غزل

  1. محمد تابش صدیقی

    ماہر القادری غزل: خوفِ غم آرزوئے راحت ہے

    خوفِ غم آرزوئے راحت ہے یہ محبت نہیں تجارت ہے آرزوؤں کی اتنی کثرت ہے زندگی کیا ہے اک مصیبت ہے حسن کو عشق کی ضرورت ہے یہ فسانہ نہیں حقیقت ہے تیرے ہوتے ہوئے غمِ جاناں اور کس چیز کی ضرورت ہے کیا خوشی اس کو راس آئے گی دل تو پروردۂ مصیبت ہے دل پہ کیا کیا گزر گئی مت پوچھ جی رہا ہوں یہی غنیمت ہے...
  2. محمد تابش صدیقی

    ماہر القادری غزل: مورکھ اور بٹ مار ہے دنیا

    مورکھ اور بٹ مار ہے دنیا جھوٹوں کا دربار ہے دنیا ہار کو دنیا جیت کہے ہے جواری کی سی ہار ہے دنیا کون کسی کا غم کھاتا ہے کہنے کو غم خوار ہے دنیا لالچ سے من ہر لیتی ہے مطلب کی ہشیار ہے دنیا وقت پڑے تو کام نہ آئے لکڑی کی تلوار ہے دنیا پیتل سونا بن جاتی ہے دھوکے کا بیوپار ہے دنیا دل میں کپٹ اور...
  3. محمد تابش صدیقی

    غزل: شام گہری ہوجائےغم شمار پھر کرنا ٭ ڈاکٹر افتخار برنی

    شام گہری ہوجائےغم شمار پھر کرنا اک دیا جلا لینا ذکر یار پھر کرنا ڈوبتے ہوئے سورج کی اداس کرنوں سے اک کسک چرا لینا دل فِگار پھر کرنا بھیگتے دنوں میں گھر موم کے بنا لو تم دھوپ کی تمازت کا انتظار پھر کرنا سر پٹختی امیدوں کو گلے لگا لینا رابطہ جو ٹوٹا ہے استوار پھر کرنا واہموں کی لہروں پر...
  4. طارق شاہ

    کشور ناہؔید:::::نہ کوئی ربط، بجُز خامشی و نفرت کے:::::Kishwar -Naheed

    غزل کشور ناہیؔد نہ کوئی ربط، بجُز خامشی و نفرت کے مِلیں گے اب تو خلاصے یہی محبّت کے مَیں قیدِ جِسم میں رُسوا، تُو قید میں میری بَدن پہ داغ لیے قیدِ بے صعوبت کے عجیب بات، گریباں پہ ہاتھ اُن کا ہے جو، توشہ گیرِ تمنّا تھےحرفِ غیرت کے بس اب تو حرفِ ندامت کو ثبتِ دائم دے صَبا صفت تھے رسالے غَمِ...
  5. طارق شاہ

    شکیل بدایونی :::: قُدرت کے حَسِیں نظاروں میں پُرکیف خزانے اور بھی ہیں - Shakeel Badayuni

    شکیلؔ بدایونی غزل قُدرت کے حَسِیں نظاروں میں پُرکیف خزانے اور بھی ہیں میخانہ اگر وِیراں ہے تو کیا، رِندوں کے ٹھکانے اور بھی ہیں آغازِ جَفا کی تلخی سے، گھبرا نہ دِلِ آزار طَلَب! یہ وقت، یہیں پہ ختم نہیں، کُچھ تلخ زمانے اور بھی ہیں لمحاتِ حَسِینِ پُرسِشِ غم، محدُود نہیں تا شُکرِ کَرَم بے لفظ...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں:::::Shafiq-Khalish

    غزل اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں پارسا کہنا پھر بھی زیب نہیں ظاہر و باطن ایک رکھتا ہُوں مَیں ریاکار و پُر فریب نہیں ہُوں مَیں کچھ کچھ یہاں بھی شورِیدہ راست کہنا کہاں پہ عیب نہیں ہے تسلسل سے راہِ زیست گراں کُچھ تنزل نہیں، نشیب نہیں اُلجھنیں معرضِ وُجُود ہوں خود کارفرما کُچھ اِس میں غیب نہیں...
  7. طارق شاہ

    فراق گورکھپُوری:::: دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں ::::Firaq -Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپُوری دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں آج بھی آنکھ لگائے رسن و دار سے ہیں مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے...
  8. محمد تابش صدیقی

