غزل

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں:::::Shafiq-Khalish

    غزل اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں پارسا کہنا پھر بھی زیب نہیں ظاہر و باطن ایک رکھتا ہُوں مَیں ریاکار و پُر فریب نہیں ہُوں مَیں کچھ کچھ یہاں بھی شورِیدہ راست کہنا کہاں پہ عیب نہیں ہے تسلسل سے راہِ زیست گراں کُچھ تنزل نہیں، نشیب نہیں اُلجھنیں معرضِ وُجُود ہوں خود کارفرما کُچھ اِس میں غیب نہیں...
  2. طارق شاہ

    فراق گورکھپُوری:::: دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں ::::Firaq -Gorakhpuri

    غزل فراقؔ گورکھپُوری دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں آج بھی آنکھ لگائے رسن و دار سے ہیں مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے...
  3. محمد تابش صدیقی

    ماہر القادری غزل: سفینہ میرا ساحل آشنا معلوم ہوتا ہے

    سفینہ میرا ساحل آشنا معلوم ہوتا ہے مجھے یہ بھی فریبِ ناخدا معلوم ہوتا ہے ترے غم کا جہاں تک سلسلہ معلوم ہوتا ہے وہیں تک میری ہستی کا پتا معلوم ہوتا ہے نہ پوچھ اے دوست! شامِ غم میں کیا معلوم ہوتا ہے مجھے ہر دم قضا کا سامنا معلوم ہوتا ہے بہ ہر لحظہ، بہ ہر ساعت سِوا معلوم ہوتا ہے تمہارا غم طبیعت...
  4. محمد تابش صدیقی

    غزل: چاک کرتے ہیں گریباں اس فراوانی سے ہم ٭ احمد جاوید

    چاک کرتے ہیں گریباں اس فراوانی سے ہم روز خلعت پاتے ہیں دربارِ عریانی سے ہم منتخب کرتے ہیں میدانِ شکست اپنے لیے خاک پر گرتے ہیں لیکن اوجِ سلطانی سے ہم ہم زمینِ قتل گہ پر چلتے ہیں سینے کے بل جادۂ شمشیر سر کرتے ہیں پیشانی سے ہم ہاں میاں دنیا کی چم خم خوب ہے اپنی جگہ اک ذرا گھبرا گئے ہیں...
  5. محمد تابش صدیقی

    شہزاد احمد غزل: پرانے دوستوں سے اب مروت چھوڑ دی ہم نے

    پرانے دوستوں سے اب مروت چھوڑ دی ہم نے معزز ہو گئے ہم بھی، شرافت چھوڑ دی ہم نے میسر آ چکی ہے سربلندی مڑ کے کیوں دیکھیں امامت مل گئی ہم کو تو امت چھوڑ دی ہم نے کسے معلوم کیا ہوگا مآل آئندہ نسلوں کا جواں ہو کر بزرگوں کی روایت چھوڑ دی ہم نے یہ ملک اپنا ہے اور اس ملک کی سرکار اپنی ہے ملی ہے نوکری...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے:::::Shafiq-Khalish

    غزل نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے ذرا سا دُور رہے، سب سے بات کی جائے کنارا کرتے تھے اکثر شُنِید و گُفت سے جو ترس رہے ہیں کہ اب کِس بات کی جائے وَبا میں ملِنے کی اتنی نہ آرزو ہو اُنھیں جو گفتگوئے ہمہ ممکنات کی جائے نہ جینا اچھا تھا اُن کا جو مر رہے ہیں یہاں اگر تمیزِ حیات و ممات کی...
  7. شاہ آتش

    برائے تنقید و اصلاح

    غزل میں اپنے غموں کا ازالہ دوں گا کہ ہر بے کسے کو سنبھالا دوں گا مرا رزق بھی عشق بھی چھن گیا مگر سب کو حُب کا نوالہ دوں گا کہا عشق نے زخم دے کر بہت کرو صبر مرہم بھی اعلی دوں گا صنم زندگانی تو تاریک ہی کر گیا خدا! تم ہی کہہ دو اجالا دوں گا قیامت میں پانے کو بخشش مری میں تیرے ستم کا حوالہ دوں...
  8. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: پرستش اس کی فطرت ہے، یہ دیوانہ نہ بدلے گا

