ہندو ہیں بُت پرست، مسلماں خدا پرست
پوجوں میں اُس کسی کو جو ہو آشنا پرست
اس دور میں گئی ہے مروّت کی آنکھ پھُوٹ
معدوم ہے جہان سے چشمِ حیا پرست
دیکھا ہے جب سے رنگِ گفک تیرے پاؤں میں
آتش کو چھوڑ گبر ہوئے ہیں حنا پرست
چاہے کہ عکسِ دوست رہے تجھ میں جلوہ گر
آئینہ وار دل کو رکھ اپنے صفا پرست...
مثلِ آئینہ باصفا ہیں ہم
دیکھنے ہی کے آشنا ہیں ہم
نہیں دونوں جہاں سے کام ہمیں
اِک فقط تیرے مبتلا ہیں ہم
دیکھ سائے کی طرح اے پیارے!
ساتھ تیرے ہیں اور جدا ہیں ہم
ٹک تو کر رحم اے بتِ بے رحم
آخرش بندۂ خدا ہیں ہم
ظلم پر اور ظلم کرتے ہو
اس قدر قابلِ جفا ہیں ہم؟
جوں صبا نام کو تو ہیں ہم لوگ...
اس ڈھب سے کیا کیجے ملاقات کہیں اور
دن کو تو ملو ہم سے، رہو رات کہیں اور
کیا بات کوئی اُس بتِ عیّار کی سمجھے
بولے ہے جو ہم سے تو اشارات کہیں اور
اس ابر میں پاؤں مَیں کہاں دخترِ رز کو
رہتی ہے مدام اب تو وہ بد ذات کہیں اور
گھر اُس کو بُلا، نذر کیا دل تو وہ جرأت
بولا کہ یہ بس کیجے مدارات کہیں...
دمبدم ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں
موسمِ گُل میں ہم اِک دھوم مچا دیتے ہیں
جنسِ دل آپ گراں سمجھے ہیں اِک بوسے پر
دھیان اتنا نہیں کیا لیتے ہیں کیا دیتے ہیں
ہم وہ بسمل ہیں کہ ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک
دامنِ زخم سے قاتل کو ہوا دیتے ہیں
نزع میں ہوں مری بالیں سے نہ اٹھیے للہ
آپ کس وقت میں بندے کو دغا...
دکھائے رندوں کو نیرنگیِ شراب گھٹا
پئے گزک کرے طاؤس کو کباب گھٹا
گہ آئینہ ہوا، گہ دیدۂ پر آب گھٹا
کبھی بڑھا کبھی دریائے اضطراب گھٹا
عزیز آئے نہ رونے کو میری تربت پر
بہا کے اشک ہوئی داخلِ ثواب گھٹا
نہیں ہے حاجیوں کو مے کشی کی کیفیت
گئی حرم کو تو ہو گی بہت خراب گھٹا
سفر ہے باغِ جہاں گرزِ...
تا نزع قاصد اس کی لے کر خبر نہ آیا
پیغامِ مرگ آیا پر نامہ بر نہ آیا
گردش نصیب ہوں میں اس چشمِ پُر فسوں کا
دورِ فلک بھی جس کے فتنے سے بر نہ آیا
دیوانۂ پری کو کب اُنس، اِنس سے ہو
جو اُس کے در پر بیٹھا پھر اپنے گھر نہ آیا
خوبانِ جور پیشہ گزرے بہت ولیکن
تجھ سا کوئی جہاں میں بیداد گر نہ آیا...
نقش ہائے گزشتگاں ہیں ہم
محوِ حیرت ہیں اب جہاں ہیں ہم
ضعف سے کیا کہیں کہاں ہیں ہم
اپنی نظروں سے خود نہاں ہیں ہم
صبر و تاب و تواں کے جانے سے
ہائے گُم کردہ کارواں ہیں ہم
دل کی لے کر خبر بھی دل کی نہ لی
پھر کہو گے کہ دل ستاں ہیں ہم
آ کے جلدی کرو مسیحائی
اب کوئی دم کے میہماں ہیں ہم
آئینہ...
ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے رہے نہ رہے
مژہ پہ آن کے ٹک جم رہے رہے نہ رہے
رہیں وہ شخص جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے
مجھے ہے نزع، وہ آتا ہے دیکھنے اب آہ
کہ اس کے آنے تلک دم رہے رہے نہ رہے
بقا ہماری جو پوچھو تو جوں چراغِ مزار
ہوا کے بیچ کوئی دم رہے رہے نہ رہے...
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے
جُز زمینِ کوئے جاناں کچھ نہیں پیشِ نگاہ
جس کا دروازہ نظر آیا صدا دینے لگے
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا...
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
تو ہزار کرتا لگاوٹیں میں کبھی نہ آتا فریب میں
مجھے پہلے اس کی خبر نہ تھی ترا دو ہی دن کا یہ پیار ہے
یہ نوید اوروں کو جا سنا، ہم اسیرِ دام ہیں اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ پر، ہمیں کیا جو فصلِ بہار...
