امیر مینائی

  1. کاشفی

    امیر مینائی میں الفت کے وہ حسن کے جوش میں - امیر مینائی

    غزل (امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ) میں الفت کے، وہ حسن کے جوش میں نہ میں ہوش میں ہوں ، نہ وہ ہوش میں لٹک کر وہ زلف آئی ہے تاکمر کہ لیلٰی ہے مجنوں کے آغوش میں نہ اُٹھو ابھی بزم سے مے کشو ہمیں بھی تو آلینے دو ہوش میں نکل آنکھ سے اشک ٹھہرا ہے کیا گہر ہو کبھی اس بنا گوش میں...
  2. کاشفی

    امیر مینائی اے ضبط دیکھ عشق کی اُن کو خبر نہ ہو - امیر مینائی

    غزل (امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ) اے ضبط دیکھ عشق کی اُن کو خبر نہ ہو دل میں ہزار درد اُٹھے آنکھ تر نہ ہو مدت میں شام وصل ہوئی ہے مجھے نصیب دو چار سو برس تو الہٰی سحر نہ ہو اک پھول ہے گلاب کا آج اُن کے ہاتھ میں دھڑکا مجھے یہ ہے کہ کسی کا جگر نہ ہو ڈھونڈھے سے بھی نہ معنی باریک جب...
  3. کاشفی

    امیر مینائی پہلے تو مجھے کہا نکالو - امیر مینائی

    غزل (امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ) پہلے تو مجھے کہا نکالو پھر بولے غریب ہے بلا لو بیدل رکھنے سے فائدہ کیا تم جان سے مجھ کو مار ڈالو اُس نے بھی تو دیکھیں ہیں یہ آنکھیں آنکھ آر سی پر سمجھ کے ڈالو آیا ہے وہ مہ، بجھا بھی دو شمع پروانوں کو بزم سے نکالو گھبرا کے ہم آئے تھے سوئے حشر...
  4. کاشفی

    امیر مینائی خلق کے سرور شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم - امیر مینائی

    بسم اللہ الرحمن الرحیم سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم الھم صلی علی محمد ﷺ وعلی آل محمد ﷺ نعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلق کے سرور شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم مرسل داور خاص پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم نورمجسم، نیّر اعظم، سرور عالم، مونسِ آدم نوح کے ہمدم، خضر کے رہبر، صلی...
  5. فاتح

    امیر مینائی سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ۔ امیر مینائی

    یہ سب ظہورِ شانِ حقیقت بشر میں ہے جو کچھ نہاں تھا تخم میں، پیدا شجر میں ہے ہر دم جو خونِ تازہ مری چشمِ تر میں ہے ناسور دل میں ہے کہ الٰہی جگر میں ہے کھٹکا رقیب کا نہیں، آغوش میں ہے یار اس پر بھی اک کھٹک سی ہمارے جگر میں ہے واصل سمجھیے اس کو جو سالک ہے عشق میں منزل پہ جانیے اسے جو رہگزر میں ہے...
  6. فاتح

    دواوینِ امیر مینائی ڈاؤن لوڈ کیجیے

    حضرت امیر مینائی کے دواوین ڈاؤن لوڈ کیجیے۔ بشکریہ "آرکائیو ڈاٹ کام" دیوانِ امیر مینائی معروف بہ "صنم خانۂ عشق" دیوانِ امیر مینائی معروف بہ اسم تاریخی "مراۃ الغیب" (1289 ہجری / 1872 عیسوی)
  7. کاشفی

    امیر مینائی تیرے جوروستم اُٹھائیں ہم - امیر مینائی

    غزل (امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ) تیرے جوروستم اُٹھائیں ہم یہ کلیجا کہاں سے لائیں ہم جی میں ہے اب وہاں نہ جائیں ہم دل کی طاقت بھی آزمائیں ہم نالے کرتے نہیں یہ الفت میں باندھتے ہیں تری ہوائیں ہم اب لب یار کیا ترے ہوتے لب ساغر کو منہ لگائیں ہم دل میں تم، دل ہے سینہ سے خود گم...
  8. کاشفی

