زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچھ بچا ہی نہیں
زندگی، موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستا ہی نہیں
جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں
اپنی رچناؤں میں...
دیار غیر میں کیسے تجھے سدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے
تمہی نے نہ سنایا اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ دیتے کہ آسماں ہلا دیتے
وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
کہ جسے حال سناتے اُسے رولا دیتے
ہمیں یہ زعم تھا کہ اب کہ وہ پکاریں گے
انہیں یہ ضد تھی کہ ہر بار ہم صدا دیتے
تمھیں...
ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا
دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا
اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا
آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا
ان کی بے مہریوں کو کیا...
http://www.divshare.com/download/4544020-59e
پوچھتے ہو تو سنو کیسے بسر ہوتی ہے
رات خیرات کی، صدقے کی سحر ہوتی ہے
سانس بھرنے کو تو جینا نہیں کہتے یا رب!
دل ہی دُکھتا ہے نہ اب آستیں تر ہوتی ہے
جیسے جاگی ہوئی آنکھوں میں چبھیں کانچ کے خواب
رات اس طرح دوانوں کی بسر ہوتی ہے
غم ہی دشمن ہے مرا،...
تھیں گلستاں میں رونقیں جن کے شباب سے
مرجھا کے رہ گئے ہیں وہ چہرے گلاب سے
جب کر چکا ہے باغباں آندھی سے ساز باز
کیسے بچیں گے پیڑ خزاں کے عذاب سے
کیوں بھیجتے ہو ہم کو بتاؤ تو زرد پھول
رشتہ اگر نہیں ہے ہمارا جناب سے
آنکھوں سے روح تک جو فروزاں ہیں ساقیا
کیسے مٹیں گے نقش بھلا وہ شراب سے...
متاعِ شیشہ کا پروردگار سنگ ہی سہی
متاعِ شیشہ پہ کب تک مدار کارگہی
بہار میں بھی وہی رنگ ہے وہی انداز
ہنوز اہلِ چمن ہیں شکار کم نگہی
فسردہ شبنم و بےنور دیدہء نرگس
دریدہ پیرہنِ گل، ایاغِ لالہ تہی
بلند بانگ بھی ہوتے گناہ کرتے اگر
نوائے زیرِ لبی ہے ثبوتِ بے گہنی
اُس ایک بات کے افسانے...
جو خیال تھے نا قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے،وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل،وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے،وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستایئں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے، وہی لوگ مجھ...
اک پریشاں سی روایت ہم ہیں
کچھ سہی پھر بھی غنیمت ہم ہیں
جب یہ سوچا ہے تو اور اُلجھے ہیں
اتنے کیوں سادہ طبیعت ہم ہیں
ہر قدم کہتے ہیں کچھ تازہ نقوش
اے مسافر تری ہمت ہم ہیں
کوئی قاتل ہو تو دیں اُس کا پتہ
کُشتہء تیغ شرافت ہم ہیں
چشمِ تحقیق سے دیکھا تو کُھلا
وقت کی ساری اذیت ہم ہیں...
ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
یارو سکوت ہی کو صدا کہہ لیا کرو
خود کو فریب دو کہ نہ ہو تلخ زندگی
ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہہ لیا کرو
گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
جتنے صنم ہیں ان کو خدا کہہ لیا کرو
یارو یہ دور ضعفِ بصارت کا دور ہے
آندھی اُٹھے تو اِس کو گھٹا کہہ لیا کرو
انسان کا...
اس طرح دھڑکتا ہے کوئی دل مرے دل میں
ہو جیسے مرا مدمقابل مرے دل میں
ہاتھوں سے ترے غم کا سرا چھوٹ رہا ہے
یا ڈوب رہا ہے کوئی ساحل مرے دل میں
رہنا تھا مرے دل میں کسی غنچہ دہن کو
اور بس کیا اک شور سلاسل مرے دل میں
لپٹے رہے اک چاند کے دامن سے کنائے
اک درد سے ہوتی رہی جھلمل مرے دل میں...
ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں
خود میں گم رہنا تو عادت ہے پرانی میری
بھیڑ مین بھی تمہیں مل جاؤں گا آسانی سے
کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری
میں نے اک بار کہا تھا کہ بہت پیاسا ہوں
تب سے مشہور ہوئی تشنہ دہانی میری
یہی دیوار و درو بام تھے میرے ہم راز
انہی گلیوں میںبھٹکتی تھی جوانی...
یونہی بے سودا جینا ہے تو سر کا کیا کروں
دید بھی نادید ہو جب تو نظر کیا کیا کروں
جب ارادہ ہی نہ ہو جب کو جادہ ہی نہ ہو
پاؤں کا میں کیا کروں میں رہگزر کا کیاکروں
جب نہ اڑنے اور اڑنے کا محاصل ایک ہو
بے پری کیا کیا کروں میں بال و پر کا کیا کروں
گو پڑی ہے عجلت دل کو سہولت کی مگر
اس اگر...
کتنے اچھے تھے ہم دونوں
دھن کے پکے تھے ہم دونوں
مخلص مخلص پاگل پاگل
ایک ہی جیسے تھے ہم دونوں
مل جاتے تو پورے ہوتے
آدھے آدھے تھے ہم دونوں
واپس آنا تھا ناممکن
گزرے لمحے تھے ہم دونوں
خشک ہوئے صحرا کی صورت
جھیل سے گہرے تھے ہم دونوں
سلب کیا حالات نے ہم کو
خودرو پودے تھے ہم دونوں...
ریاض خیرآبادی اردو شاعری میں خمریات کے امام ہیں، انکی ایک غزل نمونۂ کلام کے طور پر:
جس دن سے حرام ہو گئی ہے
مے، خلد مقام ہو گئی ہے
قابو میں ہے ان کے وصل کا دن
جب آئے ہیں شام ہو گئی ہے
آتے ہی قیامت اس گلی میں
پامالِ خرام ہو گئی ہے
توبہ سے ہماری بوتل اچھّی
جب ٹوٹی ہے، جام ہو گئی ہے
مے...
مینا کماری جس کا اصل نام 'ماہ جبین بانو' تھا انڈین فلموں میں ٹریجڈی کوئین کے طور پر مشہور ہوئی۔ وہ ایک شاعرہ بھی تھی اور ناز تخلص کرتی تھی۔
مینا کماری ناز کی ایک غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
ذیل میں مینا کماری کی اپنی آواز میں اس غزل کی آڈیو بھی منسلک کر رہا ہوں...
کون دہرائے وہ پرانی بات
غم بھی سویا ہے جگائے کون
وہ جو اپنے ہیں ، کیا وہ اپنے ہیں
کون دُکھ جھیلے ، آزمائے کون
اب سُکھ ہے تو بھلانے میں ہے
لیکن اُس شخص کو بھلائے کون
آج پھر دل ہے کچھ اداس اداس
دیکھیئے آج یا د آئے کون ؟؟؟ جاوید اختر ۔
؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏
کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرا نہیں ہے
یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے
جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے
زمانہ دیکھتا ہے ہر تماشہ
یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے
ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اس کے
مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے...
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی
چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
نظرِ تغافلِ...
پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے
پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دیے
نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دیے
غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دیے
اڑتا ہوا غبار سرِ راہ دیکھ کر
انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دیے
بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے
سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دیے
رنگِ شفق سے آگ...