دل زلفِ بتاں میں ہے گرفتار ہمارا
اس دام سے ہے چھوٹنا دشوار ہمارا
بازارِ جہاں میں ہیں عجب جنسِ زبوں ہم
کوئی نہیں اے وائے خریدار ہمارا
تھی داورِ محشر سے توقع سو تجھے دیکھ
وہ بھی نہ ہوا ہائے طرف دار ہمارا
کیونکر نہ دمِ سرد بھریں ہم کہ ہر اک سے
ملتا ہے بہت گرم کچھ اب یار ہمارا
تجھ بن اسے...
فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
گلے شکوے کہاں تک ہوں گے آدھی رات تو گزری
پریشاں تم بھی ہوتے ہو پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں
جو رکھے چارہ گر کافور دونی آگ لگ جائے
کہیں یہ زخمِ دل شرمندۂ مرہم بھی ہوتے ہیں
وہ آنکھیں سامری فن ہیں وہ لب عیسیٰ...
ہے عجب رنگ کی وحشت ترے دیوانے میں
جی نہ آبادی میں لگتا ہے نہ ویرانے میں
ہوں وہ میکش کہ نہ مستی میں کہوں راز کبھی
لاکھ قُل قُل کہے شیشہ مجھے میخانے میں
آفتاب اس میں اگر آئے، توا بن جائے
نور کا دخل نہیں میرے سیہ خانے میں
حشر تک جی میں ہے بے ہوش رہوں میں ساقی
کاش مے بھر دے مری عمر کے پیمانے میں...
دل سے شوقِ رخِ نکو نہ گیا
جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا
ہر قدم پر تھی اس کی منزل لیک
سر سے سودائے جستجو نہ گیا
سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں
لیکن اے داغ دل سے تُو نہ گیا
دل میں کتنے مسودے تھے ولے
ایک پیش اس کے روبرو نہ گیا
سبحہ گرداں ہی میرؔ ہم تو رہے
دستِ کوتاہ تا سبو نہ گیا
میر تقی میر
کل آپ کے پسندیدہ اشعار لڑی میں فقیر محمد خاں گویاؔ کا ایک شعر نظر سے گزرا۔ شعر یہ تھا:
شام کو پڑھنی نمازِ صبح واجب ہوگئی
روئے عالمتاب سے سرکا جو گیسو یار کا
اچھل پڑا ۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ چونکہ کلاسیکی ادب کا شیدا ہوں۔ یہ نام دسیوں نہیں سینکڑوں بار نظر سے گزرا۔ لیکن کبھی اس چھاؤں تلے دم...
ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ
کہاں دماغ ہمیں اس قدر دروغ دروغ
تم اور ہم سے محبت تمھیں خلاف خلاف
ہم اور الفتِ خوب دگر دروغ دروغ
غلط غلط کہ رہیں تم سے ہم تنک غافل
تم اور پوچھو ہماری خبر دروغ دروغ
فروغ کچھ نہیں دعوے کو صبحِ صادق کے
شبِ فراق کو کب ہے سحر دروغ دروغ
کسو کے کہنے سے مت بدگماں ہو...
یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا، پتا کہاں کوئے نازنیں کا
غبار آسا نہیں کہیں کا، نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا
بڑھے سلیماں کے جتنے رتبے، تمہاری الفت کے تھے کرشمے
یہ نقش جس دل میں جم کے بیٹھے، بلند ہو نام اس نگیں کا
کہاں کا نالہ، کہاں کا شیون، سنائے قاتل ہے وقتِ مردن
قلم ہوئی ہے بدن سے گردن، زباں...
غزل
اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی چلے گئے
پھر پھر گُل آ چکے پہ سجن تم بھلے گئے
پوچھے ہے پھول و پھل کی خبر اب تُو عندلیب
ٹوٹے، جھڑے، خزاں ہوئی، پھولے پھلے گئے
دل خواہ کب کسی کو زمانے نے کچھ دیا
جن کو دیا کچھ اس میں سے وے کچھ نہ لے گئے
اے شمع، دل گداز کسی کا نہ ہو کہ شب
پروانہ داغ تجھ سے ہوا، ہم...
مُکھ ترا آفتابِ محشر ہے
شور اس کا جہاں میں گھر گھر ہے
رگِ جاں سوں ہوا ہے خوں جاری
یاد تیری پلک کی نشتر ہے
پہنچتا ہے دلوں کو ہر جاگہ
غم ترا روزیِ مقدر ہے
مُکھ ترا بحرِ حسن ہے جاناں
زلف پُر پیچ موجِ عنبر ہے
بات میٹھی ترے لباں کی قسم
حسد انگیز شِیر و شکّر ہے
قد سوں تیرے کدھیں نہ پایا پھل
حق...
مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا
پردے کو تعیّن کے درِ دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسماتِ جہاں کا
ٹک دیکھ صنم خانہء عشق آن کے اے شیخ
جوں شمعِ حرم رنگ جھمکتا ہے بتاں کا
اس گلشنِ ہستی میں عجب دید ہے، لیکن
جب چشم کھلے گُل کی تو موسم ہوں خزاں کا
دکھلائیے...
