ہاتھ جوڑے ہیں التجا کے لیے
مان بھی جاؤ اب خدا کے لیے
اشک کرتے ہیں حال دل کا بیان
لفظ ملتے نہیں دعا کے لیے
حرفِ تسکیں کی بھیک ہے درکار
ایک مہجور و بے نوا کے لیے
مہر و الفت سے بڑھ کے کیا ہو گا
آج انسان کی بقا کے لیے
لاکھ مجھ پر زمانہ ڈھائے ستم
ہنس کے سہہ لوں تری رضا کے لیے
سر ہے در پر ترے...
ٹوٹی پھوٹی سی ایک کاوش:
یہ قیس دشت میں رو کر دہائی دیتا ہے
مرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے
کبھی پھوار جو بارش کی چوم لے ان کو
گلوں کا شوخ تبسم سنائی دیتا ہے
میں جانتا بھی ہوں کس نے کیا مجھے برباد
مگر یہ دل ہے کہ اس کی صفائی دیتا ہے
ہمیں تو ہوش و خرد سے ہے وہ جنون عزیز
جو تیرے در کی کسی کو...
غزل
عندلؔیب شادانی
کوئی اَدا شناسِ محبّت ہَمَیں بتائے
جو ہم کو بُھول جائے ، وہ کیوں ہم کو یاد آئے
اِک دِلنشیں نِگاہ میں، اللہ یہ خلش
نشتر کی نوک جیسے کلیجے میں ٹُوٹ جائے
کہتے تھے تُم سے چُھوٹ کر، کیونکر جئیں گے ہم
جیتے ہیں تُم سے چُھوٹ کے، تقدِیر جو دِکھائے
کُچھ ہم سے بے خُودی میں ہُوئیں بے...
ایک کاوش احباب کی نذر:
ساتھ کب تک کوئی چلا مت پوچھ
کس نے کی کس قدر وفا مت پوچھ
مختصر یہ کہ ہو گئے آزاد
کون کس سے ہوا رِہا مت پوچھ
تھی قیامت مگر گزر ہی گئی
تذکرہ اس کا بارہا مت پوچھ
پوچھ مجھ سے جو میرے دل میں ہے
لوگ کہتے ہیں کس سے کیا، مت پوچھ
تب مجھے بھی نہیں تھی اپنی خبر
جو ہوا اس کو بھول...
ایک طرحی غزل احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
کسی کی ذات سے کچھ واسطہ نہ ہوتے ہوئے
"میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے"
کسی کے ساتھ گزارے تھے جو خوشی کے پل
بہت رلاتے ہیں اب رابطہ نہ ہوتے ہوئے
ہزار مصلحتوں کا حجاب حائل تھا
ہمارے بیچ کوئی فاصلہ نہ ہوتے ہوئے
عجیب شے ہے محبت...
غزل
مجرُوح سُلطان پُوری
خنجر کی طرح بُوئے سَمن تیز بہت ہے
مَوسم کی ہَوا، اب کے جُنوں خیز بہت ہے
راس آئے تو ، ہر سر پہ بہت چھاؤں گھنی ہے
ہاتھ آئے ، تو ہر شاخ ثمر بیز بہت ہے
لوگو مِری گُل کارئ وحشت کا صِلہ کیا
دِیوانے کو اِک حرفِ دِلآویز بہت ہے
مُنعَم کی طرح ، پیرِ حَرَم پیتے ہیں وہ جام ...
غزل
مولانا حسرتؔ موہانی
شُکرِالطاف نہیں، شکوۂ بیداد نہیں
کُچھ ہَمَیں تیری تمنّا کے سِوا یاد نہیں
گیسوئے دوست کی خوشبُو ہے دوعالَم کی مُراد
آہ! وہ نِکہتِ برباد، کہ برباد نہیں
محوِ گُل ہیں یہ عنادل، کہ چَمن میں گویا
خوف گُلچِیں کا نہیں، خطرۂ صیّاد نہیں
جان کردی تھی کسی نے تِرے قدموں پہ نِثار...
غزل
غلام ربّانی تاباںؔ
ہر سِتم لُطف ہے، دِل خُوگرِ آزار کہاں
سچ کہا تُم نے، مُجھے غم سے سَروکار کہاں
دشت و صحرا کے کُچھ آداب ہُوا کرتے ہیں
کیوں بَھٹکتے ہو، یہاں سایۂ دِیوار کہاں
بادۂ شوق سے لبریز ہے ساغر میرا
کیسے اذکار ، مُجھے فُرصتِ افکار کہاں
کیوں تِرے دَور میں محرُومِ سزا ہُوں، کہ...
تری پرنور آنکھوں کو اندھیرے میں دیا کہہ دوں
تری مسرور آنکھوں کی شرارت کو ادا کہہ دوں
تری رنجور آنکھوں کو میں ہر غم کی دوا کہہ دوں
تری مخمور آنکھوں کو نشوں کی انتہا کہہ دوں
اجازت ہو تو کیا کہہ دوں؟
تری زلفوں کو میں عنبر فشاں، ریشم نما کہہ دوں
تری زلفوں کو تپتی دھوپ میں کالی گھٹا کہہ دوں
تری...
ایک طرحی غزل استادِ محترم الف عین اور محفلین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
ملیں گے رہنما ایسا نہیں ہے
کہ الفت راستہ ایسا نہیں ہے
جو خود جل کر کرے دنیا کو روشن
یہاں کوئی دیا ایسا نہیں ہے
کبھی ان پھول سے ہونٹوں پہ ٹھہرے
ہمارا تذکرہ ایسا نہیں ہے
چلو مانا اسے تھی فکر میری
مگر وہ پیار تھا ایسا نہیں...
