غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
کیا قصد جب کچھ کہوں اُن کو جل کر
دبی بات ہونٹوں میں منہ سے نکل کر
گرا میں ضعیف اُس کے کوچے کو چل کر
زمیں رحم کر تو ہی پہنچا دے ٹل کر
نئی سیر دیکھو سوئے قاف چل کر
سرِ راہ بیٹھی ہیں پریاں نکل کر
اِدھر کی نہ ہوجائے دنیا اُدھر کو
زمانے...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
خنجرِ قاتل نہ کر اتنا روانی پر گھمنڈ
سخت کم ظرفی ہے اک دو بوند پانی پر گھمنڈ
شمع کے مانند کیا آتش زبانی پر گھمنڈ
صورتِ پروانہ کر سوز نہانی پر گھمنڈ
ہے اگر شمشیر قاتل کو روانی پر گھمنڈ
بسملوں کو بھی ہے اپنی سخت جانی پر گھمنڈ
ناز اُٹھانے کا ہے...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
فنا کیسی بقا کیسی جب اُس کے آشنا ٹھہرے
کبھی اس گھر میں آنکلے کبھی اُس گھر میں جا ٹھہرے
نہ ٹھہرا وصل، کاش اب قتل ہی پر فیصلا ٹھہرے
کہاں تک دل مرا تڑپے کہاں تک دم مرا ٹھہرے
جفا دیکھو جنازے پر مرے آئے تو فرمایا
کہو تم بے وفا ٹھہرے کہ اب ہم بے وفا...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
عجب عالم ہے اُس کا، وضع سادی، شکل بھولی ہے
کبھی جاتی ہے دل میں، کیا رسیلی نرم بولی ہے
ادائیں کھیلتی ہیں رنگ، تلوار اُس نے کھولی ہے
لہو کی چلتی ہیں پچکاریاں، مقتل میں ہولی ہے
بہار آئی، چمن ہوتا ہے مالا مال دولت سے
نکالا چاہتے ہیں زرگرہ غنچوں نے...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
کون بیماری میں آتا ہے عیادت کرنے؟
غش بھی آیا تو مِری روح کو رخصت کرنے
اُس کو سمجھاتے نہیں جاکے کسی دن ناصح
روز آتے ہیں مجھ ہی کو یہ نصیحت کرنے
تیر کے ساتھ چلا دل، تو کہا میں نے، کہاں؟
حسرتیں بولیں کہ، مہمان کو رخصت کرنے
آئے میخانے میں، تھے پیرِ...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
تیغِ قاتل پہ ادا لوٹ گئی
رقصِ بسمل پہ قضا لوٹ گئی
ہنس پڑے آپ، تو بجلی چمکی
بال کھولے، تو گھٹا لوٹ گئی
اس روش سے وہ چلے گلشن میں
بِچھ گئے پھول صبا لوٹ گئی
خنجرِ ناز نے کشتوں سے امیر
چال وہ کی کہ قضا لوٹ گئی
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
جب خوبرو چھپاتے ہیں عارض نقاب میں
کہتا ہے حُسن میں نہ رہوں گا حجاب میں
بے قصد لکھ دیا ہے گِلہ اِضطراب میں
دیکھوں کہ کیا وہ لکھتے ہیں خط کے جواب میں
بجلی چمک رہی ہے فلک پر سحاب میں
اب دختِ رز کو چین کہاں ہے حجاب میں
اللہ رے میرے دل کی تڑپ اضطراب...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
ایک دلِ ہمدم، مرے پہلو سے، کیا جاتا رہا
سب تڑپنے تلملانے کا مزا جاتا رہا
سب کرشمے تھے جوانی کے، جوانی کیا گئی
وہ اُمنگیں مِٹ گئیں، وہ ولوَلا جاتا رہا
درد باقی، غم سلامت ہے، مگر اب دل کہاں
ہائے وہ غم دوست، وہ درد آشنا جاتا رہا
آنے والا، جانے...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
منہ پھر نہ کر وطن کی طرف یوں وطن کو چھوڑ
چھوٹے جو بوے گل کی طرح سے چمن کو چھوڑ
اے روح، کیا بدن میں پڑی ہے بدن کو چھوڑ
میلا بہت ہوا ہے، اب اس پیرہن کو چھوڑ
ہے روح کو ہوس کہ نہ چھوڑے بدن کا ساتھ
غربت پکارتی ہے کہ غافل، وطن کو چھوڑ
کہتی ہے بوے گل سے...
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
زلفیں آئی ہیں لٹک کر روئے جاناں کی طرف
پاؤں پھیلائے ہیں اس کافر نے قرآں کی طرف
گھر سے اُٹھے تھے کہ جائیں گے گلستاں کی طرف
وحشتِ دل لے چلی ہم کو بیاباں کی طرف
مِل کے اک اک گور سے ہم دیر تک رویا کیے
لے گئی عبرت جو کل گورغریباں کی طرف...
