سکوں ہے، ملنے ملانے سے جان چھوٹ گئی
وبا چلی وہ، زمانے سے جان چھوٹ گئی
فراق و ہجر کے صدمے اٹھا رہے ہیں سبھی
سو اپنا حال بتانے سے جان چھوٹ گئی
ہو جس سے ملنا اسے حالِ دل سنا دینا
یوں دل کا درد لٹانے سے جان چھوٹ گئی
تعلقات نبھانے کو ملنا پڑتا تھا
تعلقات نبھانے سے جان چھوٹ گئی
میں جس سے ملتا تھا...
خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کی زمین میں ایک کاوش اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔امید ہے رائے سے آگاہ کریں گے۔
دو جہاں میں اس کی وقعت ہو گئی
ایک تجھ سے جس کو نسبت ہو گئی
بے خودی میں ایسی حالت ہو گئی
جو کہا تیری ہی مدحت ہو گئی
منکشف ہم پر حقیقت ہو گئی
جس کا تُو اس کی یہ خلقت ہو گئی
ہر...
ہو روئے حسیں کا جو پرستار کہاں جائے
اٹھ کر تری محفل سے اے یار کہاں جائے
تسکین دلِ زار کا سرمایہ تو ہے تو!
اب لے کے کوئی اپنا دلِ زار کہاں جائے
زاہد کے لیے باز ہے در بزمِ ہوس کا
لیکن یہ محبت کا گنہ گار کہاں جائے
جو دید کا مشتاق ہو پہنچے وہ سرِ بزم
ہو جس کو محبت تری درکار کہاں جائے
سنتا ہوں...
طویل بحر میں کی گئی ایک کوشش پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں،اس امید پر کہ شاید کوئی شعر احباب کو پسند آ جائے۔
اوڑھ لیں سب گلوں نے قبائیں نئی، کونپلوں پر عجب اک نکھار آ گیا
بلبلوں نے خوشی کے ترانے پڑھے،جب چمن میں وہ جانِ بہار آ گیا
اک گھڑی کو نظر آپ سے کیا لڑی،مجھ کو واللہ سدھ بدھ نہ کوئی رہی
لوگ...
ایک اور کاوش اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔امید ہے اپنی رائےسے آگاہ کریں گے۔
درد پیہم ہے کوئی ساعتِ راحت ہی نہیں
میرے ہونٹوں پہ مگر حرفِ شکایت ہی نہیں
کوئی خواہش نہیں دل میں کوئی حسرت ہی نہیں
زندگی ایسی کہ جینے کی ضرورت ہی نہیں
میں تجھے چاند جو کہتا ہوں تو سچ کہتا ہوں
بخدا یوں بھی...
خیر سے آج وہ آئے ہیں منانے کے لیے
آزمانے کے لیے ہو کہ بنانے کے لیے
کتنی مدت سے ہیں بے تاب خبر ہے کہ نہیں
ہاتھ میرے تمھیں آغوش میں لانے کے لیے
وضع داریِّ محبت کو نباہیں کب تک
دلِ بے تاب چلو ان کو منانے کے لیے
سرخیِ روئے حیادار نے خود بخشا ہے
اک نیا رنگ محبت کے فسانے کے لیے
ان کے کوچے میں بڑے...
شکوۂ جورِ یار کیا کرتے
دل کا ہم اعتبار کیا کرتے
جان دے دی کہ تھی رضائے دوست
موت کا انتظار کیا کرتے
چل دیے بے قرار ہو کے ادھر
ہوگئے بے قرار کیا کرتے
عشق کا کاروبار کر ہی چکے
اور ہم کاروبار کیا کرتے
یاد ہیں سب کرشمہ ہائے کرم
داغِ دل کا شمار کیا کرتے
اس کی رحمت نہ ساتھ اگر دیتی
لوگ روزِ شمار...
یہ اضطراب کا عالم کہاں سے آتا ہے؟
خوشی ہے جاتی کہاں، غم کہاں سے آتا ہے؟
سوال کرتی ہیں رو رو کہ مجھ سے یہ آنکھیں
کہ دل میں گریہ پیہم کہاں سے آتا ہے؟
گر اپنے خوں سے شگوفے کھلاتی ہیں شاخیں
تو زرد پتوں کا موسم کہاں سے آتا ہے؟
شجر جو خاک سے افلاک کو لپکتے ہیں
یہ خاک زادوں میں دم خم کہاں سے آتا ہے؟...
دن تو سب ہی گزر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
جان سے پیارے مر جاتے ہیں ، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
ان کا ملنا، ان سے بچھڑنا، یاروں کے اغیار کے طعنے
زخم تو سارے بھر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
ماضی کی ہر بزم سے ہم نے، مستقبل کے خواب سمیٹے
لیکن خواب بکھر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں...
غزل
اکبؔر الٰہ آبادی
دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں
سینے پہ نَفَس بار ہے، معلُوم نہیں کیوں
اِقرارِ وَفا یار نے ہر اِک سے کِیا ہے
مُجھ سے ہی بس اِنکار ہے، معلُوم نہیں کیوں
ہنگامۂ محشر کا تو مقصوُد ہے معلُوم
دہلی میں یہ دربار ہے، معلوم نہیں کیوں
جِس سے دِلِ رنجُور کو ،پہونچی ہے اذِیّت...
