غزل
جو بادشاہ، پُرسِشِ حالِ گدا کرے
اُس پر کبھی زوال نہ آئے خُدا کرے
حاصِل اگر ہو وحدَتِ نَوعِ بَشر کا عِلم
تو پِھر عَدُوئے جاں سے بھی اِنساں وَفا کرے
میرا بُرا جو چاہ رہا ہے، بہر نَفَس
اللہ ہر لِحاظ سے، اُس کا بَھلا کرے
ہم ساکنانِ کُوئے خرابات کی طرح
یارب! کبھی فقِیہ بھی ترکِ رِیا کرے...
آس محمد محسن
غزل
مَیں ہُوں حیراں یہ سِلسِلہ کیا ہے
آئنہ مجھ میں ڈُھونڈھتا کیا ہے
خود سے بیتاب ہُوں نکلنے کو
کوئی بتلائے راستہ کیا ہے
میں حبابوں کو دیکھ کر سمجھا
اِبتدا کیا ہے، اِنتہا کیا ہے
میں ہُوں یکجا ،تو پھر مِرے اندر
ایک مُدّت سے ٹُوٹتا کیا ہے
خود ہی تنہائیوں میں چِلّاؤں
خود ہی...
غزل
اُداس کر کے دَرِیچے نئے مکانوں کے
سِتارے ڈُوب گئے سبز آسمانوں کے
گئی وہ شب، جو کبھی ختم ہی نہ ہوتی تھی
ہوائیں لے گئیں اَوراق داستانوں کے
ہر آن برق چمکتی ہے، دِل دھڑکتا ہے
مِری قمیص پہ تِنکے ہیں آشیانوں کے
تِرے سکُوت سے وہ راز بھی ہُوئے افشا
کہ جِن کو کان ترستے تھے راز دانوں کے
یہ بات...
غزل.
مُمکن ہے اِلتجا میں ہماری اثر نہ ہو
ایسا نہیں کہ اُس کو ہماری خبر نہ ہو
خاک ایسی زندگی پہ کہ جس میں وہ بُت، مِرے
خواب و خیال میں بھی اگر جلوہ گر نہ ہو
وہ حُسن ہے سوار کُچھ ایسا حواس پر!
خود سے توکیا، اب اوروں سے ذکرِ دِگر نہ ہو
ہو پیش رفت خاک، مُلاقات پر ہی جب!
کھٹکا رہے یہ دِل میں...
غزل
کُچھ تو ہوکر دُو بَدُو، کُچھ ڈرتے ڈرتے کہہ دِیا
دِل پہ جو گُذرا تھا ، ہم نے آگے اُس کے کہہ دِیا
باتوں باتوں میں جو ہم نے، دردِ دِل کا بھی کہا !
سُن کے بولا، تُو نے یہ کیا بکتے بکتے کہہ دِیا
اب کہیں کیا اُس سے ہمدم ! دِل لگاتے وقت آہ
تھا جو کُچھ کہنا، سو وہ تو ہم نے پہلے کہہ دِیا
چاہ...
مُلاقات
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اِس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بَکف سِتاروں
کے کارواں گھِر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب اِس کے سائے
میں اپنا سب نُور رَو گئے ہیں
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
مگر اِسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد...
غزل
قِصّے ہیں خموشی میں نِہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غَمِ دِل کے بَیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کُچھ بات، کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپئے جاں اور طرح کے
اے را ہروِ راہِ وفا ! دیکھ کے چلنا
اِس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جُدائی کا ، نہ ملنے کی تمنّا
دِل کو ہیں مِرے وہم و گُماں...
غزل
عبدالحلیم شرؔر
کیا سہل سمجھے ہو کہِیں دھبّا چھٹا نہ ہو
ظالم یہ میرا خُون ہے رنگِ حِنا نہ ہو
یا رب! مجھے ہے داغِ تمنّا بہت عزِیز
پہلوُ سے دِل جُدا ہو ،مگر یہ جُدا نہ ہو
راہیں نکالتا ہے یہی سوز و ساز کی !
پہلوُ میں دِل نہ ہو ،تو کوئی حوصلہ نہ ہو
تم اور وفا کرو، یہ نہ مانُوں گا میں کبھی...
غزل
اچھّا تمھارے شہر کا دستوُر ہو گیا
جِس کو گلے لگا لِیا ، وہ دُور ہو گیا
کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کے
دِیوانہ بے پڑھے لِکھے مشہوُر ہو گیا
محلوں میں ہم نے کتنے سِتارے سجا دیئے
لیکن زمِیں سے چاند بہت دُور ہو گیا
تنہائیوں نے توڑ دی ہم دونوں کی انا!
آئینہ بات کرنے پہ مجبوُر ہو گیا...
نظم
اللہ جمیلُ و یحبُ الجمال
(اللہ حَسِین ہے اور حُسن سے محبّت کرتا ہے)
خالقِ حُسنِ کائنات ہے وہ
خالقِ کُلِّ ممکنات ہے وہ
خالقِ کائناتِ حُسن ہی حُسن
اُس کی ذات و صِفات حُسن ہی حُسن
حُسن سے مُنکشف نمودِ خُدا
حُسن ہی حُسن ہے وجودِ خُدا
سر بَسر حُسنِ نُورِ ذات ہے وہ
صاحبِ مظہَرِ صِفات ہے وہ...
