غزلِ
داغ دہلوی
گِلے مِلا ہے وہ مستِ شباب برسوں میں
ہُوا ہے دل کو سُرورِ شراب برسوں میں
خدا کرے کہ مزا نتظار کا نہ مِٹے
مِرے سوال کا وہ دیں جواب برسوں میں
بچیں گے حضرتِ زاہد کہیں بغیر پئے
ہمارے ہاتھ لگے ہیں جناب برسوں میں
حیا و شرم تمہاری گواہ ہے اِس کی
ہُوا ہے آج کوئی کامیاب برسوں میں...