اردو غزل

  1. کاشفی

    اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے - کفیل آزر امروہوی

    غزل (کفیل آزر امروہوی) اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے...
  2. فرقان احمد

    تمام عمر عجب کاروبار ہم نے کیا ::: نور بجنوری

    تمام عمر عجب کاروبار ہم نے کیا ۔۔۔! کھلے جو پھول تو سینہ فگار ہم نے کیا شبِ وصال کو بخشی درازیء ہجراں وہ آ گئے تو بہت انتظار ہم نے کیا نچوڑ کر تری یادوں سے پیار کی خوشبو نفس نفس کو سراپا بہار ہم نے کیا ۔۔۔! قدم قدم پہ چھڑک کر مسرتوں کا لہو زمینِ شعر تجھے لالہ زار ہم نے کیا بڑھا دیے غمِ جاناں...
  3. فرقان احمد

    وہ آ نہ سکے، وہ مل نہ سکے، یہ شکوہء بے جا کیا معنی ::: احمد ریاض

    وہ آ نہ سکے، وہ مل نہ سکے، یہ شکوہء بے جا کیا معنی یہ عشق نہیں، اک غم ہی سہی، پر ذوقِ مداوا کیا معنی! بیدرد جہاں نے جب دل کی ساری خوشیوں کو چھین لیا پھر عزتِ دنیا کیا معنی ،آدابِ زمانہ کیا معنی ۔۔۔۔۔! کلیوں کو مسلا جاتا ہے، کانٹوں سے کھیلا جاتا ہے !!! حالات ہی ایسے ہوتے ہیں، قسمت سے الجھنا کیا...
  4. فرقان احمد

    تنہائی کے سب دن ہیں، تنہائی کی سب راتیں ::: محمد علی جوہر

    تنہائی کے سب دن ہیں، تنہائی کی سب راتیں اب ہونے لگیں ان سے خلوت میں ملاقاتیں! ہر آن تسلی ہے، ہر لحظہ تشفی ہے ۔۔۔! ہر وقت ہے دل جوئی، ہر دم ہیں مداراتیں کوثر کے تقاضے ہیں، تسنیم کے وعدے ہیں ہر روز یہی چرچے، ہر رات یہی باتیں !!! معراج کی سی حاصل سجدوں میں ہے کیفیت اک فاسق و فاجر میں ۔۔۔ اور...
  5. فرقان احمد

    اپنے شہر میں بے در، بےدیوار ہوئے ::: ظفر گورکھ پوری

    اپنے شہر میں بے در، بےدیوار ہوئے میرؔ ،تمہاری طرح ہم بھی خوار ہوئے! اُس کی یاد آئی، خوشبو کے پنکھ کھلے اس کا ذکر چلا، منظر گلنار ہوئے! دیکھیں تو دہشت سی طاری ہوتی ہے اچھے خاصے چہرے تھے، اخبار ہوئے درد کے گھاؤ ہزاروں، خوشیاں چٹکی بھر اپنے موسم مفلس کا تہوار ہوئے ۔۔۔! ظفرؔ !تمہیں کچھ اپنے گھر...
  6. فرقان احمد

    انتہائے عشق میں یہ بھی کمال اُس نے کیا ::: نسیم سحر

    انتہائے عشق میں ۔۔۔ یہ بھی کمال اُس نے کیا ہجر میں میرے ہی جیسا اپنا حال اُس نے کیا شوق سے پہلے تو مجھ کو ۔۔۔ پائمال اُس نے کیا اور پھر میرے لیے ۔۔۔۔ اتنا ملال اُس نے کیا ! ہو گیا میں روبرو اُس شخص کے کیوں لاجواب! کیا بتاؤں میں کہ مجھ سے کیا سوال اُس نے کیا مٹ گئے خود اُس کے اپنے چہرے کے بھی...
  7. فرقان احمد

    دریچے قصرِ تمنا کے پھر کھلے تو سہی ::: حسن نعیم

    دریچے قصرِ تمنا کے پھر کھُلے تو سہی ملے وہ آخرِ شب میں، مگر ملے تو سہی اُدھر عدم کا یہ اصرار ۔۔۔ بس چلے آؤ! اِدھر وجود کو ضد، خاک میں ملے تو سہی جلیں گے رشک سے وہ بھی جو روشنی میں نہیں چراغِ لالہ مرے دشت میں جلے تو سہی ۔۔۔! گئی کہاں ہے ابھی چشم و دل کی ویرانی! ترے قدم سے پسِ خواب، گُل کھلے تو...
  8. فرقان احمد