    امیر مینائی جب یار ہوا جفا کے قابل - امیر مینائی

    غزل (امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ) جب یار ہوا جفا کے قابل تب ہم نہ رہے وفا کے قابل ہے خوف سے سارے تن میں رعشہ اب ہاتھ کہاں دعا کے قابل آئے مجھے دیکھنے اطبّا جب میں نہ رہا دوا کے قابل بولے مرے دل پہ پیس کر دانت یہ دانہ ہے آسیا کے قابل کلفت سے امیر صاف کر دل یہ آئینہ ہے جلا کے...
  9. فاتح

    امیر مینائی چاند سا چہرہ، نور سی چتون، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ! ۔ امیر مینائی

    چاند سا چہرہ، نور سی چتون، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ! خوب نکالا آپ نے جوبن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ! گُل رُخِ نازک، زلف ہے سنبل، آنکھ ہے نرگس، سیب زنخداں حُسن سے تم ہو غیرتِ گلشن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ! ساقیِ بزمِ روزِ ازل نے بادۂ حسن بھرا ہے اس میں آنکھیں ہیں ساغر، شیشہ ہے گردن، ماشاء اللہ...
  10. فاتح

    امیر مینائی ایک ہے میرے حضر اور سفر کی صورت ۔ امیر مینائی

    ایک ہے میرے حضر اور سفر کی صورت گھر میں ہوں گھر سے نکل کر بھی نظر کی صورت چشمِ عشاق سے پنہاں ہو نظر کی صورت وصل سے جان چراتے ہو کمر کی صورت ہوں وہ بلبل کہ جو صیاد نے کاٹے مرے پر گر گئے پھول ہر اک شاخ سے پر کی صورت تیرے چہرے کی ملاحت جو فلک نے دیکھی پھٹ گیا مہر سے دل شیرِ سحر کی صورت جھانک کر...
  11. کاشفی

    امیر مینائی یوں دل مرا ہے اُس صنمِ دلرُبا کے پاس - امیر مینائی

    غزل (امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ) یوں دل مرا ہے اُس صنمِ دلرُبا کے پاس جس طرح آشنا کسی ناآشنا کے پاس بولا وہ بُت سرہانے مرے آکے وقتِ نزع فریاد کو ہماری چلے ہو خدا کے پاس؟ توفیق اتنی دے مجھے افلاس میں خدا حاجت نہ لے کے جاؤں کبھی اغنیا کے پاس رہتے ہیں ہاتھ باندھے ہوئے...
  12. کاشفی

    امیر مینائی وا کردہ چشم دل صفتِ نقش پا ہوں میں - امیر مینائی

    غزل (امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ) وا کردہ چشم دل صفتِ نقش پا ہوں میں ہر رہ گزر میں راہ تری دیکھتا ہوں میں مطلب جو اپنے اپنے کہے عاشقوں نے سب وہ بُت بگڑ کے بول اُٹھا ، کیا خدا ہوں میں اے انقلابِ دہر، مٹاتا ہے کیوں مجھے نقشے ہزار وں مٹ گئے ہیں تب بنا ہوں میں محنت یہ کی کہ فکر کا...
  13. کاشفی

    امیر مینائی میرے بس میں ، یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا - امیر مینائی

    غزل (امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ) میرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا پس مرگ کاش یوں ہی مجھے وصل یار ہوتا وہ سر مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا مرے اتقا کا باعث...
  14. کاشفی

    امیر مینائی اِن شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا - امیرمینائی

    غزل (امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ) اِن شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا کچھ اور بلا ہوتی ہےوہ، دل نہیں ہوتا آتا ہے جو کچھ منہ میں وہ کہہ جاتا ہے واعظ اور اُس پہ یہ طرّہ ہے کہ قائل نہیں ہوتا جب درد محبت میں یہ لذّت ہے تو یارب ہر عضو میں، ہر جوڑ میں، کیوں دل نہیں ہوتا دیوانہ ہے،...
  15. کاشفی

