غضب شاعری

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::تیری نظروں سے اُلجھ جانے کو جی چاہتا ہے :::::: Shafiq -Khalish

    غزل تیری نظروں سے اُلجھ جانے کو جی چاہتا ہے پِھر وہ اُلفت بھرے پیمانے کو جی چاہتا ہے تیرے پہلُو میں دَبک جانے کو جی چاہتا ہے غم سے کُچھ دیر نِکل آنے کو جی چاہتا ہے دِل میں ڈر سے دَبی اِک پیار کی چنگاری کو دے ہَوا، شعلہ سا بھڑکانے کو جی چاہتا ہے جاں بچانے ہی ہم محفوظ مقام آئے تھے! پھر مُصیبت...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::::ماہِ رمضاں میں عبادت کا مزہ کُچھ اور ہے::::::Shafiq -Khalish

    غزل شفیق خلشؔ ماہِ رمضاں میں عِبادت کا مزہ کُچھ اور ہے روزہ سے بڑھ کر نہ رُوحانی غذا کُچھ اور ہے لوگ سمجھیں ہیں کہ روزوں سےہُوئے ہیں ہم نڈھال سچ اگر کہدیں جو پُوچھے پر، بِنا کُچھ اور ہے یُوں تو وقفہ کرکے کھالینے کی بھی کیا بات ہے بعد اِفطاری کے، روٹی کا نشہ کُچھ اور ہے اگلی مانگی کا ہمیں...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تُم ہو::::::Shafiq -Khalish

    غزل کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تم ہو مرے خُوب و بَد کے حوالوں میں تم ہو سبب، غیض وغم کے زوالوں میں تم ہو ہُوں کچھ خوش، کہ آسُودہ حالوں میں تم ہو مُقدّر پہ میرے تُمہی کو ہے سبقت خوشی غم کے دائم دلالوں میں تم ہو یُوں چاہت سے حیرت ہے حِصّہ لیے کُچھ فلک کے مُقدّس کمالوں میں تم ہو کہاں...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم::::::Shafiq Khalish

    غزل تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم مر کھپ چُکو بھی، ذات میں درد ِنہاں سے تم وابستہ اورہوگے غمِ بے کراں سے تم خود میں دبائے درد اور آہ وفُغاں سے تم آیا خیال جب بھی، مُسلسل ہی آیا ہے! کب کم رہے ہو یاد میں اِک کارواں سے تم جب ہٹ سکے نہ راہ سے، رستہ بدل چَلو کیونکر...
  5. طارق شاہ

    اُمیؔد فاضلی:::::ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے:::::Ummeed -Fazli

    غزل ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے رَگوں میں خُون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بَوجھ ہم اپنے شہر میں ہوتے، تو گھر گئے ہوتے نئے شعوُر کو جِن کا شِکار ہونا تھا وہ حادثے بھی ہَمَیں پر گُزر گئے ہوتے ہمی نے رَوک لِئے سر یہ تیشۂ اِلزام وگرنہ شہر میں کِس کِس کے سر...
  6. طارق شاہ

    فراق فراقؔ گورکھپُوری:::::نِگاہِ ناز نے پردے اُٹھائے ہیں کیا کیا:::::Firaq Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپوری نِگاہِ ناز نے پردے اُٹھائے ہیں کیا کیا حجاب اہلِ محبّت کو آئے ہیں کیا کیا جہاں میں تھی بس اِک افواہ تیرے جلوؤں کی چراغِ دیر و حَرَم جِھلِملائے ہیں کیا کیا نثار نرگسِ مے گُوں، کہ آج پیمانے! لبوں تک آتے ہُوئے تھر تھرائے ہیں کیا کیا کہیں چراغ، کہیں گُل، کہیں دِلِ برباد خِرامِ...
  7. طارق شاہ

    شہریار :::::بتاؤں کِس طرح احباب کو آنکھیں جو ایسی ہیں::::: Shahryar

    غزل بتاؤں کِس طرح احباب کو آنکھیں جو ایسی ہیں کہ کل پلکوں سے ٹُوٹی نیند کی کرچیں سمیٹی ہیں سفر مَیں نے سمندر کا کِیا کاغذ کی کشتی میں تماشائی نِگاہیں اِس لیے بیزار اِتنی ہیں خُدا میرے! عطا کرمجھ کو گویائی، کہ کہہ پاؤں زمِیں پر رات دِن جو باتیں ہوتی مَیں نے دیکھی ہے تُو اپنے فیصلے سے وقت! اب...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی :::::Shafiq Khalish

