جون ایلیا

  1. لاریب مرزا

    جون ایلیا روح پیاسی کہاں سے آتی ہے۔۔

    روح پیاسی کہاں سے آتی ہے یہ اداسی کہاں سے آتی ہے ہے وہ یک سر سپردگی تو بھلا بد حواسی کہاں سے آتی ہے وہ ہم آغوش ہے تو پھر دل میں نا شناسی کہاں سے آتی ہے ایک زندانِ بے دلی اور شام یہ صبا سی کہاں سے آتی ہے تو ہے پہلو میں پھر تری خوشبو ہو کے باسی کہاں سے آتی ہے دل ہے شب سوختہ سو اے امید تو ندا...
  2. طارق شاہ

    جون ایلیا :::::: بند باہر سے، مِری ذات کا دَر ہے مُجھ میں :::::: Jon Elia

    غزل بند باہر سے، مِری ذات کا دَر ہے مُجھ میں میں نہیں خُود میں، یہ اِک عام خبر ہے مُجھ میں اِک عَجَب آمد و شُد ہے کہ، نہ ماضی ہے نہ حال جونؔ ! بَرپا کئی نسلوں کا سفر ہے مُجھ میں ہے مِری عُمر جو حیران تماشائی ہے ! اور اِک لمحہ ہے، جو زیر و زبر ہے مُجھ میں کیا ترستا ہُوں کہ، باہر کے کسی کام...
  3. لاریب مرزا

    جون ایلیا دوئی (نظم)

    بوئے خوش ہو، دمک رہی ہو تم رنگ ہو اور مہک رہی ہو تم بوئے خوش! خود کو روُبرو تو کرو رنگ! تم مجھ سے گفتگو تو کرو وقت ہے لمحہ لمحہ مہجوری چاہے تم میری ہم نشیں بھی ہو ہے تمہاری مہک میں حزنِ خیال جیسے تم ہو بھی اور نہیں بھی ہو میرے سینے میں چُبھ رہا ہے وجود اور دل میں سوال سا کچھ ہے...
  4. فلک شیر

    ایلیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایلین

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ایلیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایلین ٭٭٭٭٭٭٭٭ شاید پہلے آسمان کے آس پاس، بادلوں کے پرّوں کی اوٹ میں ایک چھوٹا جزیرہ ہے ، جہاں صرف دیوی دیوتا بستے ہیں۔ یہ دیوی دیوتا اس جزیرے میں سکون اور مسرت کے تمام لوازمات کے ساتھ مطمئن زندگی گزارتے ہیں ۔۔۔۔۔ انہیں ہر آزادی حاصل ہے ۔۔۔۔۔۔ ہاں ایک قید ہے، کہ...
  5. طارق شاہ

    جون ایلیا ::::: مسکنِ ماہ و سال چھوڑ گیا ::::: Jon Elia

    غزل مسکنِ ماہ و سال چھوڑ گیا دِل کو اُس کا خیال چھوڑ گیا تازہ دم جسم و جاں تھے فُرقت میں وصل، اُس کا نِڈھال چھوڑ گیا عہدِ ماضی جو تھا عجب پُرحال ! ایک وِیران حال چھوڑ گیا ژالہ باری کے مرحَلوں کا سفر قافلے، پائمال چھوڑ گیا دِل کو اب یہ بھی یاد ہو، کہ نہ ہو ! کون تھا، کیا ملال چھوڑ گیا...
  6. محمد تابش صدیقی

    جون ایلیا کے چند نعتیہ اشعار

    بتا رہی ہیں ضیائیں یہاں سے گزرے ہیں حضور کیا روشِ کہکشاں سے گزرے ہیں ہوئے ہیں آج وہ عنوانِ داستانِ جمال وگرنہ یوں تو ہر اِک داستاں سے گزرے ہیں ہر ایک بزم میں کہتے ہیں فخر سے جبریل حضور خاص مِرے آشیاں سے گزرے ہیں ہے مختصر یہی افسانہ شبِ معراج جہاں سے کوئی نہ گزرا وہاں سے گزرے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔...
  7. دل جان

    جون ایلیا میں نہ ٹہروں نہ جان تُو ٹہرے

    میں نہ ٹہروں نہ جان تُو ٹہرے کون لمحوں کے رُوبرو ٹہرے نہ گزرنے پہ زندگی گزری نہ ٹھہرنے پہ چار سُو ٹہرے ہے مری بزمِ بے دلی بھی عجیب دلِ پُر خوں جہاں سبو ٹہرے میں یہاں مدتوں میں آیا ہوں ایک ہنگامہ کُو بہ کُو ٹہرے محفلِ رخصتِ ہمیشہ ہے آؤ اک حشر ہا و ہو ٹہرے اک توجہ عجب ہے سمتوں میں کہ نہ بولوں...
  8. دل جان

    جون ایلیا ناکارہ

    کون آیا ہے؟ کوئی نہیں ہے، پاگل! تیز ہوا کے جھونکے سے دروازہ کھلا ہے..... اچھا! یوں ہے؟ بیکاری میں ذات کے زخموں کی سوزش کو اور بڑھانے.. تیز روی کی راہگزر سے.. محنت کوش اور کام کے دن کی.. دھول آئی ہے، دھوپ آئی ہے! جانے یہ کس دھیان میں تھا میں.. آتا تو ... اچھا.. کون آتا؟ کس کو آنا تھا، کون آتا....
  9. نیرنگ خیال