    امیر مینائی ہم لوٹتے ہیں، وہ سو رہے ہیں - امیر مینائی

    غزل (امیر مینائی) ہم لوٹتے ہیں، وہ سو رہے ہیں کیا ناز و نیاز ہو رہے ہیں پہنچی ہے ہماری اب یہ حالت جو ہنستے تھے وہ بھی رو رہے ہیں پیری میں بھی ہم ہزار افسوس بچپن کی نیند سو رہے ہیں روئیں گے ہمیں رُلانے والے ڈوبیں گے وہ جو ڈبو رہے ہیں کیوں کرتے ہیں غمگسار تکلیف آنسو مرے مُنہ...
  16. کاشفی

    امیر مینائی کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا - امیر مینائی

    غزل (امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ) کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا تو ہنس کے بولے وہ منہ قابلِ نقاب نہ تھا شبِ وصال بھی وہ شوخ بے حجاب نہ تھا نقاب اُلٹ کے بھی دیکھا تو بے نقاب نہ تھا لپٹ کے چوم لیا منہ، مٹا دیا انکار نہیں کا اُن کے سوا اس کے کچھ جواب نہ تھا مرے جنازے پہ...
  17. فرخ منظور

    امیر مینائی جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق ۔ امیر مینائی

    غزل جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق ملک الموت ہیں دربان درِ خانۂ عشق مرکزِ خاک ہے دُردِ تہِ پیمانۂ عشق آسماں ظرف بر آوردۂ میخانۂ عشق کم بلندی میں نہیں عرش سے کاشانۂ عشق دونوں عالم ہیں دو مصراع درِ خانۂ عشق ہے جو واللیل سرا پردۂ کاشانۂ عشق سورۂ شمس ہے قندیل درِ خانۂ عشق دل مرا شیشہ...
  18. فرخ منظور

    امیر مینائی قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزمِ شراب میں ۔ امیر مینائی

    غزل قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزمِ شراب میں ساقی ہزار شکر خدا کی جناب میں جا پائی خط نے اس کے رخِ بے نقاب میں سورج گہن پڑا شرفِ آفتاب میں دامن بھرا ہوا تھا جو اپنا شراب میں محشر کے دن بٹھائے گئے آفتاب میں رکھا یہ تم نے پائے حنائی رکاب میں یا پھول بھر دئیے طبقِ آفتاب میں تیرِ دعا نشانے پہ...
  19. فرخ منظور

    امیر مینائی شمشیر ہے سناں ہے کسے دوں کسے نہ دوں ۔ امیر مینائی

    غزل شمشیر ہے سناں ہے کسے دوں کسے نہ دوں اِک جانِ ناتواں ہے کسے دوں کسے نہ دوں مہمان اِدھر ہما ہے اُدھر ہے سگِ حبیب اِک مشتِ استخواں ہے کسے دوں کسے نہ دوں درباں ہزار اس کے یہاں ایک نقدِ جاں مال اس قدر کہاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں بلبل کو بھی ہے پھولوں کی گلچیں کو بھی طلب حیران باغباں ہے کسے دوں...
  20. فرخ منظور

    امیر مینائی خیالِ لب میں ابرِ دیدہ ہائے تر برستے ہیں ۔ امیر مینائی

    غزل خیالِ لب میں ابرِ دیدہ ہائے تر برستے ہیں یہ بادل جب برستے ہیں لبِ کوثر برستے ہیں خدا کے ہاتھ ہم چشموں میں ہے اب آبرو اپنی بھرے بیٹھے ہیں دیکھیں آج وہ کس پر برستے ہیں ڈبو دیں گی یہ آنکھیں بادلوں کو ایک چھینٹے میں بھلا برسیں تو میرے سامنے کیونکر برستے ہیں جہاں ان ابروؤں پر میل آیا کٹ...
Top