    میں کس کی کھوج میں اس کرب سے گزرتا رہا (نثار ناسک)

    میں کس کی کھوج میں اس کرب سے گزرتا رہا کہ شاخ شاخ پہ کھلتا رہا ۔۔۔ ۔۔ بکھرتا رہا ! مجھے تو اتنی خبر ہے کہ مشت خاک تھا میں جو چاک مہلت گریہ پہ ۔۔۔ رقص کرتا رہا ! یہ سانس بھر مرے حصے کا خواب کیسا تھا کہ جس میں اپنے لہو سے میں رنگ بھرتا رہا عجیب جنگ رہی میری میرے عہد کے ساتھ میں اس کے جال کو ،...
  9. فاتح

    کبھی اس مکاں سے گزر گیا کبھی اس مکاں سے گزر گیا ۔ عرش ملیسانی

    کبھی اِس مکاں سے گزر گیا، کبھی اُس مکاں سے گزر گیا ترے آستاں کی تلاش میں، میں ہر آستاں سے گزر گیا ابھی آدمی ہے فضاؤں میں، ابھی آدمی ہے خلاؤں میں یہ نجانے پہنچے گا کس جگہ اگر آسماں سے گزر گیا کبھی تیرا در، کبھی دربدر، کبھی عرش پر، کبھی فرش پر غمِ عاشقی ترا شکریہ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا یہ...
  10. کاشف اختر

    فانی امیدِ کرم کی ہے ادا، میری خطا میں

    غزل (شوکت علی خاں فانی بدایونی) امیدِ کرم کی ہے ادا، میری خطا میں یہ بات نکلتی ہے مری لغزشِ پا میں سمجھو تو غنیمت ہے، مرا گریۂ خونیں یہ رنگ ہے پھولوں میں، نہ یہ بات حنا میں جھک جاتے ہیں سجدے میں سر اور پھر نہیں اٹھتے کیا سحر ہے کافر! ترے نقشِ کفِ پا میں وہ جانِ محبت ہیں، وہ ایمانِ...
  11. کاشفی

    ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے - کمار پاشی

    غزل (کمار پاشی) ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو ٹوٹ چکے ہیں اندر سے لیکن من مانی باقی ہے ہاتھ مرے پتوار بنے ہیں اور لہریں کشتی میری زور ہوا کا قائم ہے دریا کی روانی باقی ہے گاہے گاہے اب بھی چلے...
  12. ظہیراحمدظہیر

    میں پلٹ کر وار کرتا ، حوصلہ میرا بھی تھا

    میں پلٹ کر وار کرتا ، حوصلہ میرا بھی تھا کیا کہوں میں ، دشمنوں میں آشنا میرا بھی تھا اجنبی بیگانہ تیری آشنائی کر گئی اک زمانہ تھا ، زمانہ آشنا میرا بھی تھا ہاں یہی کوئے خرابی ، ہاں یہی دہلیزِ عشق لاپتہ ہونے سے پہلے یہ پتہ میرا بھی تھا ریزہ ہائے خوابِ الفت چننے والے دیکھنا! اِن شکستہ آئنوں...
  13. ظہیراحمدظہیر

    موجِ شرابِ عشق پہ ڈولے ہوئے سخن

    موجِ شرابِ عشق پہ ڈولے ہوئے سخن اک عالمِ نشاط میں بولے ہوئے سخن جیسے اتر رہے ہوں دلِ تشنہ کام پر تسنیم و زنجبیل میں گھولے ہوئے سخن جیسے پروئیں تارِ شنیدن میں درِّ ناب لب ہائے لعل گوں سے وہ رولے ہوئے سخن آؤ سناؤں محفلِ شیریں سخن کی بات برہم ہوئے مزاج تو شعلے ہوئے سخن ہوتے نہیں ظہیرؔ کبھی...
  14. ظہیراحمدظہیر

