غزل

  1. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: آنکھوں سے اور دل سے خوشی چھین لی گئی

    آنکھوں سے اور دل سے خوشی چھین لی گئی ہم سے ہماری زندہ دلی، چھین لی گئی اک روز اتفاق سے ہم مسکرائے تھے اس کی سزا میں، ہم سے ہنسی چھین لی گئی اربابِ کم نظر بھی ہیں، جلووں سے فیض یاب دیدہ وروں سے، دیده وری چھین لی گئی کتنے چراغ نور سے محروم ہو گئے جب سے ہماری خوش نظری چھین لی گئی شکوه مرا مزاج،...
  2. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: کچھ ایسے زخم بھی ہم دل پہ کھائے بیٹھے ہیں

    کچھ ایسے زخم بھی ہم دل پہ کھائے بیٹھے ہیں جو چارہ سازوں کی زد سے بچائے بیٹھے ہیں نہ جانے کون سا آنسو کسی سے کیا کہہ دے ہم اس خیال سے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں نہ خوفِ بادِ مخالف، نہ انتظارِ سحر ہم اپنے گھر کے دیے خود بجھائے بیٹھے ہیں ہمارا ذوق جدا، وقت کا مزاج جدا ہم ایک گوشے میں خود کو چھپائے...
  3. محمد تابش صدیقی

    غزل: روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں : اقبال عظیم

    روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں پرسشِ حال کی فرصت تمھیں ممکن ہے نہ ہو پرسشِ حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں یوں سرِ راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر تم نے دیکھا بھی نہیں، ہم نے پکارا بھی نہیں عرضِ احوال کی عادت بھی نہیں ہے ہم کو اور حالات کا شاید یہ تقاضا...
  4. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: شکستِ ظرف کو پندارِ رندانہ نہیں کہتے

    شکستِ ظرف کو پندارِ رندانہ نہیں کہتے جو مانگے سے ملے ہم اس کو پیمانہ نہیں کہتے جہاں ساقی کے پائے ناز پر سجدہ ضروری ہو وہ بت خانہ ہے، اس کو رند میخانہ نہیں کہتے جنوں کی شرطِ اوّل ضبط ہے اور ضبط مشکل ہے جو دامن چاک کر لے اس کو دیوانہ نہیں کہتے جو ہو جائے کسی کا مستقل، بے شرکتِ غیرے وہ دل کعبہ...
  5. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: تم سے کس نے کہا، میں نے شکوہ کیا؟ خیر جس نے کہا اور جو بھی کہا، کہنے والا غلط فہم و نادان ہے

    تم سے کس نے کہا، میں نے شکوہ کیا؟ خیر جس نے کہا اور جو بھی کہا، کہنے والا غلط فہم و نادان ہے ہاں کبھی ازرہِ تذکرہ بے خیالی میں ضمناً کوئی بات کہہ دوں یونہی، وہ بھی احباب میں اس کا امکان ہے ہم جو بھولے سے بھی مسکرائے کبھی، ان کے ماتھے پہ بل پڑ گئے سینکڑوں، جیسے خوشیاں فقط ان کی میراث ہیں یوں...
  6. محمد تابش صدیقی

    غزل: سکوں ہے، ملنے ملانے سے جان چھوٹ گئی ٭ عثمان جامعی

    سکوں ہے، ملنے ملانے سے جان چھوٹ گئی وبا چلی وہ، زمانے سے جان چھوٹ گئی فراق و ہجر کے صدمے اٹھا رہے ہیں سبھی سو اپنا حال بتانے سے جان چھوٹ گئی ہو جس سے ملنا اسے حالِ دل سنا دینا یوں دل کا درد لٹانے سے جان چھوٹ گئی تعلقات نبھانے کو ملنا پڑتا تھا تعلقات نبھانے سے جان چھوٹ گئی میں جس سے ملتا تھا...
  7. عاطف ملک

    دو جہاں میں اس کی وقعت ہو گئی

    خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کی زمین میں ایک کاوش اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔امید ہے رائے سے آگاہ کریں گے۔ دو جہاں میں اس کی وقعت ہو گئی ایک تجھ سے جس کو نسبت ہو گئی بے خودی میں ایسی حالت ہو گئی جو کہا تیری ہی مدحت ہو گئی منکشف ہم پر حقیقت ہو گئی جس کا تُو اس کی یہ خلقت ہو گئی ہر...
  8. محمد تابش صدیقی

