ghazal

  1. ر

    کرشمے حسن کے پنہاں تھے شاید رقص بسمل میں

    ترے جلوں کے آگے ہمت شرح و بیاں رکھ دی زبان بے نگہ رکھ دی نگاہ بے زبان رکھ دی مٹی جاتی تھی بلبل جلوہ گل ہائے رنگیں پر چھپا کر کس نے ان پردوں میں برق آشیاں رکھ دی نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں ! ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میں نے جہاں رکھ دی قفس کی یاد میں یہ اضطراب دل، معاذ اللہ...
  2. فرخ منظور

    کھُل جائے ہم پہ بھید جو اس کائنات کا - مقسط ندیم

    کھُل جائے ہم پہ بھید جو اس کائنات کا ہوجائے ختم دہر میں مقصد حیات کا کیا ڈھونڈتے ہیں جا کے ستاروں کے شہر میں خود جن پہ انکشاف نہیں اپنی ذات کا دیکھیں تو ہر ثواب پہ لالچ کا پیرہن سوچیں تو ہر گناہ میں پہلو نجات کا شبنم ہے توُ تو پھیل اسی وقت پھول پر اب کون انتظار کرے آدھی رات کا...
  3. فرخ منظور

    کوئی تازہ کنول نہیں‌ملتا - مقسط ندیم

    کوئی تازہ کنول نہیں‌ملتا تیرا نعم البدل نہیں ملتا اک حقیقت ہے دوستوں کا خلوص ہاں مگر آج کل نہیں ملتا ذہن حسّاس ہو تو دنیا میں چین کا ایک پل نہیں‌ ملتا اے خدا مجھ کو دے میں سلجھا دوں مشکلیں جن کا حل نہیں ملتا چھان ماری ندیم بزمِ سخن تیرا رنگِ غزل نہیں ملتا
  4. فرخ منظور

    رات رو رو کے سو گئیں آنکھیں - مقسط ندیم

    رات رو رو کے سو گئیں آنکھیں چہرہء غم کو دھو گئیں آنکھیں نیند کے نیم سبز کھیتوں میں فصل خوابوں کی بو گئیں آنکھیں دیکھ کر سنگدل زمانے کو خود بھی پتھر کی ہو گئیں آنکھیں رنج و غم کے سفید دھاگے میں سرخ موتی پرو گئیں آنکھیں دل کی بینائی سے جلا کے چراغ سفرِ دید کو گئیں آنکھیں پھر...
  5. فرخ منظور

    جسم کو روح کو بینائی دے - مقسط ندیم

    جسم کو روح کو بینائی دے تاکہ صورت تری دکھلائی دے اجڑے شہروں کی حکایات سنوں گونگے کھنڈرات کو گویائی دے مجھ سے قبریں نہیں‌دیکھی جاتیں دے مجھے اذنِ مسیحائی دے دیکھ کر چہرہء اقدارِ قدیم اِک نئ شکل کو زیبائی دے ڈوب کر بحرِ معانی میں‌ ندیم سطحِ الفاظ کو گہرائی دے
  6. فرخ منظور

    خوب تر کی جسے تلاش نہیں - مقسط ندیم

    خوب تر کی جسے تلاش نہیں اُس پہ جینے کا راز فاش نہیں روح کا انگ انگ زخمی ہے جسم پر ایک بھی خراش نہیں میں نے پا تو لیا خدا کو مگر وہ میرا حاصلِ تلاش نہیں خود تراشو مجسمے اپنے زندگی دستِ بت تراش نہیں گرچہ طوفاں ہے زیرِ آب ندیم سطحِ دریا پہ ارتعاش نہیں
  7. فرخ منظور

    اٹھ کے کیا ہم تری گلی سے گئے - مقسط ندیم

    اٹھ کے کیا ہم تری گلی سے گئے جان سے، دل سے، زندگی سے گئے ہم نے اخلاص کی حدیں چھو لیں دوست پھر بھی نہ دشمنی سے گئے اِک کلی کے بدن کو چھو کر ہم عمر بھر کے لئے ہنسی سے گئے تیرے اِک شاہکار کی خاطر اے خدا تیری بندگی سے گئے بجھ گیا آس کا چراغ ندیم ذہن و دل دونوں روشنی سے گئے
  8. فرخ منظور

