بغداد
دُکھ ہیں کہ موجزن ہیں دلِ داغدار میں
مصرُوف پھر بھی ہیں ہَمہ تن روزگار میں
یہ آگ کی تپش، یہ دُھواں اور سیلِ خُوں
گولے برس رہے دمادم دیار میں
بغداد جل رہا ہے مگر سو رہے ہیں ہم
آتے ہیں نام ذہن میں کیا کیا شُمار میں
ہر پُھول سرخ ہے سرِ شاخِ شجر یہاں
ٹُوٹا ہے ایک حشر ہی اب کے بہار میں...
غزلِ
شفیق خلش
" ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے "
ٹھہرنا پل کو کہاں اختیارِ راہ میں ہے
نہیں ہے لُطف کا جس سے شُمار راہ میں ہے
دِیا ہے خود پہ جسے اختیار راہ میں ہے
کہاں کا وہم! یقیں ہے مجھے اجل کی طرح
وہ میں نے جس پہ کِیا اعتبار راہ میں ہے
زیاں مزِید نہ ہو وقت کا اے چارہ گرو !
جسے ہے دِل...
غزلِ
شفیق خلش
مِری ہی زندگی لے کر بُھلا دِیا مجھ کو
یہ کیسے پیار کا تم نے صِلہ دِیا مجھ کو
لِیا ہے دِل ہی فقط، حافظہ بھی لے لیتے
تمھاری یاد نے پھر سے رُلا دِیا مجھ کو
نہ کوئی شوق، نہ ارمان کوئی سینے میں
یہ غم کی آگ نے، کیسا بُجھا دِیا مجھ کو
بہار نو میں نئے غم کی آمد آمد ہے
تمھارے...
غزلِ
شفیق خلِش
جب گیا شوقِ نظارہ تِری زیبائی کا
کوئی مصرف ہی نہیں اب مِری بینائی کا
دِل سے جب مِٹ ہی گیا تیرا تصوّر جاناں
کچھ گِلہ بھی نہیں باقی رہا تنہائی کا
کی زباں بند، تو رکھّا ہے نظر پر پہرا !
دِل کو احساس ہے ہر دم تِری رُسوائی کا
ساتھ ہے یاس بھی لمحوں میں تِری قُربت کے
کُچھ عجب...
غزلِ
شفیق خلِش
گردشِ وقت میں کُچھ بھی نہ عجب بات ہُوئی
پو پَھٹے پر جو نہیں دُور مِری رات ہُوئی
طبْع پَل کو نہیں مائل بہ خرافات ہُوئی
گو کہ دِلچسپ اِسے کب نہ نئی بات ہُوئی
پاس رہتے ہُوئے یُوں ترکِ مُلاقات ہُوئی
ایک مُدّت سے کہاں ہم سے کوئی بات ہُوئی
سب ہی پُوچھیں کہ، بسرخوش تو تِرے سات...
غزلِ
شفیق خلش
جوشِ طلب میں حد سے گُزر جائیں کیا کریں
آتا نہیں وہ، ہم ہی اُدھر جائیں کیا کریں
مِلنے کی آس میں ہیں سمیٹےہُوئے وجُود
ایسا نہ ہو کہ ہم ہی بکھر جائیں کیا کریں
ہر سمت ہر گھڑی وہی یادوں کے سلسلے
الله! ہم سے سے لوگ کدھر جائیں کیا کریں
اور ایک رات اُس کی گلی میں گُزار دی
اب کون...
غزلِ
احمد فراز
وحشتِ دِل، طَلَبِ آبلہ پائی لے لے
مجھ سے یا رب! مِرے لفظوں کی کمائی لے لے
عقل ہر بار دِکھاتی تھی جلے ہاتھ اپنے
دل نے ہر بار کہا، آگ پرائی لے لے
میں تو اُس صُبحِ درَخشاں کو توَنگر جانُوں
جو مِرے شہر سے کشکولِ گدائی لے لے
تو غنی ہے مگر اِتنی ہیں شرائط تیری
وہ محبّت جو ہمَیں راس...
غزلِ
شفیق خلش
تِنکوں کا ڈُوبتوں کو سہارا بتائیں کیا
پیشِ نظر وہ روز نظارہ بتائیں کیا
جی کیوں اُٹھا ہے ہم سے کسی کا بتائیں کیا
پُوچھو نہ بار بار خُدارا بتائیں کیا
تڑپا کے رکھ دِیا ہمَیں دِیدار کے لئے
کیوں کر لِیا کسی نے کِنارا بتائیں کیا
روئے بہت ہیں باغ کے جُھولوں کو دیکھ کر
یاد آیا...
مِرزا یاس، یگانہ،چنگیزی
بخت بیدار اگر سِلسِلہ جُنباں ہو جائے
شام سے بڑھ کے سَحر دست و گریباں ہوجائے
پڑھ کے دو کلمے اگر کوئی مُسلماں ہوجائے
پھر تو حیوان بھی دو دن میں اِنساں ہو جائے
آگ میں ہو جسے جلنا تو وہ ہندُو بن جائے
خاک میں ہو جسے مِلنا وہ مُسلماں ہو جائے
دُشمن و دوست سے آباد...
غزلِ
احمد فراز
چند لمحوں کے لئے توُ نے مسیحائی کی
پھر وہی میں ہُوں، وہی عمر ہے تنہائی کی
کِس پہ گُزری نہ شب ہجر قیامت کی طرح
فرق اتنا ہے، کہ ہم نے سخن آرائی کی
اپنی بانہوں میں سِمٹ آئی ہے وہ قوسِ قزح
لوگ تصوِیر ہی کھینچا کیے انگڑائی کی
غیرتِ عِشق بَجا، طعنۂ یاراں تسلِیم
بات کرتے ہیں...
