غزل
چمن دہل گیا موسم پہ کچھ اثر بھی نہ تھا
کٹے وہ شاخ سے، جن کو شعورِ پر بھی نہ تھا
نمودِ ضُو کو ہی، گر زندگی کہا جائے !
تو بے چراغ تو بستی میں ایک گھر بھی نہ تھا
یہ قافلے تو یہیں منسلک ہُوئے ہم سے
چلے تھے موج میں، تو ایک ہمسفر بھی نہ تھا
سوادِ شہر سے ہم دشت میں بھی ہو آئے
سلامتی کا...
غزل
مقرّر کچھ نہ کچھ اِس میں رقیبوں کی بھی سازش ہے
وہ بے پروا الٰہی مجھ پہ کیوں گرمِ نوازش ہے
پے مشق ِتغافل آپ نے مخصُوص ٹھہرایا
ہمیں یہ بات بھی مُنجملۂ اسبابِ نازش ہے
مِٹا دے خود ہمیں گر شِکوۂ غم مِٹ نہیں سکتا
جفائے یار سے یہ آخری اپنی گزارش ہے
کہاں ممکن کسی کو باریابی اُن کی...
اب کہاں زمانے میں دُوسرا جواب اُن کا
فصلِ حُسن ہے اُن کی، موسمِ شباب اُن کا
اوج پر جمال اُن کا، جوش پر شباب اُن کا
عہدِ ماہتاب اُن کا، دَورِ آفتاب اُن کا
عرضِ شوق پر میری پہلے کُچھ عتاب اُن کا
خاص اِک ادا کے ساتھ اُف وہ پِھر حجاب اُن کا
رنگ و بُو کی دُنیا میں اب کہاں جواب اُن کا
عِشق...
پیدا ہوں حُسن ہی سے سب اجزائے زندگی
دھڑکیں دِلوں میں شوق و تمنائے زندگی
مشکل ہی میں پڑی رہے ہر جائے زندگی
جدوجہد میں ڈر ہے نہ کٹ جائے زندگی
پیری میں حل ہو خاک کہ طاقت نہیں رہی!
ٹھہرا نہ سہل مجھ پہ مُعمّائے زندگی
فرطِ خوشی کا جن سے کہ احساس دِل کو ہو
ایسے تمام چہرے ہیں گُلہائے زندگی
وہ حُسن...
غزل
فیصلہ کرلے اگر وہ پیش و پس ہوتا نہیں
اِلتجاؤں پر بھی میری ٹس سے مس ہوتا نہیں
ہے گِلہ سب سےحضُور اُن کے کئے ہر عرض پر!
کیوں مَیں دوزانوں مُقابل اِس برس ہوتا نہیں
یا الٰہی اپنی رحمت سے دِل اُس کا پھیر دے
لاکھ کوشش پر جو زیرِ دسترس ہوتا نہیں
کوئی تو، اُن کے تکبّر پر کہے اُن سے ذرا
ایسی...
عِشق کی دُھول میں جو اَٹ جائے
دو جہاں میں وہ جیسے بٹ جائے
ہو زباں کو بس ایک نام کا وِرد
یوں کسی کو نہ کوئی رٹ جا ئے
رات کب عافیت سے ٹلتی ہے
مُضطرب دِن جو ہم سے کٹ جائے
خوش خیالی کہَیں وہ ساتھ اپنا
ابرِ اُمِّید اب تو چَھٹ جائے
پائی مُدّت سے ہےنہ خیر و خبر
ذہنِ مرکوُز کُچھ تو بٹ جائے
تب...
ہستی کو تیرے پیار نے بادل بنادِیا
نظروں میں لیکن اوروں کی پاگل بنادِیا
اعزاز یہ ازل سے ہے تفوِیضِ وقت کہ
ہر یومِ نَو کو گُذرا ہُوا کل بنادِیا
اب تشنگی کا یُوں مجھے احساس تک نہ ہو
دِل ہی تمھاری چاہ کا چھاگل بنادِیا
جا حُسنِ پُرشباب پہ ٹھہرے وہیں نِگاہ !
نظروں کو شوقِ دِید نے ،آنچل بنادِیا...
اب کی چلی وطن میں ہَوا کِس طرف کی ہے
پھیلی نویدِ صُبحِ جزا کِس طرف کی ہے
ہو احتساب اگر تو بِلا امتیاز ہو!
مغرب کی گر نہیں تو وَبا کِس طرف کی ہے
محفِل عدُو کے گھر سی ہے غُربت کدہ پہ بھی !
نیّت ، اے جانِ بزم! بتا کِس طرف کی ہے
احساس و عقل سے جو تِری بالا تر ہے تو
"مٹّی اُڑا کے دیکھ ہَوا کِس...
غزل
کب تک نجات پائیں گے وہم و یقیں سے ہم
اُلجھے ہُوئے ہیں آج بھی دُنیا و دِیں سے ہم
یُوں بیٹھتے ہیں بزم میں خلوت گزِیں سے ہم
لے جائیں اپنے اشک بھی چُن کر زمِیں سے ہم
ہر روز اُن کے نام کے سَو پُھول کِھلتے ہیں
چُن کر قَفس میں لائے ہیں کلیاں کہیں سے ہم
جب تک تمھارے قدموں کی آہٹ نہیں سُنیں...
غزل
دُنیا کو تو حالات سے اُمّید بڑی تھی
پر چاہنے والوں کو جُدائی کی پڑی تھی
کِس جانِ گُلِستاں سے یہ ملِنے کی گھڑی تھی
خوشبوُ میں نہائی ہُوئی اِک شام کھڑی تھی
میں اُس سے ملی تھی کہ خُود اپنے سے مِلی تھی
وہ جیسے مِری ذات کی گُم گشتہ کڑی تھی
یُوں دیکھنا اُس کو کہ کوئی اور نہ دیکھے !
