مفت آبروئے زاہدِ علّامہ لے گیا
اِک مُغ بچہ اتار کے عمّامہ لے گیا
داغِ فراق و حسرتِ وصل، آرزوئے شوق
میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا
پہنچا نہ پہنچا، آہ گیا، سو گیا غریب
وہ مرغِ نامہ بر جو مرا نامہ لے گیا
اس راہ زن کے ڈھنگوں سے دیوے خدا پناہ
اِک مرتبہ جو میر کا جی جامہ لے گیا
(میر تقی میر)
پھر آئنہِ عالم شاید کہ نکھر جائے
پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے
صحرا پہ لگے پہرے اور قفل پڑے بن پر
اب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائے
خاکِ رہِ جاناں پر کچھ خوں تھا گِرو اپنا
اس فصل میں ممکن ہے یہ قرض اتر جائے
دیکھ آئیں چلو ہم بھی جس بزم میں سنتے ہیں
جو خندہ بلب آئے وہ خاک بسر جائے
یا...
آج شب کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی
خواب در خواب محلّات کے در وا ہیں کئی
اور مکیں کوئی نہیں ہے،
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
"کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت"
کوئی امّید، کوئی آس مسافر صورت
کوئی غم، کوئی کسک، کوئی شک، کوئی یقیں
کوئی نہیں...
جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں
پھر کہاں ہے جو ترے حلقۂ گیسو میں نہیں
ایک تم ہو تمہارے ہیں پرائے دل بھی
ایک میں ہوں کہ مرا دل مرے قابو میں نہیں
دور صیّاد، چمن پاس، قفس سے باہر
ہائے وہ طاقتِ پرواز کہ بازو میں نہیں
دیکھتے ہیں تمہیں جاتے ہوئے اور جیتے ہیں
تم بھی قابو میں نہیں، موت بھی...
fani badayuni
urdupoetry
اردو شاعری
اردو کلاسیکی شاعری
شوکت علی خان فانی بدایونی
طارق شاہ
غزل
فانی
فانی بدایونی
فرخمنظور
کلاسیکل شاعری
کلاسیکی شاعری
کلاسیکی شاعری اردو
شورشِ کائنات نے مارا
موت بن کر حیات نے مارا
پرتوِ حسنِ ذات نے مارا
مجھ کو میری صفات نے مارا
ستمِ یار کی دہائی ہے
نگہِ التفات نے مارا
میں تھا رازِ حیات اور مجھے
میرے رازِ حیات نے مارا
ستمِ زیست آفریں کی قسم
خطرۂ التفات نے مارا
موت کیا؟ ایک لفظِ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا
جو پڑی...
خاص اِک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی
دھجیاں خود بخود اڑتی ہیں گریبانوں کی
سخت دشوار حفاظت تھی گریبانوں کی
آبرو موت نے رکھ لی ترے دیوانوں کی
رحم کر اب تو جنوں! جان پہ دیوانوں کی
دھجیاں پاؤں تک آپہنچیں گریبانوں کی
گرد بھی مل نہیں سکتی ترے دیوانوں کی
خاک چھانا کرے اب قیس بیابانوں کی
ہم نے...
جو میرا تمہارا رشتہ ہے
میں کیا لکھوں کہ جو میرا تمہارا رشتہ ہے
وہ عاشقی کی زباں میں کہیں بھی درج نہیں
لکھا گیا ہے بہت لطفِ وصل و دردِ فراق
مگر یہ کیفیت اپنی رقم نہیں ہے کہیں
یہ اپنا عشق ہم آغوش جس میں ہجر و وصال
یہ اپنا درد کہ ہے کب سے ہمدمِ مہ و سال
اس عشقِ خاص کو ہر ایک سے چھپائے ہوئے
"گزر...
جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرح دار سے ہم
رات ملتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم
سر خوشی میں یونہی دل شاد و غزل خواں گزرے
کوئے قاتل سے کبھی کوچۂ دلدار سے ہم
کبھی منزل، کبھی رستے نے ہمیں ساتھ دیا
ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم
ہم سے بے بہرہ ہوئی اب جرسِ گُل کی صدا
ورنہ واقف تھے ہر اِک رنگ کی...
اور اُلفت بڑھ گئی اس ستمِ ایجاد سے
ک نئی لذت جو پائی دل نے ہر بیداد سے
غیر کو اندوہِ فرقت اب مبارک ہو کہ یاں
دھیان جاتا ہی نہیں اُس کا دلِ ناشاد سے
عشق میں یہ مرحلہ بھی پیش آتا ہے ضرور
کس کو امیدِ اثر ہے نالہ و فریاد سے
مجھ سے کیا کیا شاد ہو گی روحِ قیس و کوہکن
پھر نظر آتے ہیں کوہ و دشت کچھ آباد...