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
ظاہر میں ہم فریفتہ حُسنِ بُتاں کے ہیں
پر کیا کہیں نگاہ میں جلوے کہاں کے ہیں؟
یارانِ رفتہ سے کبھی جاہی ملیں گے ہم
آخر تو پیچھے پیچھے اسی کارواں کے ہیں
ٹھکرا کے میرے سر کو وہ کہتے ہیں ناز سے
لو ایسے مفت سجدے مرے آستاں کے ہیں
شکوہ شبِ...
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
نہ کور باطن ہو، اے برہمن، ذرا تو چشمِ تمیز وا کر
خدا کا بندہ، بتوں کا سجدہ، خدا خدا کر، خدا خدا کر
جو اُٹھ کے پہلو سے انجمن میں، وہ دور بیٹھے ہیں مجھ سے جاکر
تڑپ نے دردِ جگر کی دل کو پٹک دیا ہے اُٹھا اُٹھا کر
قدم کو لغزش، زبان کو لکنت، ہے رعشہ...
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
یہی سوزِ دل ہے تو محشر میں جَل کر
جہنم اُگل دے گا مجھ کو نگل کر
جو شامِ شبِ ہجر دیکھی تو سمجھے
قضا سر پر آئی ہے صورت بدل کر
یہ میری طرف پاؤں محفل میں کیسے؟
ذرا آدمیت سے بیٹھو سنبھل کر
بشر کیوں نہ ہو بے وطن ہو کے مضطر
تڑپتی ہے، دریا سے...
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
بندہ نوازیوں پہ خدائے کریم تھا
کرتا نہ میں گناہ ، تو گناہِ عظیم تھا
کیا کیا نہ آفتوں کے رہے ہم کو سامنے
یارب، شباب تھا کہ بلائے عظیم تھا
دُنیا میں کچھ قیام نہ سمجھو کرو خیال
اس گھر میں تم سے پہلے بھی کوئی مقیم تھا
دُنیا کا حال، اہلِ عدم، ہے...
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
جان تن سے جو تڑپ کر شبِ فرقت نکلی
دل نے خوش ہو کے کہا ایک تو حسرت نکلی
بہرِ نظارہ جو قرآن میں بھی دیکھی فال
لن ترانی کے سوا اور نہ آیت نکلی
ہاتھ تک مفتی و قاضی کو لگانے نہ دیا
دخترِ رز تو بڑی صاحبِ عصمت نکلی
بڑھ گئی حسن پرستی کی مجھے حرص...
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
جب تلک ہست تھے، دشوار تھا پانا تیرا
مٹ گئے ہم، تو مِلا ہم کو ٹھکانا تیرا
نہ جہت تیرے لیئے ہے نہ کوئی جسم ہے تو
چشم ظاہر کو ہے مشکل نظر آنا تیرا
شش جہت چھان چُکے ہم تو کھُلا ہم پہ حال
رگِ گردن سے ہے نزدیک ٹھکانا تیرا
اب تو پیری میں نہیں...
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
مر چلے ہم مر کے اُس پر مر چلے
کام اپنا نام اُس کا کر چلے
حشر میں اجلاس کس کا ہے کہ آج
لے کے سب اعمال کا دفتر چلے
خونِ ناحق کر کے اک بے جُرم کا
ہاتھ ناحق خون میں تم بھر چلے
یہ ملی کس جرم پر دم کو سزا؟
حکم ہے دن بھر چلے شب بھر چلے...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
میری تربت پر اگر آئیے گا
عمر ِرفتہ کو بھی بُلوائیے گا
سب کی نظروں پہ نہ چڑھئیے اتنا
دیکھیئے دل سے اُتر جائیے گا
آئیے نزع میں بالیں پہ مری
کوئی دم بیٹھ کے اُٹھ جائیے گا
وصل میں بوسہء لب دے کے کہا
مُنہ سے کچھ اور نہ فرمائیے گا
ہاتھ میں نے جو...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
لیا میں نے تو بوسہ خنجرِ قاتل کا مقتل میں
اجل شرما گئی سمجھی کہ مجھ کو پیار کرتے ہیں
مرا خط پھینک کر قاصد کے مُنہ پر طنز سے بولے
خلاصہ سارے اس طومار کا یہ ہے کہ مرتے ہیں
ابھی اے جاں تونے مرنے والوں کو نہیں دیکھا
جیئے ہم تو دکھا...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
وہ کہتے ہیں، نکلنا اب تو دروازے پہ مشکل ہے
قدم کوئی کہاں رکھے؟ جدھر دیکھو اُدھر دل ہے
کہیں ایسا نہ ہو تجھ پر بھی کوئی وار چل جائے
قضا ہٹ جا کہ جھنجھلایا ہوا اِس وقت قاتل ہے
طنابیں کھینچ دے یارب، زمینِ کوئے جاناں کی
کہ میں ہوں ناتواں،...