سلام از مرزا اسد اللہ خان غالب بآواز نیرہ نور
(سلام اُسے کہ اگر بادشاہ کہیں اُس کو)
سلام اسے کہ اگر بادشاہ کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں، یہ کیا ستائش ہے؟
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو
مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی
ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا...
تسکیں کو ہم نہ روئیں، جو ذوقِ نظر ملے ۔ غالب (مختلف گلوکار)
نور جہاں
بیگم اختر
ملکہ پکھراج
طاہرہ سید
نگہت اکبر
اقبال بانو
فریحہ پرویز
راحت فتح علی خان
ششر پارکھی
تسکیں کو ہم نہ روئیں، جو ذوقِ نظر ملے
حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ...
غزل
(مرزا اسد اللہ خاں غالب رحمتہ اللہ علیہ)
شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میںبھی عریاں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگئی دل کی یارب
تیر بھی سینہءبسمل سے پر افشاں نکلا
بوئے گل، نالہء دل، بوئے چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
دل حسرت زدہ تھا مائدہء لذت...
نکتہ چیں ہے غمِ دل، اس کو سنائے نہ بنے (غالب) ۔ مختلف گلوکار
ثریا
سحر صدیقی
نور جہاں
محمد رفیع
کندن لال سہگل
عابدہ پروین
نکتہ چیں ہے غمِ دل، اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے...
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے ۔ مختلف گلوکار
جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ، جب کہ آغاز کے اشعار بغیر موسیقی ونود سہگل نے گائے ہیں
عابدہ پروین
لتا منگیشکر
غلام علی
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
نہ شعلے میں یہ کرشمہ، نہ برق میں یہ ادا...
کوئی امید بر نہیں آتی ۔ مختلف گلوکار
نور جہاں
بیگم اختر
عابدہ پروین
ملکہ پکھراج
شاہدہ پروین
حامد علی خان
راحت ملتانیکر
آخر میں ان حضرت کے ہاتھوں اس غزل کی بربادی پر ماتم بھی کر لیجیے۔ اس ویڈیو میں حاضرین کے درمیان نصیر الدین شاہ کو حالتِ سوگ میں ہکا بکا بیٹھے دیکھ کر اندازہ...
آج وارث صاحب سے گفتگو کے دوران انہیں ایک شعر سنایا جو غالب کے مصرع "اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے" پر قتیل شفائی کی تضمین ہے۔ شعر کچھ یوں تھا:
جس برہمن نے کہا ہےکہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
وارث صاحب کو یہ شعر بے حد پسند آیا اور ان کی جانب سے پذیرائی کو مہمیز...
غزل
(مرزا اسد اللہ خاں غالب رحمتہ اللہ علیہ)
دہر میں نقش وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہء معنی نہ ہوا
سبزہء خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
دل گزرگاہ خیال مے و...
غزل
(غالب رحمتہ اللہ علیہ)
کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں گر آجائے ہے مُجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مُجھ سے
خُدایا جذبہءدل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مُجھ سے
وہ بَد خُو اور میری داستانِ عشق طولانی
عبارت مختصر، قاصد بھی گھبرا جائے ہے...
غزل
(مرزا اسد اللہ خاں غالب رحمتہ اللہ علیہ)
دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
آتشِ خاموش کی مانند گویا جل گیا
دل میںذوقِ وصل و یاد یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا
عرض کیجئے...
آج بیٹھے بیٹھے اس غزل کا مطلع ذہن کے دیوار و در سے سر ٹکرانے لگا۔ اور دل چاہا پوری غزل ہی شئیر کی جائے۔
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے
ہے کائنات کو حَرَکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے
حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ
غافل کو میرے شیشے پہ...
غزل
(نانا غالب رحمتہ اللہ علیہ)
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری ناز کی سے جانا کہ بنا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے...
نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاؤکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
بس کہ ہوں...
مرثیہ جناب مرزا اسد اللہ خاں مرحوم دہلوی متخلص بہ غالب
از الطاف حسین حالی
کیا کہوں حالِ دردِ پنہانی
وقت کوتاہ و قصہ طولانی
عیشِ دنیا سے ہو گیا دل سرد
دیکھ کر رنگِ عالمِ فانی
کچھ نہیں جز طلسمِ خواب و خیال
گوشۂ فقر و بزمِ سلطانی
ہے سراسر فریبِ وہم و گماں
تاجِ فغفور و تختِ خاقانی
بے حقیقت...
یوں تو مجھے غالب کی ساری شاعر پسند ہے ، مگر یہ غزل پسندیدہ ترین میں سے ایک ہے
غزل
ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں
کب سے ہُوں۔ کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے...
غالب کی ایک مثنوی 'قادر نامہ' ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش کرنے کے بعد 'نسخۂ مہر' سے غالب کی ایک اور مثنوی لکھ رہا ہوں کہ یہ بھی ویب پر 'غیر مطبوعہ' ہے۔
تعارف
'پنج آہنگ' غالب کی فارسی نثر کی کتاب ہے اور پانچ حصوں پر مشتمل ہے جس میں غالب نے القاب و آداب، لغاتِ فارسی، اشعارِ مکتوبی، تقاریظ اور...
متین امروہوی صاحب دہلی ہندوستان کے ایک معروف شاعر ہیں اور غالب اکاڈمی دہلی سے منسلک ہیں۔ آپ نے حال ہی میں اپنا مجموعہء کلام بعنوان "گلہائے سخن" شائع کیا ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تمام غزلیں مرزا اسد اللہ خاں غالب رحمتہ اللہ علیہ کی غزلوں کی زمین اور بحروں میں کہی گئی ہیں۔ اس کام کی...
یہ مثنوی 'ہفتۂ شعر و ادب' 22 تا 28 جولائی 2009ء کے سلسلے کیلیے خاص طور پر منتخب کی گئی ہے۔
-----------
ویب کی دنیا میں غالب کے اردو کلام کا شاید ہی کوئی حصہ ہوگا جو موجود نہ ہو لیکن جو مثنوی میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں وہ ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش ہو رہی ہے، میرے لیے یہ سعادت تو ہے...