فرخ منظور

  1. فرخ منظور

    فیض دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت ۔ فیض احمد فیض

    دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں یہ خونِ شہیداں ہےکہ زرخانۂ جم ہے حلقہ کیے...
  2. فرخ منظور

    فیض اس وقت تو یُوں لگتا ہے ۔ فیض احمد فیض

    اس وقت تو یُوں لگتا ہے اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید اب آ کے...
  3. فرخ منظور

    فیض گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا ۔ فیض احمد فیض

    گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی ناداں ہی سہی، ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا تھک کر یونہی پل بھر کےلئے آنکھ لگی تھی سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو...
  4. فرخ منظور

    فیض ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے ۔ فیض احمد فیض

    ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے ہم جیتیں گے حقّا ہم اِک دن جیتیں گے بالآخر اِک دن جیتیں گے کیا خوف ز یلغارِ اعداء ہے سینہ سپر ہر غازی کا کیا خوف ز یورشِ جیشِ قضا صف بستہ ہیں ارواح الشہدا ڈر کاہے کا! ہم جیتیں گے حقّا ہم اِک دن جیتیں گے قد جاء الحق و زَہَق الباطِل فرمودۂ ربِّ اکبر ہے جنت اپنے...
  5. فرخ منظور

    احمد مشتاق یہ ہم جو غزل میں حرف و بیاں بناتے ہیں ۔ احمد مشتاق

    یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں ہوائے غم کے لیے کھڑکیاں بناتے ہیں انہیں بھی دیکھ کبھی اے نگارِ شامِ بہار جو ایک رنگ سے تصویرِ جاں بناتے ہیں نگاہِ ناز کچھ ان کی بھی ہے خبر تجھ کو؟ جو دھوپ میں ہیں مگر بدلیاں بناتے ہیں ہمارا کیا ہے جو ہوتا ہے جی اداس بہت تو گل تراشتے ہیں، تتلیاں بناتے...
  6. فرخ منظور

    فیض ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لیے ۔ فیض احمد فیض

    ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لیے بیروت نگارِ بزمِ جہاں بیروت بدیلِ باغِ جناں بچوں کی ہنستی آنکھوں کے جو آئنے چکنا چور ہوئے اب ان کے ستاروں کی لَو سے اس شہر کی راتیں روشن ہیں اور رُخشاں ہے ارضِ لبنان بیروت نگارِ بزمِ جہاں جو چہرے لہو کے غازے کی زینت سے سوا پُرنور ہوئی اب ان کے رنگیں پرتو سے اس شہر...
  7. فرخ منظور

    رفیع کل میری طرح مجھ کو سلام آپ کریں گے ۔ محمد رفیع

    کل میری طرح مجھ کو سلام آپ کریں گے گلوکار: محمد رفیع فلم: میرے غریب نواز
  8. فرخ منظور

    جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر ۔ امیر خسرو

    جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر ایسا نہیں کوئی عجب، راکھے اسے سمجھائے کر جب آنکھ سے اوجھل بھیا، تڑپن لگا میرا جِیا حقّا الہٰی کیا کیا، آنسو چلے بھر لائے کر توں تو ہمارا یار ہے ، تجھ پر ہمارا پیار ہے تجھ دوستی بسیار ہے ، اِک شب ملو تم آئے کر جاناں طلب تیری کروں ، دیگر طلب کس کی کروں...
  9. فرخ منظور

    فارسی شاعری مہی گذشت کہ چشمم مجالِ خواب ندارد ۔ خسرو (مع منظوم ترجمہ)

    مہی گذشت کہ چشمم مجالِ خواب ندارد مرا شبی است سیہ رو کہ ماہتاب ندارد گیا وہ چاند نظر کو مجالِ خواب نہیں شبِ سیہ کے مقدر میں ماہتاب نہیں نہ عقل ماند نہ دانش نہ صبر ماند نہ طاقت کسی چنین دل بیچارہء خراب ندارد رہے نہ ہوش و خرد اور نہ ہی صبر و شکیب کسی کا دل بھی یوں بیچارہ و خراب نہیں تو ای...
  10. فرخ منظور

    نواب اکبر بگٹی، ذوالفقار علی بھٹو کا سگریٹ سلگاتے ہوئے

    نواب اکبر بگٹی، ذوالفقار علی بھٹو کا سگریٹ سلگاتے ہوئے
  11. فرخ منظور

    قائد اعظم کی مہاتما گاندھی، فاطمہ جناح اور ایوب خان کے ساتھ تصاویر

    قائد اعظم اور گاندھی بحث کرتے ہوئے ۔
  12. فرخ منظور

    شو کمار بٹالوی اج دن چڑھیا تیرے رنگ ورگا ۔ مہندر کپور ، کلام: شو کمار بٹالوی

    اج دن چڑھیا تیرے رنگ ورگا ۔ مہندر کپور ، کلام: شو کمار بٹالوی
  13. فرخ منظور

    فارسی شاعری گفتم کہ روشن از قمر گفتا کہ رخسار منست ۔ خسرو (مع منظوم ترجمہ)

    منظوم ترجمہ از حکیم شمس الالسلام ابدالی، فارسی غزل امیر خسرو گفتم کہ روشن از قمر گفتا کہ رخسار منست گفتم کہ شیرین از شکر گفتا کہ گفتار منست ترجمہ پوچھا کہ روشن چاند سے؟ بولا مرا رخسار ہے پوچھا کہ میٹھی قند سے؟ بولا مری گفتار ہے گفتم طریق عاشقان گفتا وفاداری بود گفتم مکن جور و جفا، گفتا...
  14. فرخ منظور

    بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی ۔ مہدی حسن

    بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی ۔ مہدی حسن کلام: بہادر شاہ ظفر
  15. فرخ منظور

    تبسم نالۂ صبا تنہا ، پھول کی ہنسی تنہا ۔ صوفی تبسّم

    نالۂ صبا تنہا ، پھول کی ہنسی تنہا اس چمن کی دنیا میں ، ہے کلی کلی تنہا رات دن کے ہنگامے ، ایک مہیب تنہائی صبحِ زیست بھی تنہا ، شامِ زیست بھی تنہا کون کس کا غم کھائے ، کون کس کو بہلائے تیری بے کسی تنہا ، میری بے بسی تنہا دیکھیے تو ہوتے ہیں سارے ہم قدم رہرو کاٹیے تو کٹتی ہے راہِ زندگی تنہا...
  16. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی دیدنی ۔ مصطفیٰ زیدی (میری پلکوں کو مت دیکھو)

    دیدنی میری پلکوں کو مت دیکھو اِن کا اٹھنا، اِن کا جھپکنا، جسم کا نامحسوس عمل ہے میری آنکھوں کو مت دیکھو اِن کی اوٹ میں شامِ غریباں، اِن کی آڑ میں دشتِ ازل ہے میرے چہرے کو مت دیکھو اِس میں کوئی وعدہء فردا، اس میں کوئی آج نہ کل ہے اب اُس دریا تک مت آؤ جس کی لہریں ٹوٹ چکی ہیں اُس سینے سے لو نہ...
  17. فرخ منظور

    فیض میجر اسحاق کی یاد میں ۔ فیض احمد فیض

    میجر اسحاق کی یاد میں لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمانِ وفا اور یہ عہد کہ تا عمرِ رواں ساتھ رہو گے رستے میں بچھڑ جائیں گے جب اہلِ صفا اور ہم سمجھے تھے صیّاد کا ترکش ہوا خالی باقی تھا مگر اس میں ابھی تیرِ قضا اور ہر خار رہِ دشت وطن کا ہے سوالی کب...
  18. فرخ منظور

    جنّت سے منٹو کا خط ۔ راجہ مہدی علی خاں

    جنّت سے منٹو کا خط (1) میں خیریت سے ہوں لیکن کہو کیسے ہو تم "راجہ" بہت دن کیوں رہے تُم "فلم کی دنیا" میں گم "راجہ" یہ دنیائے ادب سے کیوں کیا تم نے کنارا تھا ارے اے بے ادب کیا "شعر" سے "زر" تم کو پیارا تھا جو نظمیں تم نے لکھی تھیں کبھی جنت کے بارے میں چھپی تھیں وہ یہاں بھی "خلد" کے پہلے شمارے...
  19. فرخ منظور

    فیض نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی ۔ فیض احمد فیض

    نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی نہ تن میں‌ خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل کسی کے وعدہء فردا کی گفتگو ہی سہی دیارِ غیر میں محرم...
  20. فرخ منظور

    فیض عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا ۔ فیض احمد فیض

    عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا دار کی رسیوں کے گلوبند گردن میں پہنے ہوئے گانے والے ہر اِک روز گاتے رہے پایلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں تھے راستے میں کھڑے اُن کو تکتے رہے رشک کرتے رہے اور چُپ چاپ آنسو بہاتے رہے لوٹ کر آ کے دیکھا...
Top