    غزل دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی تھا سبب کچھ، کہ جھانپتی تھی کوئی خواہشِ دِل جو بھانپتی تھی کوئی ڈر سے لغزِش کے کانپتی تھی کوئی دِل کی ہر بات پر مجھے اکثر تیز لہجے میں ڈانٹتی تھی کوئی لمبی چُٹیا کا شوق تھا اِتنا بال ہر روز ناپتی تھی کوئی یاد اُن آنکھوں سے میکشی بھی رہی جن کو ہاتھوں سے...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں:::::Shafiq Khalish

    غزل دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں اس پہ حاصل کمال بھی تو نہیں جس سے دِل اُس کا رام ہوجائے ہم میں ایسا کمال بھی تو نہیں خاطرِ ماہ و سال ہو کیونکر کوئی پُرسانِ حال بھی تو نہیں جس سے سجتے تھے خواب آنکھوں میں اب وہ دِل کا کمال بھی تو نہیں کیسے مایوسیاں نہ گھر کرلیں دِل کا وہ اِستِعمال بھی...
  10. طارق شاہ

    فراق فراق| گورکھپُوری:::::عِشق فُسردہ ہی رہا ،غم نے جَلا دِیا تو کیا:::::Firaq Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپُوری عِشق فُسردہ ہی رہا ،غم نے جَلا دِیا تو کیا سوزِ جِگر بڑھا تو کیا، دِل سے دُھواں اُٹھا تو کیا پھر بھی تو شبنمی ہے آنکھ، پھر بھی تو ہَونٹ خُشک ہیں زخمِ جِگر ہنسا تو کیا ، غُنچۂ دِل کِھلا تو کیا پھر بھی تو اہلِ غم تِرے، رازِ سُکوں نہ پا سکے! تُو نے نظر کی لَورِیاں دے کے سُلا...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے::::: Shafiq Khalish

    غزل حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے کبھی حاصل رہی قُربت سے ہم پِھر شاد بھی ہونگے ذرا بھی اِحتِمال اِس کا نہ تھا پردیس آنے تک! کہ دُوری سے تِری، ہم اِس قدر ناشاد بھی ہونگے بظاہر جو، نظر آئیں نہ ہم سے آشنا بالکل ضرُور اُن کو کئی قصّے پُرانے یاد بھی ہونگے شُبہ تک تھا نہیں ترکِ...
  12. طارق شاہ

    جوش ؐملیح آبادی:::::بہار آئی ہے کُچھ بے د،لی کا چارہ کریں:::::Josh Malihabadi

    غزل بہار آئی ہے کُچھ بے دِلی کا چارہ کریں چمن میں آؤ حریفو ! کہ اِستخارہ کریں شرابِ ناب کے قُلزُم میں غُسل فرمائیں کہ آبِ مُردۂ تسنِیم سے غرارہ کریں جُمود گاہِ یخ و زمہرِیر ہی میں رہیں کہ سیرِ دائرۂ شُعلہ و شرارہ کریں حِصارِ صومِعہ کے گِرد ، سعی فرمائیں کہ طوفِ کعبہ رِندِ شراب خوارہ...
  13. طارق شاہ

    محسن نقوی :::::: بَدن میں اُتریں تھکن کے سائے تو نیند آئے :::::: Mohsin Naqvi

    غزل بَدن میں اُتریں تھکن کے سائے تو نیند آئے یہ دِل، کہانی کوئی سُنائے تو نیند آئے بُجھی بُجھی رات کی ہتھیلی پہ مُسکرا کر! چراغِ وعدہ، کوئی جلائے تو نیند آئے ہَوا کی خواہش پہ کون آنکھیں اُجاڑتا ہے دِیے کی لَو خود سے تھر تھرائے تو نیند آئے تمام شب جاگتی خموشی نے اُس کو سوچا! وہ زیرِ لب گیت...
  14. طارق شاہ

    کلیم عاجز ::::::زخموں کے نئے پھول کھلانے کے لئے آ ::::: . Kalim Ahmed Ajiz

    غزل زخموں کے نئے پھول کِھلانے کے لئے آ پھر موسمِ گُل یاد دلانے کے لئے آ مستی لئے آنکھوں میں بکھیرے ہوئے زُلفیں آ، پھر مجھے دِیوانہ بنانے کے لئے آ اب لُطف اِسی میں ہے، مزا ہے تو اِسی میں! آ اے مِرے محبُوب! ستانے کے لئے آ آ، رکھ دَہَنِ زخم پہ، پِھر اُنگلیاں اپنی دِل بانسری تیری ہے،...
  15. طارق شاہ

