غزل
میں اپنے غموں کا ازالہ دوں گا
کہ ہر بے کسے کو سنبھالا دوں گا
مرا رزق بھی عشق بھی چھن گیا
مگر سب کو حُب کا نوالہ دوں گا
کہا عشق نے زخم دے کر بہت
کرو صبر مرہم بھی اعلی دوں گا
صنم زندگانی تو تاریک ہی کر گیا
خدا! تم ہی کہہ دو اجالا دوں گا
قیامت میں پانے کو بخشش مری
میں تیرے ستم کا حوالہ دوں...