بہت عرصے سے ایک غزل ہماری پوٹلی میں پڑی ہوئی ہے۔آج ہمت کر کے پیش کر رہے ہیں۔تمام محفلین بالخصوص اساتذہ کی رائے کا انتظار رہے گا۔
لغو، بے ذائقہ، دل گیر بھی ہو سکتی ہے
زندگی جبر سے تعبیر بھی ہو سکتی ہے
ہو بھی سکتے ہیں کبھی شارحِ راحت آنسو
اور ہنسی درد کی تفسیر بھی ہو سکتی ہے
نقش بر آب بھی بن...
”پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے“
خداوندا ہلالِ نو مہِ کامل نہ بن جائے
وفائے دوست محرومِ شکیبائی نہ کر ڈالے
مسيحا جس کو بننا ہے، وہی قاتل نہ بن جائے
بڑی مشکل سے میں نے کائناتِ دل کو بدلا تھا
مگر یہ ہو کے محرومِ سکوں پھر دل نہ بن جائے
میں تیرے شوق کی قوت کا منکر تو نہیں لیکن
محبت کے...
اپنی جانب ان کی رفتارِ خراماں دیکھیے
ان کی جانب دل کے ہر ذرے کو رقصاں دیکھیے
خطہ خطہ پائیے دل کا ہلاکِ آرزو!
گوشہ گوشہ آرزو کا گل بداماں دیکھیے
سب سے چھپ کر دیکھیے، سب سے چھپا کر دیکھیے
یعنی وہ روئے حسیں تا حدِ امکاں دیکھیے
دیکھیے کیوں خارج از خود جلوۂ روئے حبیب
اپنی ہی لوحِ جبیں میں روئے...
سمجھتے ہیں مگر سمجھائیں یہ اسرار کیسے
کہ اپنے راستے ہونے لگے ہموار کیسے
جہاں مضبوط بیڑے بھی نہ بچ پائیں بھنور سے
شکستہ ناؤ کر جاتی ہے دریا پار کیسے
خبر کس کو کرشمہ ہے دوا کا یا دعا کا
دنوں میں دُور اپنے ہو گئے آزار کیسے
کبھی سرگوشیاں اندر کی سن پائیں تو جانیں
کہ آنکھیں دیکھ سکتی ہیں پسِ...
غزل
طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں
مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں
بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں
دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں
ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں
کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں
غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
غزل
(جلیلؔ مانک پوری)
اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے
یہ قفس یہ آشیانا اور ہے
موت کا آنا بھی دیکھا بارہا
پر کسی پر دل کا آنا اور ہے
ناز اٹھانے کو اٹھاتے ہیں سبھی
اپنے دل کا ناز اٹھانا اور ہے
درد دل سن کر تمہیں نیند آ چکی
بندہ پرور یہ فسانا اور ہے
رات بھر میں شمع محفل جل بجھی
عاشقوں کا...
آج تک کیسے گزاری ہے یہ اب پوچھتی ہے
رات ٹوٹے ہوئے تاروں کا سبب پوچھتی ہے
تو اگر چھوڑ کے جانے پہ تُلا ہے تو جا
جان بھی جسم سے جاتی ہے تو کب پوچھتی ہے
کل مرے سر پہ مرا تاج تھا تو سب تھے مرے
آج دنیا یہ مرا نام و نسب پوچھتی ہے
میں چراغوں کی لویں تھام کے سو جاتا ہوں
رات جب مجھ سے مرا حسنِ طلب...
کچھ ایسے نظر صاحبِ کردار بھی آئے
تعظیم کو جن کی در و دیوار بھی آئے
تاریکیِ شب نے مرا دامن نہیں چھوڑا
حالانکہ نظر صبح کے آثار بھی آئے
اے وعدہ فروشو! ہمیں حیرت سے نہ دیکھو
ہم اہلِ وفا تھے تو سرِ دار بھی آئے
ٹھہرے نہ کبھی تیشہ بدستوں کے مقابل
کہنے کو بہت راہ میں کہسار بھی آئے
ہر روز مرے جسم کو...
ہمارے دل میں جو آتش فشاں ہے
جہنم میں بھی وہ گرمی کہاں ہے
میں اپنی حد میں داخل ہو رہا ہوں
مرے قدموں کے نیچے آسماں ہے
بہت دن سے پڑی ہیں خشک آنکھیں
مگر سینے میں اک دریا رواں ہے
تھا جس کا ذکر کل تک چہرہ چہره
نہ اب وہ ہے نہ اس کی داستاں ہے
پناہیں لے رہے ہیں جس میں سورج
ہمارے سر پہ ایسا سائباں ہے...
یوں اپنی محبت کو پُر کیف بنانا ہے
اک بار خفا کرنا، سو بار منانا ہے
اسرارِ محبت کو اے دوست چھپانا ہے
ہے شوق بہت سادہ پُرکار زمانا ہے
جو داغِ گنہ سارے اک بار مٹا ڈالے
اے چشمِ ندامت اب وہ اشک بہانا ہے
جلووں کے تقاضے پر وہ عذرِ شباب ان کا
کیا خوب تقاضا تھا، کیا خوب بہانا ہے
افسانۂ غم ان کا کیا...