یارو! نگہ یار کو، یاروں سے گِلہ ہے
خونیں جگروں، سینہ فگاروں سے گِلہ ہے
جاں سے بھی گئے، بات بھی جاناں کی نہ سمجھی
جاناں کو بہت عشق کے ماروں سے گِلہ ہے
اب وصل ہو یا ہجر، نہ اب تک بسر آیا
اِک لمحہ، جسے لمحہ شماروں سے گِلہ ہے
اُڑتی ہے ہر اک شور کے سینے سے خموشی
صحراؤں کو پُرشور دیاروں سے گِلہ...
ہوکے غلطاں خوں میں، کوئی شہسوار آیا تو کیا
زخم خوردہ بےقراری کو، قرار آیا تو کیا
زندگی کی دھوپ میں مُرجھا گیا میرا شباب
اب بہار آئی تو کیا، ابرِ بہار آیا تو کیا
میرے تیور بُجھ گئے، میری نگاہیں جَل گئیں
اب کوئی آئینہ رُو، آئینہ دار آیا تو کیا
اب کہ جب جانانہ تم کو ہے سبھی پر اعتبار
اب تمہیں...
شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم مِلے تمہیں
تم سر بسر خوشی تھے مگر غم مِلے تمہیں
میں اپنے آپ میں نہ ملا اس کا غم نہیں
غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم مِلے تمہیں
ہے جو ہمارا ایک حساب اُس حساب سے
آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم مِلے تمہیں
تم کو جہان شوق و تمنا میں کیا ملا
ہم بھی ملے تو درہم و برہم مِلے تمہیں...
ناروا ہے سخن شکایت کا
وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
دشت میں شہر ہو گئے آباد
اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا
وقت ہے اور کوئی کام نہیں
بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا
بس اگر تذکرہ کروں تو کروں
کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا
مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا
اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا
اپنے...
کل جون ایلیا کا ایک مشاعرہ سن رہا ہے، یہ غزل بہت پسند آئی اور تلاش کے باوجود بھی نہ ملی تو شریکِ محفل کر رہا ہوں۔
اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں
ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں
میں اُسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں
وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں
کیا تکلف...
دل کا دیار خواب میں، دور تلک گزر رہا
پاؤں نہیں تھے درمیاں، آج بڑا سفر رہا
ہو نہ سکا کبھی ہمیں اپنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا، لوح خیال پر رہا
نقش گروں سے چاہیے، نقش و نگار کا حساب
رنگ کی بات مت کرو، رنگ بہت بکھر رہا
جانے گماں کی وہ گلی ایسی جگہ ہے کون سی
دیکھ رہے ہو تم کہ میں، پھر وہیں...
ہر خراش نفس ، لکھے جاؤں
بس لکھے جاؤں ، بس لکھے جاؤں
ہجر کی تیرگی میں روک کے سانس
روشنی کے برس لکھے جاؤں
ان بسی بستیوں کا سارا لکھا
ڈھول کے پیش و نظر پس لکھے جاؤں
مجھ ہوس ناک سے ہے شرط کہ میں
بے حسی کی ہوس لکھے جاؤں
ہے جہاں تک خیال کی پرواز
میں وہاں تک قفس لکھے جاؤں
ہیں خس و خار دید ،...
سرکار! اب جنوں کی ہے سرکار کچھ سنا
ہیں بند سارے شہر کے بازار کچھ سنا
شہر قلندراں کا ہوا ہے عجیب طور
سب ہیں جہاں پناہ سے بیزار کچھ سنا
مصروف کوئی کاتبِ غیبی ہے روز و شب
کیا ہے بھلا نوشتۂ دیوار کچھ سنا
آثار اب یہ ہیں کہ گریبان شاہ سے
الجھیں گے ہاتھ برسرِ دربار کچھ سنا
اہل ستم سے معرکہ آرا...
یہ کون لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہیں اور یہ قتل کرنے والے ہمیشہ مذہب کے قبیلے سے ہی کیوں اٹھتے ہیں؟
ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی اک دوسرے کو قتل نہیں کرتے۔۔۔ افلاطون اور دیمقراطیس کے گروہ کبھی اک دوسرے سے نہیں ٹکرائے، فارابی کے مکتبۂ خیال نے شیخ شہا ب کی خانقاہ کے مفکروں...
غزل
مستیء حال کبھی تھی ، کہ نہ تھی ، بھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی ، بھول گئے
یوں مجھے بھیج کے تنہا سر بازارِ فریب
کیا مرے دوست مری سادہ دلی بھول گئے
میں تو بے حس ہوں ، مجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں روشِ چارہ گری بھول گئے؟
اب میرے اشک محبت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ہی دامن...
گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے
اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے
ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی
جام ہوں گے چھلک گئے ہوں گے
وہ بھی اب ہم سے تھک گیا ہو گا
ہم بھی اب اس سے تھک گئے ہوں گے
شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے
کتنے ہی لوگ حرص شہرت میں
دار پر خود لٹک گئے ہوں گے
شکر ہے اس...
راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع
تو میری جانِ جاں سو مری جان الوداع
میں تیرے ساتھ بجھ نہ سکا حد گزر گئی
اے شمع! میں ہوں تجھ سے پشیمان الوداع
میں جا رہا ہوں اپنے بیابانِ حال میں
دامان الوداع! گریبان الوداع
اِک رودِ نا شناس میں ہے ڈوبنا مجھے
سو اے کنارِ رود ، بیابان الوداع
خود اپنی اک...
کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے
یہ تو آشوب ناک صورت ہے
انجمن میں یہ میری خاموشی
بُردباری نہیں ہے وحشت ہے
تجھ سے یہ گاہ گاہ کا شکوہ
جب تلک ہے بسا غنیمت ہے
خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
یہ اذیت بڑی اذیت ہے
لوگ مصروف جانتے ہیں مجھے
یاں میرا غم ہی میری فُرصت ہے
سنگ پیرائے تبسم میں
اس تکلف کی کیا...
میں اور خود سے تجھ کو چھپاؤں گا ، یعنی میں
لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھی کچھ نہیں
یہ شہرِ دارِ محتسب و مولوی ہی کیا
پیرِ مغان و رند و قلندر بھی کچھ نہیں
شیخِ حرم کو لقمے کی پروا ہے کیوں نہیں
مسجد بھی اس کی کچھ نہیں منبر بھی کچھ نہیں
مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دیار میں
شاید وہ جبر ہے کہ مقدر...
گہے وصال تھا جس سے تو گاہ فرقت تھی
وہ کوئی شخص نہیں تھا وہ ایک حالت تھی
وہ بات جس کا گلہ تک نہیں مجھے ‘ پر ہے
کہ میری چاہ نہیں تھی ‘ مری ضرورت تھی
وہ بیدلی کی ہوائیں چلیں کہ بھول گئے
کہ دل کے کون سے موسم کی کیا روایت تھی
نہ اعتبار‘ نہ وعدہ ‘ بس ایک رشتہء دید
میں اس سے روٹھ گیا تھا عجیب...
سامنے ہو کے دلنشیں ہوتا
تو بھی اے جانِ جاں یہیں ہوتا
تم بھی اکثر کہیں نہیں ہوتے
میں بھی اکثر کہیں نہیں ہوتا
زندگی اپنی جستجو ہے تری
تو جو ہے جان،تو کہیں ہوتا
دل سے بس ایک بات کہہ دیجیو
دل کا چاہا ہوا، نہیں ہوتا
تو قیامت کا بے مروت ہے
میں ترا ہمنشیں،نہیں ہوتا
بات کرتے ہیں سنگِ در کی سبھی...
عجب حالت ہماری ہو گئی ہے
یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے
سخن میرا اداسی ہے سرِ شام
جو خاموشی پہ طاری ہو گئی ہے
بہت ہی خوش ہے دل اپنے کیے پر
زمانے بھر میں خواری ہو گئی ہے
وہ نازک لب ہے اب جانے ہی والا
مری آواز بھاری ہو گئی ہے
دل اب دنیا پہ لعنت کر کہ اس کی
بہت خدمت گزاری ہو گئی ہے
یقیں...
آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو
پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو
وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ہم تو
اُڑتے جاتے ہیں دھُول کے مانند
آندھیوں پر سوار تھے ہم تو
ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو
شرم ہے اپنی بار باری کی...
لمحے کو بےوفا سمجھ لیجئے
جاودانی ادا سمجھ لیجئے
میری خاموشئ مسلسل کو
اِک مسلسل گِلہ سمجھ لیجئے
آپ سے میں نے جو کبھی نہ کہا
اُس کو میرا کہا سمجھ لیجئے
جس گلی میں بھی آپ رہتے ہوں
واں مجھے جا بہ جا سمجھ لیجئے
آپ آ جایئے قریب مرے
مجھ کو مجھ سے جُدا سمجھ لیجئے
جو نہ پہنچائے آپ تک مجھ کو
آپ...
دل پریشاں ہے، کیا کِیا جائے
عقل حیراں ہے، کیا کِیا جائے
شوقِ مشکل پسند اُن کا حُصول
سخت آساں ہے، کیا کِیا جائے
عشقِ خُوباں کے ساتھ ہی ہم میں
نازِ خُوباں ہے، کیا کِیا جائے
بےسبب ہی مری طبیعتِ غم
سب سے نالاں ہے، کیا کِیا جائے
باوجود اُن کی دلنوازی کے
دل گریزاں ہے، کیا کِیا جائے
میں تو...