    میں گلستاں میں نشیمن ہوں پھر بنانے کو - مقسط ندیم

    میں گلستاں میں نشیمن ہوں پھر بنانے کو خبر کرو کسی بجلی کے تازیانے کو متاعِ درد ملی ہے ہزار جتنوں سے بہت سنبھال کے رکھا ہے اس خزانے کو پکارتی ہے تمہیں بام و در کی تاریکی! کبھی تو روشنی بخشو غریب خانے کو کہو اندھیروں سے چاہیں تو راستہ روکیں میں جا رہا ہوں چراغِ وفا جلانے کو سوائے...
  9. فرخ منظور

    یاد یوں آئی اس کے آنچل کی -مقسط ندیم

    یاد یوں آئی اس کے آنچل کی شاخ لہرائے جیسے صندل کی تو بھی رویا ہے یاد کرکے ہمیں کہہ رہی ہے لکیر کاجل کی تیری آنکھوں پہ آکے ختم ہوا ذکر قاتل کا، بات مقتل کی پھول پر جیسے قطرہء شبنم اُس بدن پر قمیض ململ کی کتنا آرام دہ تھا اُس کا بدن جیسے چادر سفید مخمل کی! میرے نزدیک شعر کی...
  10. فرخ منظور

    جب تک اُمیدِ وصل کے صحراؤں میں رہا - مقسط ندیم

    جب تک اُمیدِ وصل کے صحراؤں میں رہا اِک آبلہ جنوں کا مرے پاؤں میں رہا یہ ہونٹ پھر بھی خشک رہے ریت کی طرح گو میرا جِسم وصل کے دریاؤں میں رہا کیسے پسند آئے اسے سایہء شجر جو شخص گیسوؤں کی گھنی چھاؤں میں رہا اس حوصلے کی داد تو دو دوستو مجھے میں قتل کرنے والے مسیحاؤں میں رہا دیکھیں نہ...
  11. ر

    اصغر گونڈوی ادا و رسم بلالی و طرز بولہبی

    گلوں کی جلوہ گری، مہر و مہ کی بوالعجبی تمام شعبدہ ہائے طلسم بے سببی گذر گئی ترے مستوں پہ وہ بھی تیرہ شبی نہ کہکشاں نہ ثریا نہ خوشہ عنبی یہ زندگی ہے یہی اصل علم و حکمت ہے جمال دوست و شب مہ و بادہ عنبی فروغ حسن سے تیرے چمک گئی ہر شے ادا و رسم بلالی و طرز بولہبی ہجوم غم میں نہیں...
  12. ر

    اصغر گونڈوی یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے ۔اصغر گونڈوی

    یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے قطرہ میں سمندر ہے، ذرہ میں بیاباں ہے ہے عشق کہ محشر میں یوں مست و خراماں ہے دوزخ بگریباں ہے، فردوس بہ داماں ہے ہے عشق کی شورش سے رعنائی و زیبائی جو خون اچھلتا ہے وہ رنگ گلستاں ہے پھر گرم نوازش ہے ضو مہر درخشاں کی پھر قطرہ شبنم میں ہنگامہ...
  13. فرحت کیانی

    اپنے مسلک سے ہٹ گئے رستے۔۔۔ فضل گلبرگوی

    اپنے مسلک سے ہٹ گئے رستے راستے سے پلٹ گئے رستے دیکھ لیں راہروانِ راہِ خرد کتنی گلیوں میں بٹ گئے رستے کارواں کو تھی زندگی کی تلاش اور لاشوں سے پٹ گئے رستے اہلِ دل جس طرف سے گزرے ہیں احتراماً سمٹ گئے رستے اب تو اے دوستو بڑھاؤ قدم گردوطوفاں سے چھٹ گئے رستے شوق کو رہنما بنایا تھا...
  14. محمد وارث