مفت آبروئے زاہدِ علّامہ لے گیا
اِک مُغ بچہ اتار کے عمّامہ لے گیا
داغِ فراق و حسرتِ وصل، آرزوئے شوق
میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا
پہنچا نہ پہنچا، آہ گیا، سو گیا غریب
وہ مرغِ نامہ بر جو مرا نامہ لے گیا
اس راہ زن کے ڈھنگوں سے دیوے خدا پناہ
اِک مرتبہ جو میر کا جی جامہ لے گیا
(میر تقی میر)
جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں
پھر کہاں ہے جو ترے حلقۂ گیسو میں نہیں
ایک تم ہو تمہارے ہیں پرائے دل بھی
ایک میں ہوں کہ مرا دل مرے قابو میں نہیں
دور صیّاد، چمن پاس، قفس سے باہر
ہائے وہ طاقتِ پرواز کہ بازو میں نہیں
دیکھتے ہیں تمہیں جاتے ہوئے اور جیتے ہیں
تم بھی قابو میں نہیں، موت بھی...
fani badayuni
urdupoetry
اردوشاعریاردوکلاسیکیشاعری
شوکت علی خان فانی بدایونی
طارق شاہ
غزل
فانی
فانی بدایونی
فرخ منظور
کلاسیکل شاعریکلاسیکیشاعریکلاسیکیشاعریاردو
شورشِ کائنات نے مارا
موت بن کر حیات نے مارا
پرتوِ حسنِ ذات نے مارا
مجھ کو میری صفات نے مارا
ستمِ یار کی دہائی ہے
نگہِ التفات نے مارا
میں تھا رازِ حیات اور مجھے
میرے رازِ حیات نے مارا
ستمِ زیست آفریں کی قسم
خطرۂ التفات نے مارا
موت کیا؟ ایک لفظِ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا
جو پڑی...
خاص اِک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی
دھجیاں خود بخود اڑتی ہیں گریبانوں کی
سخت دشوار حفاظت تھی گریبانوں کی
آبرو موت نے رکھ لی ترے دیوانوں کی
رحم کر اب تو جنوں! جان پہ دیوانوں کی
دھجیاں پاؤں تک آپہنچیں گریبانوں کی
گرد بھی مل نہیں سکتی ترے دیوانوں کی
خاک چھانا کرے اب قیس بیابانوں کی
ہم نے...
کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا
لبِ جاں بخش دکھایا کیے اعجاز اپنا
سرو گڑ جائیں گے گُل خاک میں مل جاویں گے
پاؤں رکھے تو چمن میں وہ سرافراز اپنا
خندہ زن ہیں، کبھی گریاں ہیں، کبھی نالاں ہیں
نازِ خوباں سے ہوا ہے عجب انداز اپنا
یہی اللہ سے خواہش ہے ہماری اے بُت
کورِ بد بیں ہو ترا، گُنگ ہو...
جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر
ایسا نہیں کوئی عجب، راکھے اسے سمجھائے کر
جب آنکھ سے اوجھل بھیا، تڑپن لگا میرا جِیا
حقّا الہٰی کیا کیا، آنسو چلے بھر لائے کر
توں تو ہمارا یار ہے ، تجھ پر ہمارا پیار ہے
تجھ دوستی بسیار ہے ، اِک شب ملو تم آئے کر
جاناں طلب تیری کروں ، دیگر طلب کس کی کروں...
مہی گذشت کہ چشمم مجالِ خواب ندارد
مرا شبی است سیہ رو کہ ماہتاب ندارد
گیا وہ چاند نظر کو مجالِ خواب نہیں
شبِ سیہ کے مقدر میں ماہتاب نہیں
نہ عقل ماند نہ دانش نہ صبر ماند نہ طاقت
کسی چنین دل بیچارہء خراب ندارد
رہے نہ ہوش و خرد اور نہ ہی صبر و شکیب
کسی کا دل بھی یوں بیچارہ و خراب نہیں
تو ای...
منظوم ترجمہ از حکیم شمس الالسلام ابدالی، فارسی غزل امیر خسرو
گفتم کہ روشن از قمر گفتا کہ رخسار منست
گفتم کہ شیرین از شکر گفتا کہ گفتار منست
ترجمہ
پوچھا کہ روشن چاند سے؟ بولا مرا رخسار ہے
پوچھا کہ میٹھی قند سے؟ بولا مری گفتار ہے
گفتم طریق عاشقان گفتا وفاداری بود
گفتم مکن جور و جفا، گفتا...
پھر محّرک ستم شعاری ہے
پھر انہیں جستجو ہماری ہے
پھر وہی داغ و دل سے صحبت گرم
پھر وہی چشم و شعلہ باری ہے
پھر وہی جوش و نالہ و فریاد
پھر وہی شورِ آہ و زاری ہے
پھر خیالِ نگاہِ کافر ہے
پھر تمنائے زخم کاری ہے
پھر وہاں طرزِ دلنوازی ہے
پھر یہاں رسمِ جاں نثاری ہے
پھر وہی بے قراریِ تسکیں
پھر...
شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
جب یوں نگاہبانئ مرغِ سحر کریں
محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں
سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں
طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ؟
دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کچھ اثر کریں
آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد
دل پر نگاہ کیا ہے، وہ مجھ پر نظر کریں
کچھ اب کے...