کل منعقد ہونےو الے ایک طرحی فی البدیہہ مشاعرے میں کہی گئی خاکسار کی غزل۔۔۔ آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:
ہے مشغلہ جسے مرا کردار دیکھنا
وہ شخص بھی کہاں کا ہے اوتار، دیکھنا
اٹھّے گا حشر، شام کا بازار دیکھنا
گرتی ہے کس کے ہاتھ سے تلوار، دیکھنا
دیکھے تھے خواب راحتِ وصلت قرار کے
لازم ہوا ہے ہم کو...
آج تک مجھے یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ کسی کو بھی فون پہ ذلیل کرنے کا کیا تک بنتا ہے جب کہ آپ اس کو جانتے بھی نہیں اور اگر جانتے بھی ہیں تو اگلے بندے کو آپ کو جاننے میں دلچسپی نہیں ہے یہ کوئی خاص تکلیف اٹھتی ہے ہمارے معاشرے کے مردوں کو؟ کیا یہ صرف ہمارے معاشرے میں ہی ہے یا پھر ہر جگہ ہی بندوں کا...
ابتدائی دنوں میں ایک غزل لکھنی شروع کی تھی جو ایک قطعہ سی بن کے رہ گئی۔۔۔ پیشِ خدمت ہے تنقید و اصلاح کے لئے:
کر کے وعدہ وفا نہیں کرتا
اور جفا یہ جفا نہیں کرتا
دوست ہے وہ برا نہیں کرتا
بات کر کے خفا نہیں کرتا
دیکھ کر میری بیقراری کو
کوئی راحت عطا نہیں کرتا
وہ مسیحا تو ہے مرا لیکن
مصلحت سے...
غزل
پت جھڑ کے زمانے ہیں، گم گشتہ ٹھکانے ہیں
ہم ظلم کے ماروں کے، ہر گام فسانے ہیں
کب یاد نہ تم آئے، کس لمحہ نہ ہم روئے
تم تو نہ رہے اپنے، ہم اب بھی دوانے ہیں
کانٹوں پہ چلے آتے، اک بار بلاتے تو
معلوم تو تھا تم کو، ہم کتنے سیانے ہیں
اک ڈوبتی کشتی ہے، تنکے کا سہارا ہے
اب وصل نہیں ممکن، بس...
غزل
دل ہی دل میں کسے بلاتے ہو
کس قدر تنگ دلی دکھاتے ہو
ہم تو ہیں منتظر کہ کب،کس دن
ہم کو آواز تم لگاتے ہو
کیا محبت اِسی کو کہتے ہیں
کہ فراموش کرتے جاتے ہو
کر لیا وعدۂِ وصال تو...
غزل
سخت کافر جناب تم نکلے
کر کے الفت عذاب تم نکلے
جو بھی دیکھے تھے خواب تم نکلے
سب کو پرکھا جواب تم نکلے
ہم سے وعدے کئے بہاروں کے
اور سوکھے گلاب تم نکلے
وحشتوں نے ہمیں کو گھیر لیا
جب سے جاناں سراب تم نکلے
تم سے نفرت نہ تھی نہ ہونی ہے
کیسے مانیں خراب تم نکلے
تم کو اک عمر پڑھ کے دیکھا...
میں جاننا چاہتا ہوں کہ درج ذیل اشعار کس شاعر کے ہیں۔۔۔
ستم تو یہ ہے کی وہ بھی نہ بن سکا اپنا
قبول ہم نے کیے جس کے غم خوشی کی طرح
اسی لئے میرے گیتوں میں سوز ہوتا ہے
کہ کھوکھلا ہوں میں اندر سے بانسری کی طرح
رہنمائی فرمائیے
دوستو !
دسمبر اداسی کا استعارہ ہے اور اسے نثر سے زیادہ شاعری میں کہا جاتا رہا ہے۔ آپ بھی کوئی پسندیدہ یا اپنی دسمبر کے حوالے سے شاعری شیئر کر سکتے ہیں۔
دسمبر جب بھی لوٹا ہے میرے خاموش کمرے میں...