    جون ایلیا غزل - کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو - جون ایلیا

    کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو تُو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو سفر کرنا ہے آخر دو پلک بیچ سفر لمبا ہے بے بستر نہ رہیو ہر اک حالت کے بیری ہیں یہ لمحے کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو ہمارا عمر بھر کا ساتھ ٹھیرا سو میرے ساتھ تُو دن بھر نہ رہیو بہت دشوار ہو جائے گا جینا یہاں تُو ذات کے اندر نہ رہیو...
  15. ظ

    بادباں کب کھولتا ہوں ، پار کب جاتا ہوں میں

    بادباں کب کھولتا ہوں ، پار کب جاتا ہوں میں روز رستے کی طرح ، دریا سے لوٹ آتا ہوں میں صبحِ دم میں کھولتا ہوں ، رسّی اپنے پاؤں کی دن ڈھلے خود کو ، کہیں سے ہانک کر لاتا ہوں میں اپنی جانب سے بھی دیتا ہوں ، کچوکے جسم کو اس کی جانب سے بھی ، اپنے زخم سہلاتا ہوں میں ایک بچّے کی طرح ، خود...
  16. ظ

    مجید امجد اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صُبحوں کے حوالے کرنا ہے

    اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صُبحوں کے حوالے کرنا ہے کانٹوں سے اُلجھ کر جینا ہے پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے شاید وہ زمانہ لوٹ آئے، شاید وہ پلٹ کر دیکھ بھی لیں ان اُجڑی اُجڑی نظروں میں پھر کوئی فسانہ بھرنا ہے یہ سوزِ دروں یہ اشکِ رواں یہ کاوشِ ہستی کیا کہیے مرتے ہیں کہ کچھ جی لیں ہم، جیتے ہیں کہ...
  17. فرحت کیانی

    شاد عظیم آبادی ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم - شاد عظیم آبادی

    ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم اے درد بتا کچھ تُو ہی بتا! اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا ہم میں ہے دلِ بےتاب نہاں یا آپ دلِ دلِ بےتاب ہیں ہم میں حیرت و حسرت کا مارا، خاموش کھڑا ہوں ساحل پر دریائے محبت کہتا ہے، آ! کچھ بھی نہیں...
  18. ظ

    تم یہ کیسے جدا ہوگئے

    تم یہ کیسے جدا ہوگئے ہر طرف ، ہر جگہ ہوگئے اپنا چہرہ نہ بدلا گیا آئینے سے ، خفا ہوگئے جانے والے گئے بھی کہاں چاند سورج ، گھٹا ہوگئے بے وفا تم نہ وہ تھے نہ ہم یوں ‌ہوا ، بس جدا ہوگئے آدمی بننا آساں نہ تھا شیخ جی ، پارسا ہوگئے
  19. ظ

    تم بیھٹے ہو ، لیکن جاتے دیکھ رہا ہوں

    تم بیٹھے ہو ، لیکن جاتے دیکھ رہا ہوں میں تنہائی کے دن ، آتے دیکھ رہا ہوں آنے والے لمحے سے ، دل سہما ہے تم کو بھی ڈرتےگھبراتے ، دیکھ رہا ہوں کب یادوں کا زخم بھرے ، کب داغ مٹے کتنے دن لگتے ہیں بھلاتے ، دیکھ رہا ہوں اس کی آنکھوں میں بھی کاجل پھیلا ہے میں بھی مڑ کے ، جاتے جاتے...
  20. ملائکہ

    قتیل شفائی یارو کہاں تک محبت نبھاؤں میں

    یارو کہاں تک محبت نبھاؤں میں دو مجھ کو بددعا کہ اسے بھول جاؤں میں دل تو جلاگیا ہے وہ شعلہ سا آدمی اب کس کو چھو کے اپنا ہاتھ جلاؤں میں سنتا ہوں اب کسی سے وفا کررہا ہے وہ اے زندگی خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں میں اک شب بھی وصل کی نہ مرا ساتھ دے سکی عہد فراق آکہ تجھے آزماؤں میں بدنام میرے قتل سے...
Top