    جون ایلیا یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا

    یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا محبت زہر کھا کر آئی تھی کیا مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا شکستِ اعتمادِ ذات کے وقت قیامت آرہی تھی، آگئی کیا مجھے شکوہ نہیں بس پوچھنا ہے یہ تم ہنستی ہو، اپنی ہی ہنسی کیا ہمیں شکوہ نہیں، ایک دوسرے سے منانا چاہیے اس پر خوشی کیا پڑے ہیں...
  10. طارق شاہ

    انور شعُور ::::: دھوکہ کریں، فریب کریں یا دغا کریں ::::: Anwar Shaoor

    دھوکہ کریں، فریب کریں یا دغا کریں ہم کاش دُوسروں پہ نہ تُہمت دھرا کریں رکھّا کریں ہر ایک خطا اپنے دوش پر ہر جُرم اپنے فردِ عمَل میں لِکھا کریں احباب سب کے سب نہ سہی لائقِ وفا ایک آدھ با وفا سے تو وعدہ وفا کریں رُوٹھا کریں ضرُور، مگر اِس طرح نہیں اپنی کہا کریں نہ کسی کی سُنا کریں...
  11. طارق شاہ

    جون ایلیا ::::: جون ایلیا مر مِٹا ہُوں خیال پر اپنے ::::: Jon Elia

    جون ایلیا مر مِٹا ہُوں خیال پر اپنے وجد آتا ہے حال پر اپنے ابھی مت دِیجیو جواب، کہ میں جُھوم تو لوُں سوال پر اپنے عُمر بھر اپنی آرزُو کی ہے مر نہ جاؤں وصال پر اپنے اِک عطا ہے مِری ہوس نِگہی ناز کر خدّ و خال پر اپنے اپنا شوق ایک حیلہ ساز، سو اب شک ہے اُس کو جمال پر اپنے جانے اُس دَم، وہ...
  12. مومن مخلص

    جون ایلیا کے ایک غزل کے ایک مصرعہ کا مطلب ’خراباتیان خرد باختہ‘

    جون ایلیا صاحب کی ایک غزل ہے ’بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے۔۔۔‘ اس کا ایک مصرعہ ہے جو کچھ اس طرح ہے یہ خراباتیان خرد باختہ کیا برائے مہربانی کوئی مجھے بتا سکتا ہے اس کا مطلب کیا؟؟
  13. نظام الدین

    جون ایلیا کل ہی پر رکھو وفا کی باتیں

    کل ہی پر رکھو وفا کی باتیں میں آج بہت بجھا ہوا ہوں (جون ایلیا)
  14. نظام الدین

    جون ایلیا شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی

    شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں اک حسن بے مثال کی تمثیل کے لئے پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رہا ہوں میں اپنا مثالیہ مجھے اب تک نہ مل سکا ذروں کو آفتاب بناتا رہا ہوں میں کیا مل گیا ضمیر ہنر بیچ کر مجھے اتنا کہ صرف کام چلاتا رہا ہوں میں کل دوپہر عجیب سی اک بے...
  15. فاتح

    جون ایلیا زندانیانِ شام و سحر خیریت سے ہیں ۔ جون ایلیا

    زندانیانِ شام و سحر خیریت سے ہیں ہر لمحہ جی رہے ہیں مگر خیریت سے ہیں شہرِ یقیں میں اب کوئی دم خم نہیں رہا دشتِ گماں کے خاک بسر خیریت سے ہیں آخر ہے کون جو کسی پل کہہ سکے یہ بات اللہ اور تمام بشر خیریت سے ہیں ہے اپنے اپنے طور پہ ہر چیز اس گھڑی مژگانِ خشک و دامنِ تر خیریت سے ہیں اب فیصلوں کا کم...
  16. سید فصیح احمد

    جون ایلیا بے اثبات

    کس کو فرصت ہے کہ مجھ سے بحث کرے اور ثابت کرے کہ میرا وجود زندگی کے لیئے ضروری ہے
  17. سید فصیح احمد

    جون ایلیا اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے

    اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے اب کون زخم و زہر سے رکھے گا سلسلے جینے کی اب ہوس ہے ہمیں ہم تو مر گئے اب کیا کہوں کہ سارا محلہ ہے شرم سار میں ہوں عذاب میں کہ میرے زخم بھر گئے ہم نے بھی زندگی کو تماشہ بنا دیا اس سے گزر گئے کبھی خود سے گزر گئے
  18. سید فصیح احمد

    جون ایلیا کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں

    کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں جانے ہم خود میں کہ نا خود میں رہا کرتے ہیں اب تم شہر کے آداب سمجھ لو جانی جو مِلا ہی نہیں کرتے وہ مِلا کرتے ہیں جہلا علم کی تعظیم میں برباد گئے جہل کا عیش جو ہے وہ علما کرتے ہیں لمحے لمحے میں جیو جان اگر جینا ہے یعنی ہم حرصِ بقا کو بھی فنا کرتے ہیں جانے اس...
  19. نیرنگ خیال

    جون ایلیا بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے

    بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے یہ خراباتیانِ خردِ باختہ صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم بے خبر آئے...
  20. پ

    غزل ۔ شکوہ اول تو بے حساب کیا ۔ جون ایلیا

    شکوہ اول تو بے حساب کیا اور پھر بند ہی یہ باب کیا جانتے تھے بدی عوام جسے ہم نے اس سے بھی اجتناب کیا تھی کسی شخص کی تلاش مجھے میں نے خود کو ہی انتخاب کیا اک طرف میں ہوں اک طرف تم ہو جانے کس نے کسے خراب کیا آخر اب کس کی بات مانوں میں جو ملا اس نے لاجواب کیا یوں سمجھ تجھکو مضطرب پا کر میں نے اظہار...
Top