غزل
(امیر مینائی)
اُٹھو گلے سے لگا لو، مٹے گلہ دل کا
ذرا سی بات میں ہوتا ہے فیصلہ دل کا
دم آکے آنکھوں میں اٹکے تو کچھ نہیں کھٹکا
اٹک نہ جائے الٰہی معاملہ دل کا
تمہارے غمزوں نے کھوئے ہیں ہوش و صبرو قرار
انہیں لٹیروں نے لوٹا ہے قافلہ دل کا
خدا ہی ہے جو کڑی چتونوں سے جان بچے
ہے آج دل شکنوں...
غزل
(امیر مینائی)
رو برو آئینے کے، تو جو مری جاں ہوگا
آئینہ ایک طرف، عکس بھی حیراں ہوگا
اے جوانی، یہ ترے دم کے ہیں، سارے جھگڑے
تو نہ ہوگی، تو نہ یہ دل ، نہ یہ ارماں ہوگا
دستِ وحشت تو سلامت ہے، رفو ہونے دو
ایک جھٹکے میںنہ دامن نہ گریباں ہوگا
آگ دل میںجو لگی تھی، وہ بجھائی نہ...
میں نے تقریباً دو سال قبل امیر مینائی کی وہ مشہورِ زمانہ غزل محفل پر ارسال کی تھی جس کا ایک شعر ضرب المثل بن چکا ہے:
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
یہی غزل ہندوستان و پاکستان کے موسیقی کے چار مشہور گھرانوں میں سے ایک یعنی حضروی گھرانے کے چشم و چراغ اور مشہور موسیقار ماسٹر...
غزل
(نانا غالب رحمتہ اللہ علیہ)
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری ناز کی سے جانا کہ بنا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے...
فرخصاحب نے فرہنگ آصفیہ ڈاؤن لوڈ کرنے کے روابط ارسال فرما کر دعاؤں کے حق دار ٹھہرے تو ہماری حاسد طبیعت بھی بے چین ہو گئی اور ہم نے بھی اسی "آرکائیو ڈاٹ آرگ" نامی ویب سائٹ سے تلاش کر کے امیر اللغات ڈاؤن لوڈ کرنے کے روابط ارسال کرنے کا سوچا کہ کہیں ساری دعائیں فرخ صاحب ہی نہ لے جائیں حالانکہ یہ...
غزل
(امیر مینائی)
لے گئی کل ہوسِ مے جو سرخُم مجھ کو
ہوش کی طرح سے مستی نے کیا گم مجھ کو
صورتِ غنچہ کہاں تابِ تکلم مجھ کو
منہ کے سو ٹکڑے ہوں آئے جو تبسم مجھ کو
مر کے راحت تو ملی پر یہ ہے کھٹکا باقی
آکے عیسٰی نہ سر بالیں کہیں قم مجھ کو
میں ترا عکس تھا اس آئینہء ہستی میں
تونے کیا...
یہاں جو کلام ہے اس کے متعلق مجھے شک ہے کہ یہ امیر مینائی کا ہے بھی یا نہیں ۔ مہربانی فرماتے ہوئے مجھے اس معاملہ میں رہنمائی کر دیں مشکور ہوں گا ۔
اچھے عيسي ہو مريضوں کا خيال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہيں تم کہتے ہو حال اچھا ہے
تجھ سے مانگوں ميں تجھي کو کہ سبھي کچھ مل جائے
سو سوالوں سے يہي ايک...
ریاضِ دہر میں پوچھو نہ میری بربادی
برنگِ بو ادھر آیا ادھر روانہ ہوا
خدا کی راہ میں دینا ہے گھر کا بھر لینا
ادھر دیا ۔ کہ ادھر داخل خزانہ ہوا
قدم حضور کے آئے مرے نصیب کھلے
جوابِ قصرِ سلیماں غریب خانہ ہوا
جب آئی جوش پہ میرے کریم کی رحمت
گرا جو آنکھ سے آنسو ۔ درِ یگانہ ہوا
چنے...
وہ تو سنتا ہی نہیں میں داد خواہی کیا کروں؟
کس کے آگے جا کے سر پھوڑوں الٰہی کیا کروں؟
مجھ گدا کو دے نہ تکلیف حکومت اے ہوس!
چار دن کی زندگی میں بادشاہی کیا کروں؟
مجھ کو ساحل تک خدا پہنچائے گا اے ناخدا!