انعام تو...
غزل
اِک گُلِ تر بھی شَرر سے نِکلا
بسکہ ہر کام ہُنر سے نِکلا
میں تِرے بعد پھر اے گُم شدگی
خیمۂ گردِ سفر سے نکِلا
غم نِکلتا نہ کبھی سینے سے !
اِک محّبت کی نظر سے نِکلا
اے صفِ ابرِ رَواں! تیرے بعد
اِک گھنا سایہ شجر سے نِکلا
راستے میں کوئی دِیوار بھی تھی
وہ اِسی ڈر سے، نہ گھر سے نِکلا...
غزل
رقم کریں گے تِرا نام اِنتسابوں میں
کہ اِنتخابِ سُخن ہے یہ اِنتخابوں میں
مِری بَھری ہُوئی آنکھوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
کہ آسمان مُقیّد ہیں، اِن حبابوں میں
ہر آن دِل سے اُلجھتے ہیں دو جہان کے غم
گِھرا ہے ایک کبُوتر کئی عقابوں میں
ذرا سُنو تو سہی کان دھر کے نالۂ دِل
یہ داستاں نہ ملے گی...
غزل
یہ قول تِرا، یاد ہے اے ساقئ دَوراں !
انگوُر کے اِک بِیج میں سو میکدے پنہاں
انگڑائیاں صُبحوں کی سَرِ عارضِ تاباں
وہ کروَٹیں شاموں کی سرِ کاکُلِ پیچاں
اِن پُتلیوں میں جیسے ہرن مائلِ رَم ہوں
وحشت بھری آنکھیں ہیں کہ اِک دشتِ غزالاں
ہے دار و مدار اہلِ زمانہ کا تجھی پر
تُو قطبِ جہاں، کعبہ...
غزل
یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیِے
جلو میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیِے
چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دِل میں
نظر میں رقصِ بہاراں کی صُبح و شام لیِے
ہجومِ بادۂ و گُل میں ہجُومِ یاراں میں
کسی نِگاہ نے جُھک کر مِرے سلام لیِے
مہک مہک کے جگاتی رہی نسیمِ سَحر
لبوں پہ یارِ مسیحا نفس کا نام لیِے...
غزل
اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ، غفلت کرکے
آزمایا جو اُنھیں ، ضبطِ محبّت کرکے
دِل نے چھوڑا ہے، نہ چھوڑے تِرے مِلنے کا خیال
بارہا دیکھ لِیا ، ہم نے ملامت کرکے
دیکھنے آئے تھے وہ، اپنی محبّت کا اثر
کہنے کو یہ کہ، آئے ہیں عیادت کرنے
پستیِ حوصلۂ شوق کی اب ہے یہ صلاح
بیٹھ رہیے غَمِ ہجراں پہ قناعت...
غزل
سینہ خُوں سے بھرا ہُوا میرا
اُف یہ بدمست مے کدہ میرا
نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نارَسا میرا
عِشق کو مُنہ دِکھاؤں گا کیونکر
ہجر میں رنگ اُڑ گیا میرا
دلِ غم دِیدہ پر خُدا کی مار
سینہ آہوں سے چِھل گیا میرا
یاد کے تُند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جَل اُٹھا میرا
یادِ ماضی عذاب...
غزل
یہ سِتَم اور ، کہ ہم پُھول کہیں خاروں کو
اِس سے تو آگ ہی لگ جائے سمن زاروں کو
ہے عبث فکرِ تلافی تجھے، اے جانِ وفا !
دُھن ہے اب اور ہی کُچھ ،تیرے طلبگاروں کو
تنِ تنہا ہی گُذاری ہیں اندھیری راتیں
ہم نے گبھراکے، پُکارا نہ کبھی تاروں کو
ناگہاں پُھوٹ پڑےروشنیوں کے جھرنے
ایک جھونکا ہی اُڑا...
غزل
جب سب کے دِلوں میں گھر کرے تُو
پِھر کیوں ہَمَیں در بَدر کرے تُو
یہ حال ہے شام سے تو اے دِل!
مُشکِل ہے کہ اب سَحر کرے تُو
آنکھوں میں نِشان تک نہ چھوڑے
خوابوں کی طرح سفر کرے تُو
اِتنا بھی گُریز اہلِ دِل سے
کوئی نہ کرے، مگر کرے تُو
خوشبُو ہو ، کہ نغمہ ہو، کہ تارا
ہر ایک کو، نامہ بر...
غزل.
اِسم تبدیلی سے کیا ہوتا ہے
عیب کب اِس سے چھپا ہوتا ہے
اچھے اوصاف ہوں سب پر ظاہر
جُھوٹ بھی سب پہ کُھلا ہوتا ہے
بات بے بات ہو تقرار جہاں
جہل پہ جہل ڈٹا ہو تا ہے
باز گشت اپنی سماعت پہ گراں
دہنِ جاہل کا رَٹا ہوتا ہے
وہ بھی کیا شخص ہے محِفل میں، خلؔش !
مَیں ہی قابل ، پہ ڈٹا ہوتا ہے...
غزل
کیوں نہ سرسبز ہو ہماری غزل
خُونِ دِل سے لِکھی ہے ساری غزل
جتنی پیاری ہے تیری یاد مجھے!
لب پہ آتی ہے ویسی پیاری غزل
سالہا سال رنج کھینچے ہیں
مَیں نے شیشے میں جب اُتاری غزل
جب بھی غُربت میں دِل اُداس ہُوا
مَیں تِرے ساتھ ہُوں، پُکاری غزل
دَمِ تخلیق پچھلی راتوں کو
یُوں بھی ہوتی ہے مجھ پہ...