غزل
(سدرشن فاخر)
اگر ہم کہیں اور وہ مسکرا دیں
ہم ان کے لیے زندگانی لٹا دیں
ہر اک موڑ پر ہم غموں کو سزا دیں
چلو زندگی کو محبت بنا دیں
اگر خود کو بھولے تو کچھ بھی نہ بھولے
کہ چاہت میں ان کی خدا کو بھلا دیں
کبھی غم کی آندھی جنہیں چھو نہ پائے
وفاؤں کے ہم وہ نشیمن بنا دیں
قیامت کے دیوانے...
غزل
(میلہ رام وفا)
محفل میں اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
عالم ہے ترے پَرتو رُخ سے یہ ہمارا
حیرت سے ہمیں شمس و قمر دیکھ رہے ہیں
بھاگے چلے جاتے ہیں اِدھر کو تو عجب کیا
رُخ لوگ ہواؤں کا جدھر دیکھ رہے ہیں
ہوگی نہ شبِ غم تو قیامت سے ادھر ختم
ہم شام ہی سے...
غزل
(کفیل آزر امروہوی)
جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا
وہ مری آنکھوں میں پانی دے گیا
جاگتے لمحوں کی چادر اوڑھ کر
کوئی خوابوں کو جوانی دے گیا
میرے ہاتھوں سے کھلونے چھین کر
مجھ کو زخموں کی کہانی دے گیا
حل نہ تھا مشکل کا کوئی اس کے پاس
صرف وعدے آسمانی دے گیا
خود سے شرمندہ مجھے ہونا پڑا...
غزل
(طفیل چترویدی)
ظلم کو تیرے یہ طاقت نہیں ملنے والی
دیکھ تجھ کو مری بیعت نہیں ملنے والی
لوگ کردار کی جانب بھی نظر رکھتے ہیں
صرف دستار سے عزت نہیں ملنے والی
شہر تلوار سے تم جیت گئے ہو لیکن
یوں دلوں کی تو حکومت نہیں ملنے والی
راستے میں اسے دیکھا ہے کئی روز کے بعد
آج تو رونے کو فرصت...
اب قیس ہے کوئی نہ کوئی آبلہ پا ہے
دل آٹھ پہر اپنی حدیں ڈھونڈ رہا ہے
احساس کی وادی میں کوئی صوت نہ صورت
یہ منزل عرفان تک آنے کا صلہ ہے
زخموں کے بیاباں میں کوئی پھول نہ پتھر
یادوں کے جزیرے میں نہ بت ہیں نہ خدا ہے
اک خاک کے پیکر کا تماشہ ہے سڑک پر
ہر شخص یہاں قہر کی تصویر بنا ہے
مٹی کے...
غُبارِ راہ تا حدِ نظر ہے ۔۔۔!
خدا جانے ابھی کتنا سفر ہے!
ابھی سے ہی سحر کا تذکرہ کیا
ابھی تو رات کا پہلا پہر ہے
ہمیں حالات سے غافل نہ جانو
ہمیں اک ایک لمحے کی خبر ہے
ابھی تخلیق کی منزل میں ہے جو
وہ لمحہ بھی مرے پیشِ نظر ہے
تجھے افسانہء غم کیا سناؤں
ترا ذوقِ سماعت مختصر ہے
مزاجِ یار کیا بدلا...
گھر میں بھی وحشت ہے اور ویسی ہے بزم آرائی بھی
پہلے ہمیں وہ چھوڑ گیا، پھر چھوڑ گئی تنہائی بھی ۔۔۔!
ہم نے اُصولوں کی حُرمت پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا
گویائی کو روتے روتے جاتی رہی بینائی بھی ۔۔۔!
اندر کے دُکھ سیپ میں جیسے موتی پلتے رہتے ہیں
ساحل کا رستہ تکتی ہے ساگر کی گہرائی بھی ۔۔۔!
تنگ مکانوں میں...
مثالِ ریگ مٹھی سے پھسلتا جا رہا ہوں ۔۔۔!
ظفر لوگوں کے جیون سے نکلتا جا رہا ہوں
بہت آساں بہت جلدی سفر ڈھلوان کا ہے
سو پتھر کی طرح پگ پگ اچھلتا جا رہا ہوں
کھنچا جاتا ہوں یوں اگلے پڑاؤ کی کشش میں ۔۔۔!
تھکن سے چور ہوں میں پھر بھی چلتا جا رہا ہوں
ہنر اس کھوکھلی دنیا میں جینے کا یہی ہے
برنگ آب ہر...
امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دُنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا میں
اب اپنے حجرہ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سر ِدست
بساطِ عافیت ِجاں...
