل تمہارے ہاتھ میں ہے یا ہمارے ہاتھ میں
اے پری افشاں...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
یہ چرچے، یہ صحبت، یہ عالم کہاں
خدا جانے ، کل تم کہاں، ہم کہاں
جو خورشید ہو تم تو شبنم ہیں ہم
ہوئے جلوہ گر تم تو پھر ہم کہاں
حسیں قاف میں گوکہ پریاں بھی ہیں
مگر اِن حسینوں کا عالم کہاں
الٰہی ہے دل جائے آرام غم
نہ ہوگا جو یہ جائے گا غم کہاں...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
دل جو سینے میں زار سا ہے کچھ
غم سے بے اختیار سا ہے کچھ
رخت ہستی بدن پہ ٹھیک نہیں
جامہء مستعار سا ہے کچھ
چشم نرگس کہاں وہ چشم کہاں
نشہ کیسا خمار سا ہے کچھ
نخل اُمید میں نہ پھول نہ پھل
شجرِ بے بہار سا ہے کچھ
ساقیا ہجر میں یہ ابر نہیں
آسمان پر...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا
ہم آج پیر ہوئے کیا کبھی شباب نہ تھا
شبِ فراق میں کیوں یارب انقلاب نہ تھا
یہ آسمان نہ تھا یا یہ آفتاب نہ تھا
لحاظ ہم سے نہ قاتل کا ہوسکا دمِ قتل
سنبھل سنبھل کے تڑپتے وہ اضطراب نہ تھا
اُسے جو شوقِ سزا ہے مجھے...