محفل میں آنے جانے کے بہانے کے طور پر ایک کاوش محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔شاید ایک آدھ شعر کسی کو پسند آجائے۔بہتری کیلیے کوئی صلاح ہو تو ضرور دیجیے گا۔
اک حسن کی مورت کا اک دل ہے صنم خانہ
اتنی سی کہانی ہے اتنا سا ہے افسانہ
سب ہی سے تعلق ہے میرا تو رقیبانہ
ہر ایک ترا عاشق ہر اک ترا دیوانہ
ان مست...
اردو محفل کے رُکن اور شاعر ، اور ہمارے چھوٹے بھائی محمد حفیظ الرحمٰن کا ہپلا شعری مجموعہ ’’سردیوں کی دھوپ‘‘ جناب استادِ محترم اعجاز عبید صاحب نے آن لائن شائع کردیا ہے۔ پڑھ کر حفیظ کی شاعری اور اس پر ہمارے پیش لفظ پر اپنی قیمتی رائے سے ممنون فرمائیے۔
مفت اردو کتابیں: سردیوں کی دھوپ ۔۔۔ محمد...
ویسے تو آج کل مصروفیت کے باعث شعر کہنا کارِ دشوار ہے لیکن بقول مظفرؔ وارثی "کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن"،سو تقریباً زبردستی کی ایک کاوش پیش ہے۔احباب کی رائے کا منتظر۔
دل مرا اس سے اٹھ گیا ہوتا
کاش وہ شخص بے وفا ہوتا
لمحہ لمحہ خیال آتا ہے
یوں نہ ہوتا اگر تو کیا ہوتا
اس کے غم سے...
دوستوں سے ادھار لیتا ہوں
یوں مہینہ گذار لیتا ہوں
اِس غریبی میں اُس کو پانے کی
دل کی خواہش کو مار لیتا ہوں
جب مرے بس میں کُچھ نہیں رہتا
تب خدا کو پکار لیتا ہوں
پیار کے زہر میں بُجھے خنجر
روز دل میں اتار لیتا ہوں
آئے جس در سے بھی...
جانے کسی نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
میں بھی تجھے نہ سن سکا، تو بھی مجھے نہ سن سکا
تجھ سے ہوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں
کشتیوں والے بے خبر بڑھتے رہے بھنور کی سمت
اور میں چیختا رہا تیز ہوا کے شور میں
میری زبانِ آتشیں لَو تھی مرے چراغ کی
میرا چراغ چپ نہ...
شب کو یہ سلسلہ ہے برسوں سے
گھر کا گھر جاگتا ہے برسوں سے
جانے کیا ہے کہ اس ندی کے پار
اک دیا جل رہا ہے برسوں سے
چلنے والے رکے رہیں کب تک
راستہ بن رہا ہے برسوں سے
روز مل کر بھی کم نہیں ہوتا
دل میں وہ فاصلہ ہے برسوں سے
اب کے طرزِ تعلقات ہے اور
یوں تو وہ آشنا ہے برسوں سے
سوچ یہ ختم ہو نہ جائے...
مجھ سے ہٹ کر دیکھیے، مجھ کو بھلا کر دیکھیے
میری الفت کا فسوں کچھ دور جا کر دیکھیے
آئنے کے جھوٹ پر ہرگز نہ کیجیے اعتبار
اپنے جلووں کو مری خلوت میں آ کر دیکھیے
کیمیا تاثیر ہے یہ ذرّۂ ناچیز دل
گر کسی کی یاد میں اس کو مٹا کر دیکھیے
مرگِ کیفِ عشق ہے ہنگامۂ روزِ وصال
دردِ الفت کا مزا فرقت میں جا کر...
فکرِ منزل سے پرے، سود و زیاں سے آگے
وادیِ عشق ہے ”کیوں“ اور ”کہاں“ سے آگے
عشق کے در پہ ملی راحتِ ایمان و یقیں
عقل بڑھتی ہی نہ تھی وہم و گماں سے آگے
درگہِ حسن میں ٹوٹے ہوئے لفظوں پہ نہ جا
لطفِ اظہار ہے الفاظ و بیاں سے آگے
جس جگہ فکر کی پرواز بھی دم توڑ گئی
ہے ترےؐ علم کا فیضان وہاں سے آگے...
ہم کو چاند اور تاروں سے بڑھ کر، یہ منظر سہانے سہانے لگے
آنسوؤں سے ہو بھیگا ہوا جس کا چہرہ، وہی مسکرانے لگے
رات بھر ہم نے تیرے کھلے گیسوؤں میں تری چاند صورت کو ڈھونڈا
صبح کو تیرے جاتے ہی، ہر سو، تیرے خال و خد جگمگانے لگے
موسم گل جب آیا تو گلزار و صحرا کی ساری تمیز اٹھ گئی
خشک شاخوں سے ٹوٹے...
مری غزل میں اب نہ وہ غزال ہو، تو معذرت
شبیہ و عکس، نے کوئی مثال ہو، تو معذرت
کلامِ شوخ کا سبب تو اک نگاہِ شوخ تھی
دمِ سخن اب آنکھ میں ملال ہو، تو معذرت
وہی جمالِ ہم نشیں، رہا ہمیشہ دل نشیں
بس، اور کوئی صاحبِ جمال ہو ، تو معذرت
مرے خیال میں تو حُسن صرف اک خیال ہے
پہ حُسن کا کچھ اور ہی خیال ہو،...