    غزل: ہو روئے حسیں کا جو پرستار کہاں جائے ٭ نصر اللہ خان عزیزؔ

    ہو روئے حسیں کا جو پرستار کہاں جائے اٹھ کر تری محفل سے اے یار کہاں جائے تسکین دلِ زار کا سرمایہ تو ہے تو! اب لے کے کوئی اپنا دلِ زار کہاں جائے زاہد کے لیے باز ہے در بزمِ ہوس کا لیکن یہ محبت کا گنہ گار کہاں جائے جو دید کا مشتاق ہو پہنچے وہ سرِ بزم ہو جس کو محبت تری درکار کہاں جائے سنتا ہوں...
  9. عاطف ملک

    اوڑھ لیں سب گلوں نے قبائیں نئی، کونپلوں پر عجب اک نکھار آگیا

    طویل بحر میں کی گئی ایک کوشش پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں،اس امید پر کہ شاید کوئی شعر احباب کو پسند آ جائے۔ اوڑھ لیں سب گلوں نے قبائیں نئی، کونپلوں پر عجب اک نکھار آ گیا بلبلوں نے خوشی کے ترانے پڑھے،جب چمن میں وہ جانِ بہار آ گیا اک گھڑی کو نظر آپ سے کیا لڑی،مجھ کو واللہ سدھ بدھ نہ کوئی رہی لوگ...
  10. عاطف ملک

    درد پیہم ہے کوئی ساعتِ راحت ہی نہیں

    ایک اور کاوش اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔امید ہے اپنی رائےسے آگاہ کریں گے۔ درد پیہم ہے کوئی ساعتِ راحت ہی نہیں میرے ہونٹوں پہ مگر حرفِ شکایت ہی نہیں کوئی خواہش نہیں دل میں کوئی حسرت ہی نہیں زندگی ایسی کہ جینے کی ضرورت ہی نہیں میں تجھے چاند جو کہتا ہوں تو سچ کہتا ہوں بخدا یوں بھی...
  11. محمد تابش صدیقی

    غزل: خیر سے آج وہ آئے ہیں منانے کے لیے ٭ نصر اللہ خان عزیزؔ

    خیر سے آج وہ آئے ہیں منانے کے لیے آزمانے کے لیے ہو کہ بنانے کے لیے کتنی مدت سے ہیں بے تاب خبر ہے کہ نہیں ہاتھ میرے تمھیں آغوش میں لانے کے لیے وضع داریِّ محبت کو نباہیں کب تک دلِ بے تاب چلو ان کو منانے کے لیے سرخیِ روئے حیادار نے خود بخشا ہے اک نیا رنگ محبت کے فسانے کے لیے ان کے کوچے میں بڑے...
  12. محمد تابش صدیقی

    غزل: شکوۂ جورِ یار کیا کرتے ٭ نصر اللہ خان عزیزؔ

    شکوۂ جورِ یار کیا کرتے دل کا ہم اعتبار کیا کرتے جان دے دی کہ تھی رضائے دوست موت کا انتظار کیا کرتے چل دیے بے قرار ہو کے ادھر ہوگئے بے قرار کیا کرتے عشق کا کاروبار کر ہی چکے اور ہم کاروبار کیا کرتے یاد ہیں سب کرشمہ ہائے کرم داغِ دل کا شمار کیا کرتے اس کی رحمت نہ ساتھ اگر دیتی لوگ روزِ شمار...
  13. محمد تابش صدیقی

    غزل: یہ اضطراب کا عالم کہاں سے آتا ہے؟ ٭ احمد حاطب صدیقی

    یہ اضطراب کا عالم کہاں سے آتا ہے؟ خوشی ہے جاتی کہاں، غم کہاں سے آتا ہے؟ سوال کرتی ہیں رو رو کہ مجھ سے یہ آنکھیں کہ دل میں گریہ پیہم کہاں سے آتا ہے؟ گر اپنے خوں سے شگوفے کھلاتی ہیں شاخیں تو زرد پتوں کا موسم کہاں سے آتا ہے؟ شجر جو خاک سے افلاک کو لپکتے ہیں یہ خاک زادوں میں دم خم کہاں سے آتا ہے؟...
  14. محمد تابش صدیقی