    ماہر القادری غزل: سفینہ میرا ساحل آشنا معلوم ہوتا ہے

    سفینہ میرا ساحل آشنا معلوم ہوتا ہے مجھے یہ بھی فریبِ ناخدا معلوم ہوتا ہے ترے غم کا جہاں تک سلسلہ معلوم ہوتا ہے وہیں تک میری ہستی کا پتا معلوم ہوتا ہے نہ پوچھ اے دوست! شامِ غم میں کیا معلوم ہوتا ہے مجھے ہر دم قضا کا سامنا معلوم ہوتا ہے بہ ہر لحظہ، بہ ہر ساعت سِوا معلوم ہوتا ہے تمہارا غم طبیعت...
  9. محمد تابش صدیقی

    غزل: چاک کرتے ہیں گریباں اس فراوانی سے ہم ٭ احمد جاوید

    چاک کرتے ہیں گریباں اس فراوانی سے ہم روز خلعت پاتے ہیں دربارِ عریانی سے ہم منتخب کرتے ہیں میدانِ شکست اپنے لیے خاک پر گرتے ہیں لیکن اوجِ سلطانی سے ہم ہم زمینِ قتل گہ پر چلتے ہیں سینے کے بل جادۂ شمشیر سر کرتے ہیں پیشانی سے ہم ہاں میاں دنیا کی چم خم خوب ہے اپنی جگہ اک ذرا گھبرا گئے ہیں...
  10. محمد تابش صدیقی

    شہزاد احمد غزل: پرانے دوستوں سے اب مروت چھوڑ دی ہم نے

    پرانے دوستوں سے اب مروت چھوڑ دی ہم نے معزز ہو گئے ہم بھی، شرافت چھوڑ دی ہم نے میسر آ چکی ہے سربلندی مڑ کے کیوں دیکھیں امامت مل گئی ہم کو تو امت چھوڑ دی ہم نے کسے معلوم کیا ہوگا مآل آئندہ نسلوں کا جواں ہو کر بزرگوں کی روایت چھوڑ دی ہم نے یہ ملک اپنا ہے اور اس ملک کی سرکار اپنی ہے ملی ہے نوکری...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے:::::Shafiq-Khalish

    غزل نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے ذرا سا دُور رہے، سب سے بات کی جائے کنارا کرتے تھے اکثر شُنِید و گُفت سے جو ترس رہے ہیں کہ اب کِس بات کی جائے وَبا میں ملِنے کی اتنی نہ آرزو ہو اُنھیں جو گفتگوئے ہمہ ممکنات کی جائے نہ جینا اچھا تھا اُن کا جو مر رہے ہیں یہاں اگر تمیزِ حیات و ممات کی...
  12. شاہ آتش

    برائے تنقید و اصلاح

    غزل میں اپنے غموں کا ازالہ دوں گا کہ ہر بے کسے کو سنبھالا دوں گا مرا رزق بھی عشق بھی چھن گیا مگر سب کو حُب کا نوالہ دوں گا کہا عشق نے زخم دے کر بہت کرو صبر مرہم بھی اعلی دوں گا صنم زندگانی تو تاریک ہی کر گیا خدا! تم ہی کہہ دو اجالا دوں گا قیامت میں پانے کو بخشش مری میں تیرے ستم کا حوالہ دوں...
  13. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: پرستش اس کی فطرت ہے، یہ دیوانہ نہ بدلے گا

    پرستش اس کی فطرت ہے، یہ دیوانہ نہ بدلے گا چراغوں کے بدل جانے سے پروانہ نہ بدلے گا بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں فقط ساقی بدل جانے سے میخانہ نہ بدلے گا جو ممکن ہو تو سچ مچ کے اجالے ڈھونڈ کر لاؤ چراغِ مضمحل کی ضو سے غم خانہ، نہ بدلے گا کمی ہے اس میں کرداروں کی، مقصد کی، تاثر کی فقط...
  14. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: درد بڑھ کر خود دوا ہو جائے تو ہم کیا کریں