غزل
پرتَوِ ساغرِ صہبا کیا تھا
رات اِک حشر سا برپا کیا تھا
کیوں جوانی کی مجھے یاد آئی
میں نے اِک خواب سا دیکھا کیا تھا
حُسن کی آنکھ بھی نمناک ہُوئی
عِشق کو آپ نے سمجھا کیا تھا
عِشق نے آنکھ جُھکا لی، ورنہ
حُُسن اور حُسن کا پردا کیا تھا
کیوں مجازؔ آپ نے ساغر توڑا
آج یہ شہر میں چرچا...
غزل
راہ دُشوار جس قدر ہوگی
جُستُجو اور مُعتبر ہوگی
آدمی آدمی پہ ہنستا ہے
اور کیا ذِلَّتِ بشر ہوگی
پتّھروں پر بھی حرف آئے گا
جب کوئی شاخ بے ثمر ہوگی
جاگ کر بھی نہ لوگ جاگیں گے
زندگی خواب میں بسر ہوگی
حُسن بڑھ جائےگا تکلّم کا
جس قدر بات مُختصر ہوگی
اعجاز رحمانی
غزل
بے اعتناعی کی بڑھتی ہُوئی سی یہ تابی
کہیں نہ جھونک دے ہم کو بجنگِ اعصابی
گئی نظر سے نہ رُخ کی تِری وہ مہتابی
لیے ہُوں وصل کی دِل میں وہ اب بھی بیتابی
مَیں پُھول بن کے اگر بُت سے اِک لِپٹ بھی گیا
زیادہ دِن تو میّسر رہی نہ شادابی
مِری نمُود و نمائش ہے خاک ہی سے ، مگر
سکُھا کے خاک...
غزل
پردے میں ہر آواز کے شامِل تو وہی ہے
ہم لا کھ بدل جائیں، مگر دِل تو وہی ہے
موضوعِ سُخن ہے وہی افسانۂ شِیرِیں !
محِفل ہو کوئی، رَونَقِ محِفل تو وہی ہے
محسُوس جو ہوتا ہے، دِکھائی نہیں دیتا
دِل اور نظر میں حدِ فاصِل تو وہی ہے
ہر چند تِرے لُطف سے محرُوم نہیں ہم
لیکن دلِ بیتاب کی مُشکل تو وہی...
غزل
نہیں کہ پیار ، محبّت میں کاربند نہیں
بس اُس کی باتوں میں پہلے جو تھی وہ قند نہیں
نظر میں میری ہو خاطر سے کیوں گزند نہیں
خیال و فکر تک اُس کے ذرا بُلند نہیں
کب اپنے خواب و تمنّا میں کامیاب رہے
ہم ایک وہ جو کسی مد میں بہرہ مند نہیں
تمام زیور و پازیب ہم دِلا تو چکے!
ملال پِھر بھی ،کہ...
غزل
نشہ ہے، جہل ہے، شر ہے، اِجارہ داری ہے
ہماری جنگ، کئی مورچوں پہ جاری ہے
سَمیٹ رکّھا ہے جس نے تعیش دُنیا کے
سُکونِ دِل کا تو ، وہ شخص بھی بِھکاری ہے
یہ پُوچھنے کا تو حق ہے سب اہلِ خِدمت کو!
ہمارے دُکھ ہیں، خوشی کیوں نہیں ہماری ہے
اُس اِنتظار کا اب موت تو نہیں ہے جواز
جس اِنتظار میں، اِک...
راہ ِحق میں ہُوئے لڑکر ،کبھی مر کر لاکھوں
زندہ جاوید ہر اِک دیس کے گھر گھر لاکھوں
ہو محبّت کے خزانے میں کہاں کُچھ بھی کمی!
چاہے دامن لئےجاتے رہیں بھر بھر لاکھوں
کوچۂ یار کومیلے کا سماں دیتے ہیں
اِک جَھلک دِید کی خواہش لئے دِن بھر لاکھوں
کردے مرکوُز جہاں بَھر کی نِگاہیں خود پر
چاند پِھر...
شان الحق حقی
غزل
اثر نہ ہو، تو اُسی نطقِ بے اثر سے کہہ !
چُھپا نہ درد ِمحبّت ،جہان بَھر سے کہہ
جو کہہ چُکا ہے، تو اندازِ تازہ تر سے کہہ
خبرکی بات ہے اِک، گوشِ بے خبر سے کہہ
چَمَن چَمَن سے اُکھڑ کر رَہے گا پائے خِزاں
رَوِش رَوِش کو جتا دے، شجر شجر سے کہہ
بیانِ شَوق نہیں قِیل و...
غزل
اے خوفِ مرگ ! دِل میں جو اِنساں کے تُو رَہے
پِھر کُچھ ہَوس رہے، نہ کوئی آرزُو رَہے
فِتنہ رَہے، فساد رَہے، گُفتگُو رَہے
منظُور سب مجھے، جو مِرے گھر میں تُو رَہے
زُلفیں ہٹانی چہرۂ رنگیں سے کیا ضرُور
بہتر ہے مُشک کی گُلِ عارض میں بُو رَہے
اب تک تِرے سبب سے رَہے ہم بَلا نصیب
اب تابہ حشر گور...
جوؔش ملیح آبادی
مناظرِ سَحَر
کیا رُوح فزا جلوۂ رُخسارِ سَحر ہے
کشمیر دلِ زار ہے، فِردَوس نظر ہے
ہر پُھول کا چہرہ عَرَقِ حُسن سے تر ہے
ہر چیز میں اِک بات ہے، ہر شے میں اَثر ہے
ہر سمت بَھڑکتا ہے رُخِ حُور کا شُعلہ
ہر ذرّۂ ناچِیز میں ہے طُور کا شُعلہ
لرزِش وہ سِتاروں کی، وہ ذرّوں کا تبسّم...