اردو شاعری

  1. کاشفی

    دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا - سُرُور بارہ بنکوی

    غزل (سُرُور بارہ بنکوی) دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا رقص کوئی بھی نہ ہوگا رقص بسمل کے سوا متفق اس پر سبھی ہیں کیا خدا کیا ناخدا یہ سفینہ اب کہیں بھی جائے ساحل کے سوا میں جہاں پر تھا وہاں سے لوٹنا ممکن نہ تھا اور تم بھی آ گئے تھے پاس کچھ دل کے سوا زندگی کے رنگ سارے ایک تیرے...
  2. کاشفی

    جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں - محبوب خزاں

    غزل (محبوب خزاں) جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں یہاں تو اہل سخن آدمی سے کھیلتے ہیں نگار مے کدہ سب سے زیادہ قابل رحم وہ تشنہ کام ہیں جو تشنگی سے کھیلتے ہیں تمام عمر یہ افسردگان محفل گل کلی کو چھیڑتے ہیں بے کلی سے کھیلتے ہیں فراز عشق نشیب جہاں سے پہلے تھا کسی سے کھیل چکے ہیں کسی...
  3. کاشفی

    حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں - محبوب خزاں

    غزل (محبوب خزاں) حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں زیر لب آہ بھی محال ہوئی درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں تم زلیخا نہیں کہ ہم سے کہو ہم مسیحا نہیں کہ تم سے کہیں سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے ہجر میں کیا...
  4. طارق شاہ

    فیض :::::تیری صُورت جو، دِل نشیں کی ہے! ::::: Faiz Ahmad Faiz

    غزل تیری صُورت جو، دِل نشیں کی ہے! آشنا ، شکل ہر حَسِیں کی ہے حُسن سے دِل لگا کے، ہستی کی! ہر گھڑی ہم نے آتشِیں کی ہے صُبح ِگُل ہو، کہ شامِ میخانہ مدح ، اُس رُوئے نازنِیں کی ہے شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں ہم نے، توبہ ابھی نہیں کی ہے ذکرِ دوزخ بیانِ حُور و قصُور بات گویا یہیں کہیں کی ہے اشک...
  5. کاشفی

    دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی - شہریار

    غزل (شہریار) دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی اماں کی کوئی جگہ زیرِ آسماں نہ رہی رواں ہیں آج بھی رگ رگ میں خون کی موجیں مگر وہ ایک خلش وہ متاعِ جاں نہ رہی لڑیں غموں کے اندھیروں سے کس کی خاطر ہم کوئی کرن بھی تو اس دل میں ضو فشاں نہ رہی میں اس کو دیکھ کے آنکھوں کا نور کھو بیٹھا یہ...
  6. کاشفی

    جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا - شہریار

    غزل (شہریار) جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا اسی امید پہ کب سے دھڑک رہا ہے دل ترے حضور کسی روز یہ طلب ہوگا مکاں تو ہوں گے مکینوں سے سب مگر خالی یہاں بھی دیکھوں تماشا یہ ایک شب ہوگا کوئی نہیں ہے جو بتلائے میرے لوگوں کو ہوا کے رخ کے بدلنے سے...
  7. کاشفی

    یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد - کفیل آزر امروہوی

    غزل (کفیل آزر امروہوی) یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد خیال خواب فسانے کہانیاں تھیں مگر وہ خط تجھے بھی...
  8. کاشفی

    اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے - کفیل آزر امروہوی

    غزل (کفیل آزر امروہوی) اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے...
  9. طارق شاہ

    پریم کمار نظرؔ :::::دہن کو زخم، زباں کو لہو لہو کرنا::::: Prem Kumar Nazar

    غزل دہن کو زخم، زباں کو لہوُ لہوُ کرنا عزیزو! سہل نہیں اُس کی گُفتگوُ کرنا کُھلے درِیچوں کو تکنا، تو ہاؤ ہُو کرنا یہی تماشا سرِ شام کوُ بہ کوُ کرنا جو کام مجھ سے نہیں ہو سکا،وہ تُو کرنا جہاں میں اپنا سفر مِثلِ رنگ و بُو کرنا جہاں میں عام ہیں نکتہ شناسیاں اُن کی تم ایک لفظ میں تشریحِ آرزُو...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے:::::Shafiq Khalish

    غزل نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے شبِ قیامت نہ آزمائے تو نیند آئے چّھٹیں جو سر سے دُکھوں کے سائے تو نیند آئے خبر کہِیں سے جو اُن کی آئے تو نیند آئے دماغ و دِل کو کبھی میسّر سکون ہو جب ! جُدائی اُس کی نہ کُچھ ستائے تو نیند آئے خیال اُس کا، ہو کروَٹوں کا سبب اگرچہ اُمید ملنے کی جب بھی...
  11. کاشفی

    گھیرا ڈالے ہوئے ہے دشمن بچنے کے آثار کہاں - کمار پاشی

    غزل (کمار پاشی) گھیرا ڈالے ہوئے ہے دشمن بچنے کے آثار کہاں خالی ہاتھ کھڑے ہو پاشیؔ رکھ آئے تلوار کہاں کیوں لوگوں سے مہر و وفا کی آس لگائے بیٹھے ہو جھوٹ کے اس مکروہ نگر میں لوگوں کا کردار کہاں کیا حسرت سے دیکھ رہے ہیں ہمیں یہ جگ مگ سے ساحل ہائے ہمارے ہاتھوں سے بھی چھوٹے ہیں پتوار کہاں ختم...
  12. طارق شاہ