موجودہ حالات کے تناظر میں ایک ڈاکٹر کا شکوہ:
اجر میں تجھ سے مانگتا ہی نہیں
پاس تیرے مری جزا ہی نہیں
جو حقیقت عیاں کرے تجھ پہ
کیا کوئی ایسا آئنہ ہی نہیں؟
تُو وہ نادان ہے جسے معلوم
آپ اپنا برا بھلا ہی نہیں
جس نے گُل کر دیے ہیں لاکھوں چراغ
ہے فریبِ نظر، بلا ہی نہیں؟
خوب طعنے دیے تھے کل جس نے...
غزل
شکیلؔ بدایونی
عبرت آموزِ محبّت، یُوں ہُوا جاتا ہے دِل
دیکھتی جاتی ہے دُنیا، ڈُوبتا جاتا ہے دِل
شاہدِ نظّارۂ عالَم ہُوا جاتا ہے دِل
آنکھ، جوکُچھ دیکھتی ہے، دیکھتا جاتا ہے دِل
حضرتِ ناصح! بَجا ترغیبِ خُود داری، مگر
اِس طَرِیقے سے کہِیں، قابُو میں آجاتا ہے دِل
حشر تک وہ اپنی دُنیا کو لئے...
کبھی مایوس پہ رحمت کی گھٹا ہو جانا
بہرِ عشّاق کبھی برق ادا ہو جانا
کبھی اظہارِ تنفّر کو جدا ہو جانا
کبھی افراطِ توجہ سے فدا ہو جانا
یہ تلوّن بھی عجب روح فزا ہے اے دوست!
کبھی بے پردہ، کبھی جانِ حیا ہو جانا
اس کی محرومیِ قسمت کا ہے کیا اندازہ
جس کی تقدیر میں ہو تجھ سے جدا ہو جانا
میری دانست...
وہ عربده جُو، معصوم ادا، قاتل بھی ہے اور قاتل بھی نہیں
دل اس کی ادائے سادہ کا بسمل بھی ہے اور بسمل بھی نہیں
وعدے پہ نہیں آتا سچ ہے، پر یاد تو اس کو آتی ہے
اس جانِ محبت کا وعده باطل بھی ہے اور باطل بھی نہیں
دیکھو تو ہر اک سے بیگانہ، سمجھو تو کسی کا دیوانہ
دل یار کی بزمِ عشرت میں شامل بھی ہے اور...
خوفِ غم آرزوئے راحت ہے
یہ محبت نہیں تجارت ہے
آرزوؤں کی اتنی کثرت ہے
زندگی کیا ہے اک مصیبت ہے
حسن کو عشق کی ضرورت ہے
یہ فسانہ نہیں حقیقت ہے
تیرے ہوتے ہوئے غمِ جاناں
اور کس چیز کی ضرورت ہے
کیا خوشی اس کو راس آئے گی
دل تو پروردۂ مصیبت ہے
دل پہ کیا کیا گزر گئی مت پوچھ
جی رہا ہوں یہی غنیمت ہے...
مورکھ اور بٹ مار ہے دنیا
جھوٹوں کا دربار ہے دنیا
ہار کو دنیا جیت کہے ہے
جواری کی سی ہار ہے دنیا
کون کسی کا غم کھاتا ہے
کہنے کو غم خوار ہے دنیا
لالچ سے من ہر لیتی ہے
مطلب کی ہشیار ہے دنیا
وقت پڑے تو کام نہ آئے
لکڑی کی تلوار ہے دنیا
پیتل سونا بن جاتی ہے
دھوکے کا بیوپار ہے دنیا
دل میں کپٹ اور...
شام گہری ہوجائےغم شمار پھر کرنا
اک دیا جلا لینا ذکر یار پھر کرنا
ڈوبتے ہوئے سورج کی اداس کرنوں سے
اک کسک چرا لینا دل فِگار پھر کرنا
بھیگتے دنوں میں گھر موم کے بنا لو تم
دھوپ کی تمازت کا انتظار پھر کرنا
سر پٹختی امیدوں کو گلے لگا لینا
رابطہ جو ٹوٹا ہے استوار پھر کرنا
واہموں کی لہروں پر...
غزل
کشور ناہیؔد
نہ کوئی ربط، بجُز خامشی و نفرت کے
مِلیں گے اب تو خلاصے یہی محبّت کے
مَیں قیدِ جِسم میں رُسوا، تُو قید میں میری
بَدن پہ داغ لیے قیدِ بے صعوبت کے
عجیب بات، گریباں پہ ہاتھ اُن کا ہے
جو، توشہ گیرِ تمنّا تھےحرفِ غیرت کے
بس اب تو حرفِ ندامت کو ثبتِ دائم دے
صَبا صفت تھے رسالے غَمِ...
شکیلؔ بدایونی
غزل
قُدرت کے حَسِیں نظاروں میں پُرکیف خزانے اور بھی ہیں
میخانہ اگر وِیراں ہے تو کیا، رِندوں کے ٹھکانے اور بھی ہیں
آغازِ جَفا کی تلخی سے، گھبرا نہ دِلِ آزار طَلَب!
یہ وقت، یہیں پہ ختم نہیں، کُچھ تلخ زمانے اور بھی ہیں
لمحاتِ حَسِینِ پُرسِشِ غم، محدُود نہیں تا شُکرِ کَرَم
بے لفظ...
غزل
اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں
پارسا کہنا پھر بھی زیب نہیں
ظاہر و باطن ایک رکھتا ہُوں
مَیں ریاکار و پُر فریب نہیں
ہُوں مَیں کچھ کچھ یہاں بھی شورِیدہ
راست کہنا کہاں پہ عیب نہیں
ہے تسلسل سے راہِ زیست گراں
کُچھ تنزل نہیں، نشیب نہیں
اُلجھنیں معرضِ وُجُود ہوں خود
کارفرما کُچھ اِس میں غیب نہیں...