تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا
ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا
صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر
جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا
جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا
بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا
مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہو گا
وہ غیر کے...
مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش
کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش
دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے
رکھتے ہیں یار جی میں اُس کی جفا کی خواہش
لعلِ خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں
پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش
اقلیمِ حسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں
کیا کریے یاں نہیں ہے...
کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش
لے ہاتھ میں قفس ٹک، صیّاد چل چمن تک
مدّت سے ہے ہمیں بھی سیرِ بہار خواہش
نَے کچھ گنہ ہے دل کا نےَ جرمِ چشم اس میں
رکھتی ہے ہم کو اتنا بے اختیار خواہش
حالآنکہ عمر ساری مایوس گزری تس پر
کیا کیا رکھیں ہیں اس کے...
اسیرِ جسم ہوں، معیادِ قید لا معلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم
تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت
دراصل ہے مری مٹی کہاں کی کیا معلوم
تعلقات کا الجھاؤ ہر طرح ظاہر
گرہ کشائیِ تقدیرِ نارسا معلوم
سفر ضرور ہے اور عذر کی مجال نہیں
مزا تو یہ ہے نہ منزل، نہ راستا معلوم
دعا کروں نہ کروں...
اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا
قسمی کہ عشق جی سے مری تاب لے گیا
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
آوے جو مصطبع میں تو سن لو کہ راہ سے
واعظ کو ایک جامِ مئے ناب لے گیا
نَے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا
میرے حضور شمع...
ہم نے پوچھا آپ کا آنا ہوا یاں کس روش
ہنس کے فرمایا لے آئی آپ کے دل کی کشش
دل جونہی تڑپا وہیں دلدار آ پہونچا شتاب
اپنے دل کی اس قدر تاثیر رکھتی ہے طپش
سیر کو آیا تھا جس گلشن میں کل وہ نازنیں
تھی عجب نازاں بخود اس باٹ* کی اِک اِک روش
ڈالتی ہے زلفِ پیچاں گردنِ دل میں کمند
اور رگِ جاں سے کرے ہے...
انتخابِ کلام الیگزنڈر ہیڈرلی آزاد
زہے وحدت وہی دیر و حرم میں جلوہ آرا ہے
ازل سے محو ہوں جس کے جمالِ حیرت افزا کا
دوئی کو ترک کر آزاد بس معقولِ وحدت رہ
اسی پر منحصر ہے فیصلہ دنیا و عقبےٰ کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لگے گا لطمۂ موجِ فنا دریائے ہستی میں
حباب اکدم کی خاطر تو اگر نکلا تو کیا نکلا
کرے...
کب وہ چونکے جو شرابِ عشق سے مستانہ ہے
شورِ محشر اس کو بہرِ خواب اِک افسانہ ہے
پھر سرِ شوریدہ پُر جوشِ جنوں دیوانہ ہے
پھر دلِ تفسیدہ پر برقِ بلا پروانہ ہے
خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگسِ مستانہ ہے
آشنا سے آشنا، بیگانے سے بیگانہ ہے
آتے جاتے ہیں نئے ہر روز مرغِ نامہ بر
بندہ پرور آپ کا گھر بھی کبوتر...
کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں
مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں
ساون تو اب کے ایسا برسا نہیں، جو کہیے
روتا رہا ہوں میں ہی دن رات اس برس میں
گھبرا کے یوں لگے ہے سینے میں دل تڑپنے
جیسے اسیرِ تازہ بے تاب ہو قفس میں
جاں کاہ ایسے نالے لوہے سے تو نہ ہوویں
بے تاب دل کسو کا رکھا ہے کیا...
شعر دیواں کے میرے کر کر یاد
مجنوں کہنے لگا کہ "ہاں استاد!"
خود کو عشقِ بتاں میں بھول نہ جا
متوکّل ہو، کر خدا کو یاد
سب طرف کرتے ہیں نکویاں کی
کس سے جا کر کوئی کرے فریاد
وحشی اب گرد باد سے ہم ہیں
عمر افسوس کیا گئی برباد
چار دیواریِ عناصر میر
خوب جاگہ ہے، پر ہے بے بنیاد
(میر تقی میر)...
یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور
یہ بات ہے بڑی دلِ عاشق طلب سے دور
دیوانہ میں نہیں کہ انا لیلیٰ لب پہ آئے
باتیں خلافِ وضع ہیں اہلِ ادب سے دور
مجھ کو سنا کے کہتے ہیں ہمدم سے، یاد ہے؟
اک آدمی کو چاہتے تھے ہم بھی اب سے دور
جو لطف میں بھی پاس پھٹکنے نہ دے کبھی
رکھیو الٰہی! ایسے کے مجھ کو...
اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش
طلسمِ ہوش ربا ہےدکانِ بادہ فروش
کھلا جو پردہ روئے حقائقِ اشیاء
کھلی حقیقتِ رازِ نہانِ بادہ فروش
فسردہ طینتی و کاہلی سے ہم نے کبھی
شباب میں بھی نہ دیکھی دکانِ بادہ فروش
یقین ہے کہ مئے ناب مفت ہاتھ آئے
یہ جی میں ہے کہ بنوں میہمانِ بادہ فروش
قدح سے دل ہے...
جی داغِ غمِ رشک سے جل جائے تو اچھا
ارمان عدو کا بھی نکل جائے تو اچھا
پروانہ بنا میرے جلانے کو وفادار
محفل میں کوئی شمع بدل جائے تو اچھا
کس چین سے نظارہ ہر دم ہو میسر
دل کوچۂ دشمن میں بہل جائے تو اچھا
تم غیر کے قابو سے نکل آؤ تو بہتر
حسرت یہ مرے دل کی نکل جائے تو اچھا
سودا زدہ کہتے ہیں،...
غافل نہ رہیو اُس سے تو اے یار آج کل
مرتا ہے تیرے عشق کا بیمار آج کل
کیا جانیں کیا کرے گا وہ خونخوار آج کل
رکھتا بہت ہے ہاتھ میں تلوار آج کل
جو ہے سو آہ عشق کا بیمار ہے دلا
پھیلا ہے بے طرح سے یہ آزار آج کل
اُس دوست کے لئے ترے دشمن ہیں سینکڑوں
اے دل! ٹک اک پہر تو خبردار آج کل
یوسف کسی...
دل نہ دیجے، اس کو اپنا، جس سے یاری کیجیے
آپ اتنی تو بھلا، خاطر ہماری کیجیے
تم کو کیا چاکِ گریباں سے کسی کے کام ہے
جائیے لڑکوں میں واں، دامن سواری کیجیے
جی میں آتا ہے، کہ اک دن مار مریے آپ کو
کب تلک گلیوں میں یوں، فریاد و زاری کیجیے
مارے تلوارں کے، اتّو کر دیا سینہ مرا
چاہیے تو، اور بھی...
کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا
خواب میں آنے کی بھی تم نے قسم کھائی کیا
اُس کا گھر چھوڑ کے ہم تو نہ کسی در پہ گئے
پر سمجھتا ہے اسے وہ بتِ ہرجائی کیا
سنتے ہی جس کے ہوئی جان ہوا تن سے مرے
اس گلی سے یہ خبر بادِ صبا لائی کیا
واہ میں اور نہ آنے کو کہوں گا، توبہ!
میں تو حیراں ہوں یہ بات...
یارانِ رفتہ آہ بہت دور جا بسے
دل ہم سے رک گیا تھا انہوں کا جدا بسے
کوچے میں تیرے ہاتھ ہزاروں بلند ہیں
ایسے کہاں سے آ کے یہ اہلِ دعا بسے
کرتا ہے کوئی زیبِ تن اپنا وہ رشکِ گُل
پھولوں میں جب تلک کہ نہ اس کی قبا بسے
بلبل کہے ہے جاؤں ہوں، کیا کام ہے مرا
میں کون، اس چمن میں نسیم و صبا بسے
جنگل...
جو چلن چلتے ہو تم کیا اُس سے حاصل ہوئے گا
خوں سے بہتوں کے غبار اس راہ کا گُل ہوئے گا
کیوں نہ کہتے تھے دلا شیریں لبوں کے منہ نہ لگ
ایک دن تجھ کو یہ شربت زہرِ قاتل ہوئے گا
چاک پر تیرے جو اب پھرتا ہے کوزہ اے کلال
یہ کبھو ہم سے کسی سرگشتہ کا دل ہوئے گا
شرح اپنی بے قراری کی لکھیں گے ہم اگر
نامہ...
ملنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا
تم چاہتے تو تم سے یہ دشوار کچھ نہ تھا
سن کر کے واقعے کو مرے اُس نے یوں کہا
کیا سچ ہے یہ؟ وہ اتنا تو بیمار کچھ نہ تھا
میری کشش سے آپ عبث مجھ سے رک رہے
روٹھا تھا یوں ہی جی سے میں بیزار کچھ نہ تھا
ہاں شب صدائے پاسی تو آئی تھی کچھ ولے
دیکھا جو اٹھ کے میں، پسِ...
چھَٹنا ضرور مکھ پہ ہے زلفِ سیاہ کا
روشن بغیر شام نہ چہرہ ہو ماہ کا
جل کر تُو اے پتنگ گرا پائے شمع پر
ہوں داغ، عذر دیکھ کے تیرے گناہ کا
جوں سایہ اس چمن میں پھرا میں تمام عمر
شرمندہ پا نہیں مرا برگِ گیاہ کا
تاراج چشمِ ترکِ بتاں کیوں نہ ہو یہ دل
غارت کرے ہے ملک کو فرقہ سپاہ کا
اے آہِ شعلہ...