کیسے چھپاؤں رازِ غم، دیدۂ تر کو کیا کروں
دل کی تپش کو کیا کروں، سوزِ جگر کو کیا کروں
غیر ہے گرچہ ہمنشیں، بزم میں ہے تو وہ حسیں
پھر مجھے لے چلا وہیں، ذوقِ نظر کو کیا کروں
شورشِ عاشقی کہاں، اور مری سادگی کہاں
حُسن کو تیرے کیا کہوں، اپنی نظر کو کیا کروں
غم کا نہ دل میں ہو گزر، وصل کی شب ہو...
نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
دلوں کو فکرِ دو عالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی
مجھے وہ شاملِ اربابِ امتیاز کرے
غمِ جہاں سے...
خوبرویوں سے یاریاں نہ گئیں
دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں
عقل صبر آزما سے کچھ نہ ہوا
شوق کی بے قراریاں نہ گئیں
دل کی صحرا نوردیاں نہ چھٹیں
شب کی اختر شماریاں نہ گئیں
ہوش یاں سدِّ راہِ علم رہا
عقل کی ہرزہ کاریاں نہ گئیں
تھے جو ہم رنگِ ناز ان کے ستم
دل کی امّیدواریاں نہ گئیں
حسن...
غزل
شب وہ ان آنکھوں کو شغل اشکباری دے گئے
لے گئے خواب ان کا اور اختر شماری دے گئے
چلتے چلتے اس ادا سے وعدہ آنے کا کیا
دے کے ہاتھ اس دل پہ اور اک زخم کاری دے گئے
خواب و خور صبر و سکوں یکبار سب جاتا رہا
بے قرار اپنے کو کیسی بے قراری دے گئے
ٴ
یہ خبر تو نے سنی ہو گی کہ اس کوچے...
جب سرِ زلف تا کمر پہونچا
اس کمر کو بہت ضرر پہونچا
ہلکی پہونچی سے بھی لچکتا ہے
نازک اس کا ہے اس قدر پہونچا
اے نسیمِ سحر تو اس گل کو
بے کلی کی مری خبر پہونچا
کہیو اے جاں ، نظیر کو تیرے
رنجِ ہجر اب تو بیشتر پہونچا
یا بُلا لے اسے اِدھر اے جاں
یا تو ہی آپ کو ادھر پہونچا
قطعہ
نامۂ...
یہ غزل خاص طور پر توصیف امین صاحب کی نذر۔
شہروں ملکوں میں جو یہ میر کہاتا ہے میاں
دیدنی ہے پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں
عالم آئینہ ہے جس کا وہ مصور بے مثل
ہائے کیا صورتیں پردے میں بناتا ہے میاں
قسمت اس بزم میں لائی کہ جہاں کا ساقی
دے ہے مے سب کو ہمیں زہر پلاتا ہے میاں
ہو کے عاشق ترے، جان و...
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
دل جو سینے میں زار سا ہے کچھ
غم سے بے اختیار سا ہے کچھ
رخت ہستی بدن پہ ٹھیک نہیں
جامہء مستعار سا ہے کچھ
چشم نرگس کہاں وہ چشم کہاں
نشہ کیسا خمار سا ہے کچھ
نخل اُمید میں نہ پھول نہ پھل
شجرِ بے بہار سا ہے کچھ
ساقیا ہجر میں یہ ابر نہیں
آسمان پر...
محتسب آیا بزم میں، ساقی لے آ شراب کو
یہ نہ سمجھ کہ شب پرک دیکھے گی آفتاب کو
آنکھوں کا میری ان دنوں، یارو ہے طرفہ ماجرا
میں تو روؤں ہوں اُن کے تئیں ہنستی ہیں یہ سحاب کو
دم ہی رہا یہ پیرہن، تن تو ہو اشک بہہ گیا
جن نے نہ دیکھا ہو مجھے، دیکھے وہ جا حباب کو
پند سے تیری زاہدا ! حال مرا یہ مے سے ہے...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
ذرا وصل پر ہو اشارا تمہارا
ابھی فیصلہ ہے ہمارا تمہارا
بتو! دین و دنیا میں کافی ہے مجھ کو
خدا کا بھروسا، سہارا تمہارا
اُن آنکھوں کی آنکھوں سے لوں میں بلائیں
میسر ہے جن کو نظارا تمہارا
محبت کے دعوے ملے خاک میں سب
وہ کہتے ہیں کیا ہے اجارا تمہارا...
غزل
(امیر مینائی)
ہم لوٹتے ہیں، وہ سو رہے ہیں
کیا ناز و نیاز ہو رہے ہیں
پہنچی ہے ہماری اب یہ حالت
جو ہنستے تھے وہ بھی رو رہے ہیں
پیری میں بھی ہم ہزار افسوس
بچپن کی نیند سو رہے ہیں
روئیں گے ہمیں رُلانے والے
ڈوبیں گے وہ جو ڈبو رہے ہیں
کیوں کرتے ہیں غمگسار تکلیف
آنسو مرے مُنہ...