چلتے رہے تو کون سا اپنا کمال تھا
یہ وہ سفر تھا جس میں ٹھہرنا محال تھا
اک دوسرے کا قرب ہوا خوف میں نصیب
اب شہر میں ہر اک کو ہر اک کا خیال تھا
رہتی تھی اس میں آٹھ پہر اک چہل پہل
رونق میں دل کا شہر کبھی بے مثال تھا !
میں خود میں گم تھی اور مجھے اپنی خبر نہ تھی
دیکھا جو آئینہ تو عجب میرا حال تھا...
مجھے کسی کا بُھلایا ہوا ہنرجانو۔۔۔!
نواحِ خاک سے نکلوں تو معتبر جانو!
غبار میں جو چمکتی سی ایک شے ہے اُسے
شرارِ وہم کہو ۔۔۔۔۔۔ یا گلِ نظر جانو!
شعاعِ خوں اُبھر آئی ہے میری آنکھوں میں
میں قیدِ شب میں ہوں مجھ کو نہ بے خطر جانو
جُھلس چکے ہیں کڑی دھوپ میں سبھی اشجار
صدائے سبز کو اُمید کی خبر جانو...
دل تھا پہلو میں تو کہتے تھے تمنا کیا ہے ۔۔۔!
اب وہ آنکھوں میں تلاطم ہے کہ دریا کیا ہے!
شوق کہتا ہے کہ ہر جسم کو سجدہ کیجے ۔۔۔!
آنکھ کہتی ہے کہ تو نے ابھی دیکھا کیا ہے!
ٹوٹ کر شاخ سے اک برگِ خزاں آمادہ!
سوچتا ہے کہ گزرتا ہوا جھونکا کیا ہے ۔۔۔!
کیا یہ سچ ہے کہ خزاں میں بھی چمن کھِلتے ہیں
میرے...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
اے جنوں کچھ تو کُھلے آخر میں کس منزل میں ہوں
ہوں جوارِ یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں
پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب
میں سفیرِ حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں
جشنِ فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے
حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں
دم بخود ہوں اب سرِ...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا
رقص کوئی بھی نہ ہوگا رقص بسمل کے سوا
متفق اس پر سبھی ہیں کیا خدا کیا ناخدا
یہ سفینہ اب کہیں بھی جائے ساحل کے سوا
میں جہاں پر تھا وہاں سے لوٹنا ممکن نہ تھا
اور تم بھی آ گئے تھے پاس کچھ دل کے سوا
زندگی کے رنگ سارے ایک تیرے...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ
ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ
تیرے مے خانوں کی اک لغزش کا حاصل کچھ نہ پوچھ
زندگی ہے آج تک گردش میں پیمانوں کے ساتھ
دیکھنا ہے تا بہ منزل ہم سفر رہتا ہے کون
یوں تو عالم چل پڑا ہے آج دیوانوں کے ساتھ
ان حسیں...
غزل
(محبوب خزاں)
جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں
یہاں تو اہل سخن آدمی سے کھیلتے ہیں
نگار مے کدہ سب سے زیادہ قابل رحم
وہ تشنہ کام ہیں جو تشنگی سے کھیلتے ہیں
تمام عمر یہ افسردگان محفل گل
کلی کو چھیڑتے ہیں بے کلی سے کھیلتے ہیں
فراز عشق نشیب جہاں سے پہلے تھا
کسی سے کھیل چکے ہیں کسی...
ہر طرف زخمِ ضرورت کے فروزاں ہیں چراغ
اک مگر طاقِ محبت کے پریشاں ہیں چراغ !
خوف و نفرت کی فضا ہے کہ تصور ہے مرا ۔۔۔!
خانہء دل میں جو جھانکو تو ہراساں ہیں چراغ!
جن کو سودا تھا چراغاں کا، بجھے وہ سرِشام ۔۔۔!
ظلمتوں کے جو پیمبر ہیں، رگِ جاں ہیں چراغ
دشتِ ہجرت کی ہواؤں میں بھی جل اُٹھتے ہیں
صاحبو...
غزل
(شہریار)
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا
ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا
اسی امید پہ کب سے دھڑک رہا ہے دل
ترے حضور کسی روز یہ طلب ہوگا
مکاں تو ہوں گے مکینوں سے سب مگر خالی
یہاں بھی دیکھوں تماشا یہ ایک شب ہوگا
کوئی نہیں ہے جو بتلائے میرے لوگوں کو
ہوا کے رخ کے بدلنے سے...
غزل
(کفیل آزر امروہوی)
یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد
غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد
ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا
کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد
مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے
کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد
خیال خواب فسانے کہانیاں تھیں مگر
وہ خط تجھے بھی...