    محسن نقوی :::::: بَدن میں اُتریں تھکن کے سائے تو نیند آئے :::::: Mohsin Naqvi

    غزل بَدن میں اُتریں تھکن کے سائے تو نیند آئے یہ دِل، کہانی کوئی سُنائے تو نیند آئے بُجھی بُجھی رات کی ہتھیلی پہ مُسکرا کر! چراغِ وعدہ، کوئی جلائے تو نیند آئے ہَوا کی خواہش پہ کون آنکھیں اُجاڑتا ہے دِیے کی لَو خود سے تھر تھرائے تو نیند آئے تمام شب جاگتی خموشی نے اُس کو سوچا! وہ زیرِ لب گیت...
  13. طارق شاہ

    حسرت جے پُوری::::::شُعلہ ہی سہی آگ لگانے کے لیے آ::::::Hasrat Jaipuri

    غزل شُعلہ ہی سہی آگ لگانے کے لیے آ پِھر نُور کے منظر کو دِکھانے کے لیے آ یہ کِس نے کہا ہے مِری تقدِیر بنا دے آ اپنے ہی ہاتھوں سے مِٹانے کے لیے آ اے دوست! مجھے گردِشِ حالات نے گھیرا تُو زُلف کی کملی میں چھپانے کے لیے آ دِیوار ہے دُنیا، اِسے راہوں سے ہٹا دے ہر رسمِ محبّت کو مِٹانے کے لیے آ...
  14. کاشف اختر

    فانی امیدِ کرم کی ہے ادا، میری خطا میں

    غزل (شوکت علی خاں فانی بدایونی) امیدِ کرم کی ہے ادا، میری خطا میں یہ بات نکلتی ہے مری لغزشِ پا میں سمجھو تو غنیمت ہے، مرا گریۂ خونیں یہ رنگ ہے پھولوں میں، نہ یہ بات حنا میں جھک جاتے ہیں سجدے میں سر اور پھر نہیں اٹھتے کیا سحر ہے کافر! ترے نقشِ کفِ پا میں وہ جانِ محبت ہیں، وہ ایمانِ...
  15. طارق شاہ

    کیفی اعظمی :::::وہ بھی سراہنے لگے اربابِ فن کے بعد ::::::Kaifi Azmi

    کیفی اعظمی غزل وہ بھی سراہنے لگے اربابِ فن کے بعد دادِ سُخن ملی مجھے ترکِ سُخن کے بعد دِیوانہ وار چاند سے آگے نِکل گئے ٹھہرا نہ دِل کہِیں بھی تری انجمن کے بعد ہونٹوں کو سی کے دیکھیے پچھتائیے گا آپ ہنگامے جاگ اُٹھتے ہیں اکثر گھٹن کے بعد غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اُس کی دُھوپ قدرِ وطن...
  16. کاشفی

    ڈوب کر خود میں کبھی یوں بے کراں ہو جاؤں گا - آزاد گلاٹی

    غزل (آزاد گلاٹی) ڈوب کر خود میں کبھی یوں بے کراں ہو جاؤں گا ایک دن میں بھی زمیں پر آسماں ہو جاؤں گا ریزہ ریزہ ڈھلتا جاتا ہوں میں حرف و صوت میں رفتہ رفتہ اک نہ اک دن میں بیاں ہو جاؤں گا تم بلاؤ گے تو آئے گی صدائے بازگشت وہ بھی دن آئے گا جب سونا مکاں ہو جاؤں گا تم ہٹا لو اپنے احسانات کی...
  17. کاشفی

    ایک ہنگامہ بپا ہے مجھ میں - آزاد گلاٹی

    غزل (آزاد گلاٹی) ایک ہنگامہ بپا ہے مجھ میں کوئی تو مجھ سے بڑا ہے مجھ میں انکساری مرا شیوہ ہے مگر اک ذرا زعم انا ہے مجھ میں مجھ سے وہ کیسے بڑا ہے کہیے جب خدا میرا چھپا ہے مجھ میں میں نہیں ہوں تو مرا کون ہے یہ اتنے جنموں جو رہا ہے مجھ میں وہی لمحے تو غزل چھیڑتے ہیں جن کی گم گشتہ صدا...
  18. کاشفی

    ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے - کمار پاشی

    غزل (کمار پاشی) ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو ٹوٹ چکے ہیں اندر سے لیکن من مانی باقی ہے ہاتھ مرے پتوار بنے ہیں اور لہریں کشتی میری زور ہوا کا قائم ہے دریا کی روانی باقی ہے گاہے گاہے اب بھی چلے...
  19. فہد اشرف

    غالب کا پوسٹ مارٹم

    غالب کا پوسٹ مارٹم ایک دن غالبؔ کے پڑھ کر شعر میری اہلیہ مجھ سے بولی آپ تو کہتے تھے ان کو اولیا عاشق بنت عنب کو آپ کہتے ہیں ولی فاقہ مستی میں بھی ہر دم کر رہا ہے مے کشی پوجنے سے مہ جبینوں کے یہ باز آتا نہیں اور پھر کافر کہے جانے سے شرماتا نہیں کوئی بھی مہوش اکیلے میں اگر آ جائے ہاتھ...
  20. عینی مروت

    سفیرِخوشبو۔۔۔۔۔۔۔ایک نظم نذر پروین شاکر

    ‎پروین کے یوم وفات پر ایک تازہ نظم خوشبو کی شاعرہ کی نذر۔۔۔۔۔ سفیرِخوشبو ‎وہ پرستارِفصل ِگل ۔۔۔۔دلپذیر تتلی ‎جس نے صحنِ چمن سے چن کر ‎سارےچنچل حسین رنگوں کی دلنشینی ‎اپنی فکر و خیال کے بال وپر پہ ‎کتنی ہی جاں گسل خواہشوں کے خوں میں ڈبو ڈبو کر۔۔۔۔سجا رکھی تھی ‎*خوشبوؤں کی سفیر۔۔ کلیوں کی گود...
Top