خاکسار کے متعلق ایک دھاگے میں سارہ خان نے اپنے تبصرے میں لکھا تھا کہ یہ غزل فاتح بھائی نے مکمل نہیں پڑھوائی۔۔۔ لہٰذا اسے یہاں ارسال کر رہا ہوں۔
عادتاً وحشتوں میں جیتا ہوں
یاد کی تُربتوں میں جیتا ہوں
میں غریب الوطن، غریب مزاج
کیا عجب غربتوں میں جیتا ہوں
بھولنا تجھ کو میرے بس میں نہیں
کہنے کو...
کیا کیا نِعَم نہ تُو نے اے بارِ خدا دیے
شوقِ بدیع کار میں ہم نے گنوا دیے
ہم نے تو مَنّتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیے
جا، عشق کے مزار پہ اب تُو جلا دیے
قرطاسِ ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا
"ہم نے کتابِ زیست کے پرزے اُڑا دیے"
بازارِ شام پر نہ ہوئی حشر تک سحَر
شمس النّہار نوکِ سناں پر سجا دیے
تا،...
السلام و علیکم! ایک غزل محفل میں موجود احباب کے خدمت میں بغرضِ اصلاح حاضر ہے
تیرگی میں جل رہے ہیں خواب سارے
ٹمٹماتے ہیں مری حسرت کے تارے
ہم نے اکثر، اک جلا کر شمع تیری
بس پتنگے حسرتِ دوراں کے مارے
شاعری خونَ جگر سے ہورہی ہے
چل پڑے جب سے جگر پر غم کے آرے
کرب کی سولی پہ لٹکی ہے محبت
اب بھی...
ڈال دیا تھا میں نے بھی اک خواب سوالی جھولی میں
اپنے ہاتھوں میں پھیلی رہ جانے والی جھولی میں
آگ اچانک بھڑک اٹھی تھی رات کی کالی جھولی میں
فاتحِ عالم! پڑی ہوئی تھی ہوس بھی سالی جھولی میں
کس کی دعاؤں کا تھا ثمر وہ شعلہ جوالہ شہوت کا
ہائے کہاں سے آئی اتنی سندر گالی جھولی میں
دونوں جہاں کی مالک...
ایک فورم پر ایک غزل نظر سے گُزری ترکیب کچھ انوکھی سی تھی سوچا دوستوں سے اور اہلِ سخن سے دریافت کیا جائے کہ شاعری کے تجربات اس بات کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔کیا قوافی کا اس طرح استعمال درست ہے؟
ہے سانس سانس میں اب بیکرانیِ مقتل
سو زندگی کو فقط آپ جانیے مقتل
سجی ہےچہروں پہ پژ مردگی قیامت کی...
ایک تازہ نظم، آپ احباب کی بصارتوں کی نذر۔۔۔
اس سے پہلے کہ۔۔۔
اس سے پہلے کہ چاندنی ہو سیاہ
اس سے پہلے کہ آس بھی ہو تباہ
اس سے پہلے کہ آرزو کھو جائے
اس سے پہلے کہ سانس گُم ہو جائے
اس سے پہلے کہ ہو ملال تمام
برف ہو جائیں یہ خیال تمام
اس سے پہلے کہ ہو دمِ فریاد
راہیِ کوچۂ عدم آباد
صبر کا سینہ چاک...
اے فاحشہ مزاج! تماشا خرید لا
گھنگرو سجا لے پاؤں میں، باجا خرید لا
میرے جنون عشق کی رانی تو مر چکی
بازار سے تُو جا کوئی راجا خرید لا
جذباتِ عشق گہرے سمندر میں ڈال دے
تف ایسی بے بسی پہ، کنارا خرید لا
نیلام کر دے رات کی یہ زرد چاندنی
سورج کے دام صبح کا تارا خرید لا
جا اس کے در پہ عرقِ ندامت...
برف کے پگھلنے کا چاند کے نکلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے
آہ کے مچلنے کا اور دل سنبھلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے
کب سفر میں اُلفت کے منزلیں ملی کس کو، راحتیں ملی کس کو
فیصلہ بدلنے کا، ساتھ ساتھ چلنے کا، ایک وقت ہوتا ہے
عشق کی مرے دل میں آگ بُجھ گئی کب کی، صرف راکھ باقی ہے
آگ کے بھڑکنے کا، راکھ میں بدلنے...