    درد بڑھ کر خود دوا ہو جائے تو ہم کیا کریں چارہ گر ہم سے خفا ہو جائے تو ہم کیا کریں عین ممکن تھا کہ ہم بھی غم سے پا جاتے نجات دل مگر غم آشنا ہو جائے تو ہم کیا کریں ہم زباں سے کچھ کہیں تو آپ کا شکوہ بجا کوئی آنسو لب کشا ہو جائے تو ہم کیا کریں اپنی جانب سے تو کی ہم نے ہمیشہ احتیاط پھر بھی بھولے...
  15. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: بالاہتمام ظلم کی تجدید کی گئی

    بالاہتمام ظلم کی تجدید کی گئی اور ہم کو صبر و ضبط کی تاکید کی گئی اول تو بولنے کی اجازت نہ تھی ہمیں اور ہم نے کچھ کہا بھی تو تردید کی گئی انجامِ کار بات شکایات پر رکی پرسش اگرچہ ازرہِ تمہید کی گئی تجدیدِ التفات کی تجویز رد ہوئی ترکِ تعلقات کی تائید کی گئی اپنی زباں سے میں نے کبھی کچھ نہیں...
  16. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: خود فریبی کو، ستم ہے، آرزو کہتے ہیں لوگ

    خود فریبی کو، ستم ہے، آرزو کہتے ہیں لوگ شوقِ گمراہی کو ذوقِ جستجو کہتے ہیں لوگ زہر کے ہر گھونٹ کو دیتے ہیں خوش ذوقی کا نام خودسری کو لذتِ جام و سبو کہتے ہیں لوگ زخمِ دل پر ڈال دیتے ہیں مقدر کی نقاب چاکِ پیراہن کو اعجازِ رفو کہتے ہیں لوگ دیده و دانستہ دیتے ہیں نگاہوں کو فریب پھول کے چاکِ جگر...
  17. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: غم تو ہے لیکن غمِ پیہم نہیں ہے، کم سے کم

    غم تو ہے لیکن غمِ پیہم نہیں ہے، کم سے کم آنکھ شاید نم ہو، دامن نم نہیں ہے، کم سے کم زخمِ دل اپنی جگہ باقی ہے، یہ سچ ہے مگر زخمِ دل کو حاجتِ مرہم نہیں ہے، کم سے کم یہ نہیں کہتا کہ میں ہر رنج سے محفوظ ہوں لیکن اب مافات کا ماتم نہیں ہے، کم سے کم دل کا عالم آج بھی بے شک بہت مشکوک ہے جو کبھی پہلے...
  18. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل, بارہا ان سے نہ ملنے کی قسم کھاتا ہوں میں

    بارہا ان سے نہ ملنے کی قسم کھاتا ہوں میں اور پھر یہ بات قصداً بھول بھی جاتا ہوں میں ڈوبتے دیکھے ہیں ان آنکھوں سے اتنے آفتاب روشنی کے نام سے اب بھی لرز جاتا ہوں میں اتنی افسردہ دلی اللہ دشمن کو نہ دے لوگ ہنستے ہیں تو جی ہی جی میں شرماتا ہوں میں بے رخی کو ان کی سچ مچ بے رخی سمجھا کیا آج اپنی اس...
  19. سید عاطف علی

    احسان دانش غزل ۔کل رات کچھ عجیب سماں غم کدے میں تھا

    ایک غزل ۔احسان دانش۔ مجھے بہت پسند آئی ۔ کل رات کچھ عجیب سماں غم کدے میں تھا میں جس کو ڈھونڈھتا تھا مرے آئنے میں تھا جس کی نگاہ میں تھیں ستاروں کی منزلیں وہ میر کائنات اسی قافلے میں تھا رہ گیر سن رہے تھے یہ کس جشن‌ نو کا شور کل رات میرا ذکر یہ کس سلسلے میں تھا رقصاں تھے رند جیسے بھنور...
  20. محمد تابش صدیقی

    غزل: ٹھوکریں کھا کے اک زمانے تک ٭ نعیم صدیقیؒ

    ٹھوکریں کھا کے اک زمانے تک آ گیا تیرے آستانے تک عمر ساری قفس میں کاٹی ہے آج پہنچا ہوں آشیانے تک آہ یہ اپنا دردِ نامعلوم! جس سے بیگانہ تھے یگانے تک تا بہ مشہد پہنچ سکے دو چار رہ گئے لوگ بادہ خانے تک عزم کے کتنے قافلے چل کر رک گئے نت نئے بہانے تک زندگی اپنا ساتھ دے کہ نہ دے تیرگی کا حصار...
Top