    اک جہانِ رنگ و بو اعزاز میں رکھا گیا

    اک جہانِ رنگ و بو اعزاز میں رکھا گیا خاک تھا میں ، پھول کے انداز میں رکھا گیا حیثیت اُس خاک کی مت پوچھئے جس کے لئے خاکدانِ سیم و زر آغاز میں رکھا گیا -ق- اک صلائے عام تھی دنیا مگر میرے لئے کیا تکلف دعوتِ شیراز میں رکھا گیا ایک خوابِ آسماں دے کر میانِ آب و گِل بال و پر بستہ مجھے پرواز...
  15. کاشفی

    اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا - ندا فاضلی

    غزل (ندا فاضلی) اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا پیاس جس نہر سے ٹکرائی وہ بنجر نکلی جس کو پیچھے کہیں چھوڑ آئے وہ دریا ہوگا مرے بارے میں کوئی رائے تو ہوگی اس کی اس نے مجھ کو بھی...
  16. کاشفی

    سخت نازک مزاج دلبر تھا - جلیل مانک پوری

    غزل (جلیلؔ مانک پوری) سخت نازک مزاج دلبر تھا خیر گزری کہ دل بھی پتھر تھا مختصر حال زندگی یہ ہے لاکھ سودا تھا اور اک سر تھا ان کی رخصت کا دن تو یاد نہیں یہ سمجھئے کہ روز محشر تھا خاک نبھتی مری ترے دل میں ایک شیشہ تھا ایک پتھر تھا تم مرے گھر جو آنے والے تھے کھولے آغوش صبح تک در تھا...
  17. سید ذیشان حیدر

    13- غزل برائے اصلاح

    نئی غزل پیشِ خدمت ہے۔ اصلاح کی درخواست ہے۔ ابھی زیرِ گرداب آئے ہوئے ہیں کہ طوفانوں نے سر اُٹھائے ہوئے ہیں یہ اُمید، یہ چارہ جوئی، یہ قسمت میاں میرے کس کام آئے ہوئے ہیں علاجِ غمِ جان و دل ہم سے مت پوچھ اِسی غم کے ہم بھی ستائے ہوئے ہیں مرے زخم کی دوستوں کو خبر ہے؟ قبا میں نمکداں چھپائے ہوئے...
  18. سید ذیشان حیدر

    12-غزل برائے اصلاح

    ایک نئی غزل برائے اصلاح پیشِ خدمت ہے۔ تمام اساتذہ کرام اور احباب سے تنقید و تبصرے کی درخواست ہے۔ ہواؤں کے انداز بدلے ہوئے ہیں خدا ہی بچائے مرے آشیاں کو کٹے ہوئے پیڑوں نے یہ بددُعا دی ترستے رہو اب میاں سائباں کو تو کیا شہر سارے کو ہے جان کا خوف پڑے ہوئے ہیں قفل سچ کی زباں کو سراغ ایسے بھی مل...
  19. کاشفی

    فنا نظامی کانپوری تو پھول کی مانند نہ شبنم کی طرح آ - فنا نظامی کانپوری

    غزل (فنا نظامی کانپوری) تو پھول کی مانند نہ شبنم کی طرح آ اب کے کسی بے نام سے موسم کی طرح آ ہر مرتبہ آتا ہے مہِ نو کی طرح تو اس بار ذرا میری شبِ غم کی طرح آ حل کرنے ہیں مجھ کو کئی پیچیدہ مسائل اے جانِ وفا گیسوئے پُر خم کی طرح آ زخموں کو گوارا نہیں یک رنگیِ حالات نِشتر کی طرح آ کبھی...
  20. غدیر زھرا

    فضائے صحنِ گلستاں ہے سوگوار ابھی (شریف کنجاہی)

    فضائے صحنِ گلستاں ہے سوگوار ابھی خزاں کی قید میں ہے یوسفِ بہار ابھی ابھی چمن پہ چمن کا گماں نہیں ہوتا قبائے غنچہ کو ہونا ہے تار تار ابھی ابھی ہے خندۂ گُل بھی اگر تو زیر لبی رکا رکا سا ہے کچھ نغمۂ ہزار ابھی چمن تو خیر چمن ہے نواگروں کو نہیں خود اپنی شاخِ نشیمن پہ اختیار ابھی ابھی امید کی...
Top