غزلِ
مِرزا یاس عظیم آبادی، یگانہ
ازل سے سخت جاں آمادۂ صد اِمتحاں آئے
عذابِ چند روزہ یا عذابِ جاوِداں آئے
کنْول روشن تو ہو دِل کا پیامِ ناگہاں آئے
بَلا سے شامتِ پروانۂ آتش بجاں آئے
قفس بردوش پھرتے ہیں خِزاں آبادِ عالم میں !
اسیرانِ ازل گھر چھوڑ جنگل میں کہاں آئے
بہارستانِ عبرت...
غزل
شفیق خلش
جُدا جو یاد سے اپنی مجھے ذرا نہ کرے
ملوُل میری طرح ہو کبھی خُدا نہ کرے
ہم اُن کے حُسن کے کب معترف نہیں، لیکن
غرُور، یُوں بھی کسی کو کبھی خُدا نہ کرے
تب اُن کی یاد سے دِل خُون چاند کر ڈالے
کبھی جو کام یہ مہکی ہُوئی ہَوا نہ کرے
لگایا یُوں غمِ فُرقت نے ہاتھ سینے سے
کوئی خیال...
یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کرجائیں!
شفیق خلش
یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کر جائیں
اپنے اِک تبسّم سے زخْم میرے بھرجائیں
ہو کوئی کرشمہ اب، جس کی مہربانی سے
ساتھ اپنے وہ ہولیں، یا ہم اُن کے گھرجائیں
دُور ہو سیاہی بھی وقت کی یہ لائی سی
اپنی خوش نوائی سے روشنی جو کرجائیں
روشنی مُدام...
غزلِ
شفیق خلش
دِل میں ہجرت کے نہیں آج تو کل ہوں گے خلش
زخم ہوں گے کبھی لمحے، کئی پَل ہوں گے خلش
بے اثر تیرے کِیے سارے عمل، ہوں گے خلش
جو نہیں آج، یہ اندیشہ ہے کل ہوں گے خلش
زندگی بھر کے لئے روگ سا بن جائیں گے!
گرنہ فوراّ ہی خوش اسلوبی سے حل ہوں گے خلش
کارگر اُن پہ عملِ راست بھی ہوگا...
غزلِ
شفیق خلش
مِری حیات پہ حق تجھ کو ہے صنم کِتنا
ہے دسترس میں خوشی کتنی اور الم کِتنا
دُھواں دُھواں سا مِرے جسم میں ہے دَم کِتنا
کروں گا پیرَہن اشکوں سے اپنے نم کِتنا
کبھی تو رحم بھی آئے مچلتے ارماں پر !
خیال و خواب میں رکھّوں تجھے صنم کِتنا
گلو خلاصی مِری ہو بھی پائے گی، کہ نہیں
رہے گا...
غزلِ
شفیق خلش
مجھ سے کیوں بدگُمان ہے پیارے
تجھ پہ صدقے یہ جان ہے پیارے
ہلکی لرزِش سے ٹُوٹ جاتا ہے
دِل وہ کچّا مکان ہے پیارے
میں ہی کیوں موردِ نِشانہ یہاں
مہرباں آسمان ہے پیارے
کب اِشارہ ہو سب اُلٹنے کا
مُنتظر پاسبان ہے پیارے
کیوں نہ جمہوریت یہاں پَھلتی
اِک عجب داستان ہے پیارے
چور...
غزلِ
شفیق خلش
اِس دِل کا خوُب رُوؤں پہ آنا نہیں گیا
یہ شوق اب بھی جی سے پُرانا نہیں گیا
میں دیکھتا ہُوں اب بھی گُلوں کو چمن میں روز
پُھولوں سے اپنے جی کو لُبھانا نہیں گیا
اب بھی طلَب ہے میری نِگاہوں کو حُسن کی
جینے کو زندگی سے بہانہ نہیں گیا
کیا کیا نہ کُچھ گزرتا گیا زندگی کے ساتھ
اِک...
غزل
عزیز لکھنوی
بتاؤں کیا، کہ میرے دِل میں کیا ہے
سِوا تیرے، تِری محفِل میں کیا ہے
یہاں بھی تجھ کو تنہا میں نے پایا
تُو ہی تُو ہے بھری محفِل میں کیا ہے
کسی کے بُجھتے دِل کی ہے نِشانی
چراغِ سرحدِ منزِل میں کیا ہے
بجُز نقشِ پشیمانیِ قاتِل !
نگاہِ حسرتِ بسمِل میں کیا ہے
جفاؤں کی بھی حد ہوتی...
غزل
شفیق خلش
میں نے فرطِ شوق میں دی تھی زباں جاتا رہا
ورنہ مِلنے کو کسی سے کب کہاں جاتا رہا
میں لبِ دم تھا غمِ فُرقت میں لاحق وہم سے
جی اُٹھا آنے پہ اُس کے، ہر گُماں جاتا رہا
وہ جو آئے جیسے آئیں زندگی کی رونقیں
'میری تنہا زندگی کا سب نشاں جاتا رہا'
شوق اب بھی جی کو ہیں لاحق وہی پہلے جو...
غزل
شفیق خلش
نہ دوست بن کے مِلے وہ ، نہ دشمنوں کی طرح
جُدا یہ ُدکھ بھی، مِلے اور سب دُکھوں کی طرح
یُوں اجنبی سی مُصیبت کبھی پڑی تو نہ تھی
سحر کی آس نہ جس میں وہ ظلمتوں کی طرح
نہ دل میں کام کی ہمّت، نہ اوج کی خواہش !
کٹے وہ حوصلے سارے مِرے پروں کی طرح
ستارے توڑ کے لانے کا کیا کہوں میں...