میرے آنگن میں جو گئی ہوگی
چاندنی کانپ تو گئی ہو گی
خشک پیڑوں کے زرد پتوں میں
پھر ہوا گیت بو گئی ہو گی
ایک بدلی ادھر سے گزری ہے
اس کا آنچل بھگو ہو گئی
شہر میں قمقمے چمک اٹھے
گاﺅں میں شام ہو گئی ہوگی
پھر حسیں ماہتاب گہنایا
وہ بھی سوچوں میں کھو گئی ہو گی
لفظ بُجھنے لگے خیالوں میں
وہ غزل فام سو گئی...