    غزل: دن تو سب ہی گزر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں ٭ احمد حاطب صدیقی

    دن تو سب ہی گزر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں جان سے پیارے مر جاتے ہیں ، یادیں باقی رہ جاتی ہیں ان کا ملنا، ان سے بچھڑنا، یاروں کے اغیار کے طعنے زخم تو سارے بھر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں ماضی کی ہر بزم سے ہم نے، مستقبل کے خواب سمیٹے لیکن خواب بکھر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں...
  15. طارق شاہ

    اکبر الہ آبادی :::::دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں::::::::::Akbar -Allahabadi

    غزل اکبؔر الٰہ آبادی دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں سینے پہ نَفَس بار ہے، معلُوم نہیں کیوں اِقرارِ وَفا یار نے ہر اِک سے کِیا ہے مُجھ سے ہی بس اِنکار ہے، معلُوم نہیں کیوں ہنگامۂ محشر کا تو مقصوُد ہے معلُوم دہلی میں یہ دربار ہے، معلوم نہیں کیوں جِس سے دِلِ رنجُور کو ،پہونچی ہے اذِیّت...
  16. عاطف ملک

    لغو، بے ذائقہ، دل گیر بھی ہو سکتی ہے

    بہت عرصے سے ایک غزل ہماری پوٹلی میں پڑی ہوئی ہے۔آج ہمت کر کے پیش کر رہے ہیں۔تمام محفلین بالخصوص اساتذہ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ لغو، بے ذائقہ، دل گیر بھی ہو سکتی ہے زندگی جبر سے تعبیر بھی ہو سکتی ہے ہو بھی سکتے ہیں کبھی شارحِ راحت آنسو اور ہنسی درد کی تفسیر بھی ہو سکتی ہے نقش بر آب بھی بن...
  17. محمد تابش صدیقی

    غزل: خداوندا ہلالِ نو مہِ کامل نہ بن جائے ٭ نصر اللہ خان عزیزؔ

    ”پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے“ خداوندا ہلالِ نو مہِ کامل نہ بن جائے وفائے دوست محرومِ شکیبائی نہ کر ڈالے مسيحا جس کو بننا ہے، وہی قاتل نہ بن جائے بڑی مشکل سے میں نے کائناتِ دل کو بدلا تھا مگر یہ ہو کے محرومِ سکوں پھر دل نہ بن جائے میں تیرے شوق کی قوت کا منکر تو نہیں لیکن محبت کے...
  18. محمد تابش صدیقی

    غزل: اپنی جانب ان کی رفتارِ خراماں دیکھیے ٭ نصر اللہ خان عزیزؔ

    اپنی جانب ان کی رفتارِ خراماں دیکھیے ان کی جانب دل کے ہر ذرے کو رقصاں دیکھیے خطہ خطہ پائیے دل کا ہلاکِ آرزو! گوشہ گوشہ آرزو کا گل بداماں دیکھیے سب سے چھپ کر دیکھیے، سب سے چھپا کر دیکھیے یعنی وہ روئے حسیں تا حدِ امکاں دیکھیے دیکھیے کیوں خارج از خود جلوۂ روئے حبیب اپنی ہی لوحِ جبیں میں روئے...
  19. محمد تابش صدیقی

    غزل: سمجھتے ہیں مگر سمجھائیں یہ اسرار کیسے ٭ جلیل عالیؔ

    سمجھتے ہیں مگر سمجھائیں یہ اسرار کیسے کہ اپنے راستے ہونے لگے ہموار کیسے جہاں مضبوط بیڑے بھی نہ بچ پائیں بھنور سے شکستہ ناؤ کر جاتی ہے دریا پار کیسے خبر کس کو کرشمہ ہے دوا کا یا دعا کا دنوں میں دُور اپنے ہو گئے آزار کیسے کبھی سرگوشیاں اندر کی سن پائیں تو جانیں کہ آنکھیں دیکھ سکتی ہیں پسِ...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں:::::Shafiq-Khalish

    غزل طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
Top