غزلِ غالب
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں...
مرزا اسداللہ خاں غالب
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزُر پہ ہم، غیر ہمیں اُٹھائے کیوں
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں...
مرزا اسداللہ خاں غالب
وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار، نقشِ محبّت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو
پیدا ہوئی ہے، کہتے ہیں، ہر درد کی دوا
یوں ہو...
غزلِ غالب
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا
تِری نازُکی سے جانا کہ بندھا تھا عہدِ بُودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگراستوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نِیمکش کو
یہ خلِش...
غالب کا یہ قطعہ مجھے از حد پسند ہے۔ میں نے سوات کے ایک فن کار شمس سے، جو کہ بابا کے جاننے والوں میں سے ہیں، اس قطعے کی خطاطی کی فرمائش کی تھی۔ انہوں نے از راہ شفقت برج درخت کے چھال پر لکھ کر مجھے عنایت کیا تھا۔ آپ کے ذوق کے لئے یہاں آپ کے ساتھ شئیر کرتی ہوں۔
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میںطاقت، جگر میں حال کہاں
ہم سے چھوٹا "قمار خانۂ عشق"...
غزلِ
اسدالله خاں غالب
کی وفا ہم سے تو غیر اُس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچّھوں کو بُرا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر اُن سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، اِنھیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو...
غزلِ
مرزا اسد الله خاں غالب
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کاروبارِ شوق کِسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
تھی وہ اِک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت، جگر...
غزلِ
اسد الله خاں غالب
تسکِیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر مِلے
حُورانِ خلد میں تری صورت مگر مِلے
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر مِلے
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں، لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر مِلے
تم کو بھی ہم دِکھائیں، کہ مجنوں نے کیا کِیا...
یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے
دل کے سب زخم بھی ہم شکلِ گریباں ہوں گے
وجہِ مایوسیِ عاشق ہے تغافل ان کا
نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے
دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے
منتشر ہو کے بھی دل جمع رکھیں گے یعنی
ہم بھی اب پیروئے گیسو ئے...
عزیزی عطاء الرحمٰن نے گوگل اینڈرائڈ کے لئے ایپ کا اجراء کر دیا ہے، اس میں دیوان غالب کا اردو ویب نسخہ کا استعمال کیا ہے۔ ان کی ای میل بھی یہاں کاپی کر رہا ہوں۔
’’
اعجاز صاحب، اسلام و علیکم
میں نے آپ سے مارچ میں غالب کے دیوان کی ایپ لکھنے کی بات کی تھی. تو جناب، دو مہینے کی محنت کے بعد میں...
بشکریہ اشہد سید
حاسد لگے ہوئے ہیں اسی اک سراغ میں
آتا کہاں سے تیل ہے اس کے چراغ میں
دو چار شعر پر انہیں کچھ داد کیا ملی
وہ عیب ڈھونڈنے لگے غالب میں داغ میں
(حامد بھنسالوی)
غزل
اسداللہ خاں غالب
دلِ ناداں تُجھے ہُوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مُشتاق اور وہ بیزار
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منْہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پُوچھو، کہ مُدّعا کیا ہے
جب کہ تُجھ بِن نہیں کوئی موجُود
پھر یہ ہنگامہ، اے خُدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ...
غزلِ
مرزا اسداللہ خاں غالب
بےاعتدالیوں سے سُبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہوگئے، اُتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دامِ سخت، قریب آشیان کے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
ہستی ہماری، اپنی فنا پر دلِیل ہے
یاں تک مِٹے کہ آپ ہم اپنی قسم ہوئے
سختی کشانِ عشق کی پُوچھے ہے کیا خبر
وہ لوگ رفتہ...
ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی
شعبہ اردو ،جامعہ ملیہ نئی دہلی(بھارت)
غالب کی انسان دوستی
سماجی سروکار ادب کا آفاقی موضوع ہے اور بشمول اردو بر صغیر ہند و پاک کا ادب اس تعمیم سے مستثنیٰ نہیں۔ کسی ادیب یا شاعر اور اس کے معاشرے کے درمیان تعلق دنیا سے اس کے سروکاروں کی مختلف سطحوں کا عکاس ہوتا ہے اور...
ذیل کا مضمون غالب ٹرسٹ کی جانب سے خصوصی طور پر محفل فورم میں اشاعت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی
ممتاز ترین پروفیسر شعبہ فارسی جی سی یونیورسٹی لاہور
غالب و بیدل میں فکری و فنی قربتیں اور فاصلے
غالب اردو کے علاوہ فارسی زبان کے بھی بہت بڑے شاعر ہیں۔ خود ان کادعویٰ ہے کہ ان کا...
ذیل کا مضمون غالب ٹرسٹ کی جانب سے خصوصی طور پر محفل فورم میں اشاعت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر
ممتاز ماہر غالبیات و نقاد
غالبؔ اکیسویں صدی میں
تاریخ ادب کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ایک صدی، صرف ایک کی تخلیقی شخصیت کے نام سے موسوم ہوتی ہے جبکہ بقیہ درجن، دو...
ذیل کا مضمون غالب ٹرسٹ کی جانب سے خاص طور پر محفل فورم میں اشاعت کے لیے ارسال کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر ناہید قاسمی
نگران مدیر مجلہ ’فنون‘ لاہور
غالبؔ شناسی اور احمد ندیمؔ قاسمی
(پہلی بات تو یہ کہوں گی کہ تسلیم احمد تصور صاحب جیسی بے غرض، مخلص و مہذب، محنتی اور علم و فن دوست شخصیات کی فی زمانہ...
غزل
مرزا اسداللہ خاں غالب
عشق مجھ کو نہیں، وحشت ہی سہی
میری وحشت، تِری شہرت ہی سہی
قطع کیجے نہ، تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے، توعداوت ہی سہی
میرے ہونے میں، ہے کیا رُسوائی؟
اے، وہ مجلس نہیں، خلوت ہی سہی
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی
اپنی ہستی ہی سے ہو، جو کچھ ہو...