اپنی کشتی کی بیاں تجھ سے تباہی کیا کروں؟
وہ مرے اعمال روز و شب سے واقف ہے امیر
پیش...
انسانِ عزیزِ خاطرِ اہلِ جہاں نہ ہو
وہ مہرباں نہ ہو ۔ تو کوئی مہرباں نہ ہو
پیری میں بھی گیا نہ تغافل ہزار حیف
اتنا بھی کوئی مائلِ خوابِ گراں نہ ہو
آنکھوں سے فائدہ؟ جو نہ دیدار ہو نصیب
حاصل جبیں سے کیا؟ جو ترا آستاں نہ ہو
جانے اگر ۔ کہ چاہِ عدم میں گرائے گا
کوئی سوارِ تو سنِ عمرِ...
دل نے جب پوچھا مجھے کیا چاہئے؟
درد بول اٹھا ۔ تڑپنا چاہئے
حرص دنیا کا بہت قصہ ہے طول
آدمی کو صبر تھوڑا چاہئے
ترک لذت بھی نہیں لذت سے کم
کچھ مزا اس کا بھی چکھا چاہئے
ہے مزاج اس کا بہت نازک امیر!
ضبطِ اظہارِ تمنا چاہئے
امیرالشعراء منشی امیر احمد صاحب امیرمینائی
کی دل شکنی نہ تند خو کی
سختی پہ بھی نرم گفتگو کی
کی جس پہ نگاہ - تجھ کو دیکھا
اب تک تو نظر کہیں نہ چوکی
جز دیر و حرم کہاں میں جاؤں
راہیں تو یہی ہیں جستجو کی
دل ہی نہ رہا امید کیسی
جڑ کٹ گئی نخلِ آرزو کی
کلفت نی مٹی امیر! دل سے
اشکوں نے ہزار شست و شو کی
امیرالشعراء منشی امیر...
موتی کی طرح جو ہو خدا داد
تھوڑی سی بھی آبرو بہت ہے
جاتے ہیں جو صبر و ہوش - جائیں
مجھ کو اے درد ! تو بہت ہے
مانندِ کلیم بڑھ نہ اے دل!
یہ دور کی گفتگو بہت ہے
اے نشترِ غم ! ہو لاکھ تن خشک
تیرے دم کو لہو بہت ہے
کیا غم ہے امیر ! اگر مال نہیں
اس وقت میں آبرو بہت ہے
امیرالشعراء منشی...
وصل ھو جائے يہيں، حشر ميں کيا رکھا ہے
آج کي بات کو کيوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
محتسب پوچھ نہ تو شيشے ميں کيا رکھا ہے
پارسائي کا لہو اس ميں بھرا رکھا ہے
کہتے ہيں آئے جواني تو يہ چوري نکلے
ميرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے
اس تغافل میں بھي سرگرمِ ستم وہ آنکھيں
آپ تو سوتے ہيں، فتنوں کو...
سرِ راہِ عدم گورِ غربياں طرفہ بستي ہے
کہيں غربت برستي ہے کہيں حسرت برستي ہے
تري مسجد ميں واعظ، خاص ھيں اوقات رحمت کے
ھمارے ميکدے ميں رات دن رحمت برستي ہے
خمارِ نشّہ سے نگاہيں ان کي کہتي ہيں
يہاں کيا کام تيرا، يہ تو متوالوں کي بستي ہے
جواني لے گئي ساتہ اپنے سارا عيش مستوں کا
صراحي...
جو کچہ سوجھتي ہے نئي سوجھتي ہے
ميں روتا ھوں، اس کو ہنسي سوجھتي ہے
تمہيں حور اے شيخ جي سوجھتي ہے
مجھے رشک حور اک پري سوجھتي ہے
يہاں تو ميري جان پر بن رہي ہے
تمہيں جان ِمن دل لگي سوجھتي ہے
جو کہتا ہوں ان سے کہ آنکھيں ملاؤ
وہ کہتے ہيں تم کو يہي سوجھتي ہے
يہاں تو ہے آنکھوں ميں...
فرخ صاحب نے ضرب الامثال کے دھاگے پر "دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے" کا شعر ارسال کیا تھا جس نے مجھے یہ مکمل غزل دھونڈنے پر مہمیز کیا۔ اور انہی کا فرمان تھا کہ اسے فورآ محفل پر شیئر کیا جائے۔ لہٰذا امیر مینائی کی یہ غزل فرخ صاحب کی محبتوں کے نام۔
تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا...