غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
جب خوبرو چھپاتے ہیں عارض نقاب میں
کہتا ہے حُسن میں نہ رہوں گا حجاب میں
بے قصد لکھ دیا ہے گِلہ اِضطراب میں
دیکھوں کہ کیا وہ لکھتے ہیں خط کے جواب میں
بجلی چمک رہی ہے فلک پر سحاب میں
اب دختِ رز کو چین کہاں ہے حجاب میں
اللہ رے میرے دل کی تڑپ اضطراب...
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی متخلص بہ سوداؔ)
یہ میں بھی سمجھوں ہوں یارو، وہ یار یار نہیں
کروں میں کیا کہ مرا دل پہ اختیار نہیں
عبث تو سر کی مرے ہر گھڑی قسم مت کھا
قسم خدا کی ترے دل میں اب وہ پیار نہیں
میں ہوں وہ نخل کہ جس نخل کو قیامت تک
بہار کیسی ہی آوے تو برگ و...
غزل
(عبدالمجید حیرت)
غم نہیں یہ کہ انتظار کیا
بلکہ یہ ہے کہ اعتبار کیا
بے تعلق ہی ہم تو اچھے تھے
اس تعلق نے اور خوار کیا
سچ تو یہ ہے کہ دیدہ و دل کو
مفت ہی میں گناہ گار کیا
ہو گیا اک سکون سا حاصل
جب گریباں کو تار تار کیا
ہو سکا جب نہ اور کچھ ہم سے
شیوہء صبر، اختیار کیا...
غزل
(سید انشا اللہ خان انشا)
کھولے جب چاند سے اس مُکھڑے کا گھونگھٹ عاشق
کیوں نہ پھر لیوے بلائیں تری چٹ چٹ عاشق
نہیں معلوم اجی تم نے یہ کیا پڑھ پھُونکا
کہ تمہیں دیکھتے ہی ہوگئے ہم چٹ عاشق
میکشی تم کرو غیروں سے بہم، تو، اپنے
گھونٹ لہو کے پیئے کیوں نہ غٹاغٹ عاشق
اے نسیمِ...
غزل
(حضرت نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں غالب رحمتہ اللہ علیہ)
منظور ہے گزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیان حسنِ طبیعت نہیں مجھے
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلحِ کل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
کیا کم ہے یہ شرف...
غزل
(مومن خان مومن رحمتہ اللہ علیہ)
کھا گیا ہے غمِ بتاں افسوس
گُھل گئی غم کے مارے جاں افسوس
میرے مرنے سے بھی وہ خوش نہ ہوا
جی گیا یوںہی رائیگاں افسوس
گلِ داغ ِجنوں کھِلے بھی نہ تھے
آگئی باغ میں خزاں افسوس
موت بھی ہوگئی ہے پردہ نشیں
راز رہتا نہیں نہاں افسوس
تھا عجب...
غزل
(سید محمد اسمعیل متخلص بہ منیر )
پلکوں کی محبت کا خلل جائے تو جانیں
یہ پھانس کلیجے سے نکل جائے تو جانیں
ہر چند کہ آوارہ بہت ہے دلِ وحشی
باہر ترے کوچے سے نکل جائے تو جانیں
دل کے تو خریدار نظر آتے ہیں لاکھوں
چُٹکی سے کلیجہ کوئی مَل جائے تو جانیں
سوبار بلائے شبِ فرقت...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
لیا میں نے تو بوسہ خنجرِ قاتل کا مقتل میں
اجل شرما گئی سمجھی کہ مجھ کو پیار کرتے ہیں
مرا خط پھینک کر قاصد کے مُنہ پر طنز سے بولے
خلاصہ سارے اس طومار کا یہ ہے کہ مرتے ہیں
ابھی اے جاں تونے مرنے والوں کو نہیں دیکھا
جیئے ہم تو دکھا...
غزل
(امیر مینائی)
اُٹھو گلے سے لگا لو، مٹے گلہ دل کا
ذرا سی بات میں ہوتا ہے فیصلہ دل کا
دم آکے آنکھوں میں اٹکے تو کچھ نہیں کھٹکا
اٹک نہ جائے الٰہی معاملہ دل کا
تمہارے غمزوں نے کھوئے ہیں ہوش و صبرو قرار
انہیں لٹیروں نے لوٹا ہے قافلہ دل کا
خدا ہی ہے جو کڑی چتونوں سے جان بچے
ہے آج دل شکنوں...