غزل
آ گیا تھا وہ خوش خصال پسند
تھی ہماری بھی کیا کمال پسند
حیف ! بد صورتی رویّوں کی
ہائے دل تھا مرا جمال پسند
کیوں بنایا تھا ٹِھیکرا دل کو
کیوں کیا ساغرِ سفال پسند
ٹھیک ہے میں نہیں پسند اُنہیں
لیکن اس درجہ پائمال پسند
سچ نہ کہیے کہ سچ ہے صبر طلب
لوگ ہوتے ہیں اشتعال پسند
ہاں مجھے آج بھی...
غزل
احمد فرازؔ
مَیں کِس کا بخت تھا، مِری تقدِیر کون تھا
تُو خواب تھا ، تو خواب کی تعبِیر کون تھا
مَیں بے گلِیم لائقِ دُشنام تھا، مگر!
اہلِ صَبا میں صاحبِ توقِیر کون تھا
اب قاتِلوں کا نام و نِشاں پُوچھتے ہو کیا
ایسی محبّتوں سے بغلگیر کون تھا
مَیں زخم زخم اُس سے گَلے مِل کے کیوں ہُوا
وہ دوست...
یہ اہتمام ہے کس موجِ بے کراں کے لیے
جہاز راں جو لپکتے ہیں بادباں کے لیے
گلوں نے باغ کو مہکایا باغباں کے لیے
کہ اجرِ مہر ہی سجتا ہے مہرباں کے لیے
یہ دل پلا ہے تمہارے ستم کے شعلوں پر
غمِ حیات تو امرت ہے اس جواں کے لیے
ہے ادعائے محبت تو رنج و غم سے نہ ڈر
کہ وار دیتے ہیں لوگ اپنی جاں زباں کے لیے...
غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
کُچھ روز بڑھ رہا تھا مُقابل جو لانے کو!
جذبہ وہ دِل کا مَیں نے تَھپک کر سُلادِیا
تصدیقِ بدگمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب جب اُس نے تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب
خط میرے نام لکھ کے جب...
غزل
غلام ربانی تاباںؔ
ہَم ایک عُمر جلے، شمعِ رہگُزر کی طرح !
اُجالا غیروں سے کیا مانگتے، قمر کی طرح
کہاں کے جیب و گریباں، جِگر بھی چاک ہُوئے
بہار آئی، قیامت کے نامہ بر کی طرح
کَرَم کہو کہ سِتم، دِل دہی کا ہر انداز
اُتر اُتر سا گیا دِل میں نیشتر کی طرح
نہ حادثوں کی کمی ہے، نہ شَورَشوں کی...
ٹوٹا مندر دیکھے کوئی
میرے دل میں جھانکے کوئی
ایک اک کر کے بکھر چکے ہیں
میرے خواب سمیٹے کوئی
تیری آنکھیں غیر کی طالب
آئینہ کیوں دیکھے کوئی
دل کے باغ میں ہے ویرانی
خوشبو آن بکھیرے کوئی
کب سوچوں میں گم ہو جائے
جانے بیٹھے بیٹھے کوئی
چُھو کر عشق کی بادِ صبا کو
پھولوں جیسا نکھرے کوئی
غم کے...
غزل
شہریار
کشتی جاں سے اُتر جانے کو جی چاہتا ہے
اِن دِنوں یُوں ہے کہ، مرجانے کو جی چاہتا ہے
گھر میں یاد آتی تھی کل دشت کی وُسعت ہم کو
دشت میں آئے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کوئی صُورت ہو، کہ پِھر آگ رگ و پے میں بہے
راکھ بننے کو، بِکھر جانے کو جی چاہتا ہے
کیسی مجبُوری و لاچاری ہے، اُس کُوچے...
غزل
(افروژ رضوی)
عشق ہو جاؤں پیار ہو جاؤں
میں جو خوشبوئے یار ہو جاؤں
جب بھی نکلوں میں ڈھونڈ نے اس کو
دھول مٹی غبار ہو جاؤں
اس کے وعدے کا اعتبار کروں
پھر شب انتظار ہو جاؤں
اوڑھ لوں اس کی یاد کی چادر
اور خود پر نثار ہو جاؤں
میں ترا موسم خزاں پہنوں
اور فصل بہار ہو جاؤں
ایک شب اس کو...
غزل
فِراقؔ گورکھپُوری
یہ تو نہیں کہ غم نہیں!
ہاں میری آنکھ نم نہیں
تم بھی تو تم نہیں ہو آج!
ہم بھی تو آج، ہم نہیں
نشّہ سنبھالے ہےمجھے
بہکے ہُوئے قدم نہیں
قادرِ دو جہاں ہے، گو !
عشق کے دَم میں دَم نہیں
موت، اگرچہ موت ہے
موت سے زیست کم نہیں
کِس نے کہا یہ تُم سے خضر!
آبِ حیات سم نہیں
کہتے ہو...
سبب کھلا یہ ہمیں اُن کے منہ چھپانے کا
اڑا نہ لے کوئی انداز مسکرانے کا
طریق خوب ہے یہ عمر کے بڑھانے کا
کہ منتظر رہوں تا حشر اُن کے آنے کا
چڑھاؤ پھول میری قبر پر جو آئے ہو
کہ اب زمانہ گیا تیوری چڑھانے کا
وہ عذرِ جرم کو بدتر گناہ سے سمجھے
کوئی محل نہ رہا اب قسم کے کھانے کا
بہ تنگ آکے جو کی میں...