    کفیل آزر ؔ ::::::تم سے راہ و رسم بڑھا کر دِیوانے کہلائیں کیوں ::::::kafeel aazar amrohvi

    غزل تم سے راہ و رسم بڑھا کر دِیوانے کہلائیں کیوں جن گلیوں میں پتّھر برسیں اُن گلیوں میں جائیں کیوں ویسے ہی تاریک بہت ہیں لمحے غم کی راتوں کے پھر میرے خوابوں میں یارو، وہ گیسو لہرائیں کیوں مجبوروں کی اِس بستی میں، کِس سے پُوچھیں، کون بتائے اپنا مُحلّہ بُھول گئی ہیں بے چاری لیلائیں کیوں...
  16. طارق شاہ

    درد خواجہ میر درد :::: سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے :::: Khwajah Meer Dard

    غزل سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے تھے سینکڑوں ہی نالے وابسطہ ایک دَم سے واقف یہاں کسی سے ہم ہیں نہ کوئی ہم سے یعنی کہ آگئے ہیں بہکے ہُوئے عَدم سے مَیں گو نہیں ازل سے، پر تا ابد ہُوں باقی میرا حدوث آخر جا ہی بِھڑا قدم سے گر چاہیے تو مِلیے اور چاہیے نہ مِلیے سب تُجھ سے ہو سکے ہے، مُمکن...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے:::::Shafiq Khalish

    غزل کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے وابستہ اِک اُمید نہ جانِ بہار سے بھاگ آئے دُور دیس ہم اپنے دِیار سے باقی نہ کچھ کسی پہ رہے اعتبار سے مطلق ہماری ذات پہ راغب ہی جو نہ ہوں! کیوں مانگتے ہیں ہم اُنھیں پروردگار سے خواہش ہماری کوئی بھی پُوری نہیں ہُوئی یہ تک کہ کاش مر بھی چُکیں ایک بار سے...
  18. طارق شاہ

    مجاز لکھنوی ::::::بس اِس تقصیر پر اپنے مقدّر میں ہے مرجانا :::::Majaz Lakhnawi

    (اسرارالحق مجازؔ) غزل بس اِس تقصیر پر اپنے مقدّر میں ہے مرجانا تبسّم کو تبسّم کیوں،نظر کو کیوں نظر جانا خِرد والوں سے حُسن و عِشق کی تنقید کیا ہوگی نہ افسونِ نِگہ سمجھا، نہ اندازِ نظر جانا مئے گُلفام بھی ہے، سازِ عشرت بھی ہے،ساقی بھی ! بہت مشکل ہے آشوبِ حقیقت سے گزر جانا غمِ دَوراں میں...
  19. طارق شاہ

    مجرُوح سُلطانپوری :::::: اہلِ طُوفاں! آؤ دِل والوں کا افسانہ کہیں :::::: Majrooh Sultanpuri

    غزل اہلِ طُوفاں! آؤ دِل والوں کا افسانہ کہیں موج کو گیسُو، بھنوَر کو چشمِ جانانہ کہیں دار پر چڑھ کر، لگا ئیں نعرۂ زُلفِ صَنم! سب، ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دِیوانہ کہیں یارِ نکتہ داں کدھر ہے، پھر چلیں اُس کے حضوُر زندگی کو دِل کہیں اور دِل کو نذرانہ کہیں تھامیں اُس بُت کی کلائی اور کہیں اُس کو...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: خاموش و درگزر کی مری عادتوں کے بعد:::::Shafiq Khalish

    غزل خاموش و درگزر کی مری عادتوں کے بعد نادم تو وہ ر ہے تھے دِیے تہمتوں کے بعد پہچان کچھ نِکھر سی گئی شدّتوں کے بعد کندن ہُوئے ہیں غم سے جُڑی حدّتوں کے بعد دستک ہُوئی یہ کیسی درِ در گزر پہ آج شعلہ سا ایک لپکا بڑی مُدّتوں کے بعد حیراں ہمارے صبر پہ احباب تک ہُوئے راس آئے درد وغم ہمیں جب شدّتوں...
Top