    پرستش اس کی فطرت ہے، یہ دیوانہ نہ بدلے گا چراغوں کے بدل جانے سے پروانہ نہ بدلے گا بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں فقط ساقی بدل جانے سے میخانہ نہ بدلے گا جو ممکن ہو تو سچ مچ کے اجالے ڈھونڈ کر لاؤ چراغِ مضمحل کی ضو سے غم خانہ، نہ بدلے گا کمی ہے اس میں کرداروں کی، مقصد کی، تاثر کی فقط...
  9. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: درد بڑھ کر خود دوا ہو جائے تو ہم کیا کریں

    درد بڑھ کر خود دوا ہو جائے تو ہم کیا کریں چارہ گر ہم سے خفا ہو جائے تو ہم کیا کریں عین ممکن تھا کہ ہم بھی غم سے پا جاتے نجات دل مگر غم آشنا ہو جائے تو ہم کیا کریں ہم زباں سے کچھ کہیں تو آپ کا شکوہ بجا کوئی آنسو لب کشا ہو جائے تو ہم کیا کریں اپنی جانب سے تو کی ہم نے ہمیشہ احتیاط پھر بھی بھولے...
  10. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: بالاہتمام ظلم کی تجدید کی گئی

    بالاہتمام ظلم کی تجدید کی گئی اور ہم کو صبر و ضبط کی تاکید کی گئی اول تو بولنے کی اجازت نہ تھی ہمیں اور ہم نے کچھ کہا بھی تو تردید کی گئی انجامِ کار بات شکایات پر رکی پرسش اگرچہ ازرہِ تمہید کی گئی تجدیدِ التفات کی تجویز رد ہوئی ترکِ تعلقات کی تائید کی گئی اپنی زباں سے میں نے کبھی کچھ نہیں...
  11. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: خود فریبی کو، ستم ہے، آرزو کہتے ہیں لوگ

    خود فریبی کو، ستم ہے، آرزو کہتے ہیں لوگ شوقِ گمراہی کو ذوقِ جستجو کہتے ہیں لوگ زہر کے ہر گھونٹ کو دیتے ہیں خوش ذوقی کا نام خودسری کو لذتِ جام و سبو کہتے ہیں لوگ زخمِ دل پر ڈال دیتے ہیں مقدر کی نقاب چاکِ پیراہن کو اعجازِ رفو کہتے ہیں لوگ دیده و دانستہ دیتے ہیں نگاہوں کو فریب پھول کے چاکِ جگر...
  12. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: غم تو ہے لیکن غمِ پیہم نہیں ہے، کم سے کم

    غم تو ہے لیکن غمِ پیہم نہیں ہے، کم سے کم آنکھ شاید نم ہو، دامن نم نہیں ہے، کم سے کم زخمِ دل اپنی جگہ باقی ہے، یہ سچ ہے مگر زخمِ دل کو حاجتِ مرہم نہیں ہے، کم سے کم یہ نہیں کہتا کہ میں ہر رنج سے محفوظ ہوں لیکن اب مافات کا ماتم نہیں ہے، کم سے کم دل کا عالم آج بھی بے شک بہت مشکوک ہے جو کبھی پہلے...
  13. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل, بارہا ان سے نہ ملنے کی قسم کھاتا ہوں میں

    بارہا ان سے نہ ملنے کی قسم کھاتا ہوں میں اور پھر یہ بات قصداً بھول بھی جاتا ہوں میں ڈوبتے دیکھے ہیں ان آنکھوں سے اتنے آفتاب روشنی کے نام سے اب بھی لرز جاتا ہوں میں اتنی افسردہ دلی اللہ دشمن کو نہ دے لوگ ہنستے ہیں تو جی ہی جی میں شرماتا ہوں میں بے رخی کو ان کی سچ مچ بے رخی سمجھا کیا آج اپنی اس...
  14. سید عاطف علی