وچ جنگلاں دے سد پئی ماراں
جے آویں میں جندڑی واراں
میں اک کلی پئی کرلاندی
کونجاں چلیاں بنھ قطاراں
تیرے میرے جھگڑے کادھے
تیریاں جتاں میریاں ہاراں
میں چنگے کماں وچ رجھی
آپے ڈھاواں، آپ اساراں
اپنی مت نوں مار کے واصف
ہن میں سب دیاں متاں ماراں
واصف علی واصف
کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا
لبِ جاں بخش دکھایا کیے اعجاز اپنا
سرو گڑ جائیں گے گُل خاک میں مل جاویں گے
پاؤں رکھے تو چمن میں وہ سرافراز اپنا
خندہ زن ہیں، کبھی گریاں ہیں، کبھی نالاں ہیں
نازِ خوباں سے ہوا ہے عجب انداز اپنا
یہی اللہ سے خواہش ہے ہماری اے بُت
کورِ بد بیں ہو ترا، گُنگ ہو...
نذرِ مولانا حسرت موہانی
مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے
احرار کبھی ترکِ روایت نہ کریں گے
کیا کچھ نہ ملا ہے جو کبھی تجھ سے ملے گا
اب تیرے نہ ملنے کی شکایت نہ کریں گے
شب بیت گئی ہے تو گزر جائے گا دن بھی
ہر لحظہ جو گزری وہ حکایت نہ کریں گے
یہ فقر دلِ زار کا عوضانہ بہت ہے
شاہی نہیں...
زمستان کا نوحہ
(شہدائے کوئٹہ کے لئے)
از اختر عثمان
ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
ابھی تازہ کُھدی قبروں کی مٹّی بھی نہیں سُوکھی
اگربتّی کی خوشبو سانس کو مصلوب کرتی ہے
پسِ چشم ِ عزا ٹھہرے سرشکِ حشر بستہ میں ابھی احساس کا نم ہے
ابھی پرسے کو آئے نوحہ گر واپس نہیں پہنچے
ابھی کنز ِ غم ِ...
فرحت عباس شاہ کی ایک واحد غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔
تمہارا پیار مرے چارسو ابھی تک ہے
کوئی حصارمرے چارسو ابھی تک ہے
بچھڑتے وقت جو تم سونپ کر گئے تھے مجھے
وہ انتظار مرے چار سو ابھی تک ہے
توخود ہی جانے کہیں دور کھو گیا ہےمگر
تری پکار مرے چارسو ابھی تک ہے
میں جب بھی نکلا میرے پاؤں چھید ڈالے گا...
یہ کس دیارِ عدم میں ۔ ۔ ۔
نہیں ہے یوں تو نہیں ہے کہ اب نہیں پیدا
کسی کے حسن میں شمشیرِ آفتاب کا حسن
نگاہ جس سے ملاؤ تو آنکھ دکھنے لگے
کسی ادا میں ادائے خرامِ بادِ صبا
جسے خیال میں لاؤ تو دل سلگنے لگے
نہیں ہے یوں تو نہیں ہے کہ اب نہیں باقی
جہاں میں بزمِ گہِ حسن و عشق کا میلا
بنائے لطف و محبت،...
تیری نظروں کا فسوں، دشمنِ دیں ہے ساقی
ورنہ پینے میں کوئی بات نہیں ہے ساقی
جو ترے جام سے سرشار نہیں ہے ساقی
وہ بشر کون سی بستی کا مکیں ہے ساقی
اس مئے ناب سے کیا فائدہ، جب ساغر میں
جلوہ افروز تری چینِ جبیں ہے ساقی
ابھی باقی ہے الَم ہائے فراواں کا خمار
ابھی ہلکی سی کسک دل کے قریں ہے ساقی...
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول
آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول
ترکِ الفت کے دشت سے چن کر
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول
تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تری یاد پر چڑھا آئے
باندھ کر آرزو کے پلے میں
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول
حسن مجبورِ جفا ہے شاید
یہ بھی اِک طرزِ ادا ہے شاید
ایک غم ناک سی آتی ہے صدا
کوئی دل ٹوٹ رہا ہے شاید
خود فراموش ہوا جاتا ہوں
تو مجھے بھول گیا ہے شاید
ان حسیں چاند ستاروں میں کہیں
تیرا نقشِ کفِ پا ہے شاید
ایک دنیا سے ہوئے بیگانے
تجھ سے ملنے کا صلا ہے شاید
ہر گھڑی اشک فشاں ہیں آنکھیں
یہی...