    احسان دانش غزل ۔کل رات کچھ عجیب سماں غم کدے میں تھا

    ایک غزل ۔احسان دانش۔ مجھے بہت پسند آئی ۔ کل رات کچھ عجیب سماں غم کدے میں تھا میں جس کو ڈھونڈھتا تھا مرے آئنے میں تھا جس کی نگاہ میں تھیں ستاروں کی منزلیں وہ میر کائنات اسی قافلے میں تھا رہ گیر سن رہے تھے یہ کس جشن‌ نو کا شور کل رات میرا ذکر یہ کس سلسلے میں تھا رقصاں تھے رند جیسے بھنور...
  15. محمد تابش صدیقی

    غزل: ٹھوکریں کھا کے اک زمانے تک ٭ نعیم صدیقیؒ

    ٹھوکریں کھا کے اک زمانے تک آ گیا تیرے آستانے تک عمر ساری قفس میں کاٹی ہے آج پہنچا ہوں آشیانے تک آہ یہ اپنا دردِ نامعلوم! جس سے بیگانہ تھے یگانے تک تا بہ مشہد پہنچ سکے دو چار رہ گئے لوگ بادہ خانے تک عزم کے کتنے قافلے چل کر رک گئے نت نئے بہانے تک زندگی اپنا ساتھ دے کہ نہ دے تیرگی کا حصار...
  16. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: آنکھوں سے اور دل سے خوشی چھین لی گئی

    آنکھوں سے اور دل سے خوشی چھین لی گئی ہم سے ہماری زندہ دلی، چھین لی گئی اک روز اتفاق سے ہم مسکرائے تھے اس کی سزا میں، ہم سے ہنسی چھین لی گئی اربابِ کم نظر بھی ہیں، جلووں سے فیض یاب دیدہ وروں سے، دیده وری چھین لی گئی کتنے چراغ نور سے محروم ہو گئے جب سے ہماری خوش نظری چھین لی گئی شکوه مرا مزاج،...
  17. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: کچھ ایسے زخم بھی ہم دل پہ کھائے بیٹھے ہیں

    کچھ ایسے زخم بھی ہم دل پہ کھائے بیٹھے ہیں جو چارہ سازوں کی زد سے بچائے بیٹھے ہیں نہ جانے کون سا آنسو کسی سے کیا کہہ دے ہم اس خیال سے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں نہ خوفِ بادِ مخالف، نہ انتظارِ سحر ہم اپنے گھر کے دیے خود بجھائے بیٹھے ہیں ہمارا ذوق جدا، وقت کا مزاج جدا ہم ایک گوشے میں خود کو چھپائے...
  18. محمد تابش صدیقی

    غزل: روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں : اقبال عظیم

    روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں پرسشِ حال کی فرصت تمھیں ممکن ہے نہ ہو پرسشِ حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں یوں سرِ راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر تم نے دیکھا بھی نہیں، ہم نے پکارا بھی نہیں عرضِ احوال کی عادت بھی نہیں ہے ہم کو اور حالات کا شاید یہ تقاضا...
  19. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: شکستِ ظرف کو پندارِ رندانہ نہیں کہتے

    شکستِ ظرف کو پندارِ رندانہ نہیں کہتے جو مانگے سے ملے ہم اس کو پیمانہ نہیں کہتے جہاں ساقی کے پائے ناز پر سجدہ ضروری ہو وہ بت خانہ ہے، اس کو رند میخانہ نہیں کہتے جنوں کی شرطِ اوّل ضبط ہے اور ضبط مشکل ہے جو دامن چاک کر لے اس کو دیوانہ نہیں کہتے جو ہو جائے کسی کا مستقل، بے شرکتِ غیرے وہ دل کعبہ...
  20. محمد تابش صدیقی

    اقبال عظیم غزل: تم سے کس نے کہا، میں نے شکوہ کیا؟ خیر جس نے کہا اور جو بھی کہا، کہنے والا غلط فہم و نادان ہے

    تم سے کس نے کہا، میں نے شکوہ کیا؟ خیر جس نے کہا اور جو بھی کہا، کہنے والا غلط فہم و نادان ہے ہاں کبھی ازرہِ تذکرہ بے خیالی میں ضمناً کوئی بات کہہ دوں یونہی، وہ بھی احباب میں اس کا امکان ہے ہم جو بھولے سے بھی مسکرائے کبھی، ان کے ماتھے پہ بل پڑ گئے سینکڑوں، جیسے خوشیاں فقط ان کی میراث ہیں یوں...
Top