غزل
شفیق خلؔش
چراغِ دِل تو ہو روشن، رَسد لہُو ہی سہی
' نہیں وصال میسّر تو آرزُو ہی سہی '
کوئی تو کام ہو ایسا کہ زندگی ہو حَسِیں
نہیں جو پیارمقدّر، توجُستجُو ہی سہی
یہی خیال لئے، ہم چمن میں جاتے ہیں !
وہ گل مِلے نہ مِلے اُس کے رنگ و بُو ہی سہی
عجیب بات ہے حاصِل وصال ہے نہ فِراق
جو تیرے...
غزل
شفیق خلؔش
رنجشوں کو دِل میں تم اپنے جگہ دینے لگے
غم ہی کیا کم تھے جو اَب یوں بھی سزا دینے لگے
خواہشیں دِل کی دبانےسے کہیں دبتی ہیں کیا
بُھول کرمیری وفاؤں کو جفا دینے لگے
یوں تمھاری یاد نے فُرقت کا عادی کردِیا
ہجرکےغم بھی بالآخر اب مزہ دینے لگے
کیا یہ تجدِیدِ محبّت ہی عِلاجِ دِل بھی...
غزل
بڑھی جو حد سے تو سارے طلِسم توڑ گئی
وہ خوش دِلی ، جو دِلوں کو دِلوں سے جوڑ گئی
ابد کی راہ پہ بے خواب دھڑکنوں کی دھمک
جو سو گئے اُنھیں بُجھتے جگوں میں چھوڑ گئی
یہ زندگی کی لگن ہے، کہ رتجگوں کی ترنگ !
جو جاگتے تھے اُنہی کو یہ دھن جھنجوڑ گئی
وہ ایک ٹیس، جسے تیرا نام یاد رہا
کبھی کبھی...
غزل
شفیق خلؔش
گو ضرُورت پر تِری ، دَر پر جہاں موجُود تھا
چاہنے والا کوئی، ہم سا کہاں موجُود تھا
دِل کی حالت تھی نہ پنہاں، کُچھ عیاں موجُود تھا
جَل بُجھے عرصہ ہُوئے پر بھی دُھواں موجُود تھا
کیا نہ کُچھ میری سہُولت کو ، وہاں موجُود تھا
دِل دَھڑَکنے کا سَبَب لیکن کہاں موجُود تھا...
غزل
اِک ہُنر تھا، کمال تھا ،کیا تھا
مجھ میں، تیرا جمال تھا ،کیا تھا
تیرے جانے پہ اب کے کُچھ نہ کہا
دِل میں ڈر تھا، ملال تھا، کیا تھا
برق نے مجھ کو کر دِیا روشن
تیرا عکسِ جمال تھا، کیا تھا
ہم تک آیا تو ، مہرِ لُطف و کَرَم
تیرا وقتِ زوال تھا، کیا تھا
جس نے تہہ سے مجھے اُچھال دِیا
ڈُوبنے کا...
غزل
قائؔم چاندپُوری
شب جو دِل بیقرار تھا، کیا تھا
اُس کا پِھر اِنتظار تھا، کیا تھا
چشم، در پر تھی صبح تک شاید !
کُچھ کسی سے قرار تھا، کیا تھا
مُدّتِ عُمر، جس کا نام ہے آہ !
برق تھی یا شرار تھا ،کیا تھا
دیکھ کر مجھ کو، جو بزم سے تُو اُٹھا !
کُچھ تجھے مجھ سے عار تھا ، کیا تھا
پِھر گئی وہ...
غزل
داؔغ دہلوی
دِل گیا اُس نے لِیا ہم کیا کریں
جانے والی چیز کا غم کیا کریں
ہم نے مرکر ہجر میں پائی شفا
ایسے اچّھوں کا وہ ماتم کیا کریں
اپنے ہی غم سے نہیں مِلتی نِجات !
اِس بِنا پر، فِکرِ عالَم کیا کریں
ایک ساغر پر ہے اپنی زندگی !
رفتہ رفتہ اِس سے بھی کم کیا کریں
کرچُکے سب اپنی اپنی...
غزل
۔
ہو حشر صُبح لازم اگر شام کو نہیں
تھا رحم دِل میں لوگوں کے، اب نام کو نہیں
شُرفا کی سرزَنِش ہو تو، سب لوگ پیش پیش
پُو چھیں بُرے عمل پہ بھی بدنام کو نہیں
غافل ہُوئے ہیں سب ہی حقوق العباد سے
رُحجانِ قوم ،کیا زبُوں انجام کو نہیں؟
تحرِیر اُن پہ کیسے ہو بارآور آپ کی
دَیں اہمیت ذرا بھی...
غزل
داغ دہلوی
کوئی پھرے نہ قول سے، بس فیصلہ ہُوا
بَوسہ ہمارا آج سے، دِل آپ کا ہُوا
اِس دِل لگی میں حال جو دِل کا ہُوا، ہُوا
کیا پُوچھتے ہیں آپ تجاہل سے کیا ہُوا
ماتم، ہمارے مرنے کا اُن کی بَلا کرے
اِتنا ہی کہہ کے چُھوٹ گئے وہ، بُرا ہُوا
وہ چھٹتی دیکھتے ہیں ہَوائی جو چرخ پر
کہتے ہیں مجھ...
غزل
کُچھ اِس سے بڑھ کےہوگا بَھلا کیا حَسِیں عِلاج
کرتے ہیں غم کا غم سے مِرے دِلنشیں عِلاج
پُر رحم دِل کے درد کا ہوگا نہیں عِلاج
رو رو کے پک رہے جو، ہو اُس کا کہِیں عِلاج
کِس کِس کی موت کا وہاں رونا رہے ، جہاں !
بالا زمِیں کے غم کا ہو زیرِ زمِیں عِلاج
انسانیت کا خون اُنہی سے ہے اب ہُوا...
غزل
داغ دہلوی
جَو سر میں زُلف کا سودا تھا ، سب نِکال دِیا
بَلا ہُوں میں بھی، کہ آئی بَلا کو ٹال دِیا
یقیں ہے ٹھوکریں کھاکھا کے کُچھ سنْبھل جائے
کہ اُس کی راہ میں، ہم نے تو دِل کو ڈال دیا
جہاں میں آئے تھے کیا رنج ہی اُٹھانے کو ؟
الٰہی تُو نے ہمَیں کِس بَلا میں ڈال دِیا
خُدا کرِیم ہے...
غزل
حسرؔت موہانی
شوق مُشتاقِ لقا صبر سے بیگانہ ہُوا
جب سے مشہوُر تِرے حُسن کا افسانہ ہُوا
ایک ہی کام تو یہ عِشق سے مَردانہ ہُوا
کہ ، تِرے شیوۂ ترکانہ کا دِیوانہ ہُوا
وصلِ جاناں، نہ ہُوا جان دِیئے پر بھی نصیب!
یعنی اُس جنسِ گرامی کا یہ بیعانہ ہُوا
بزمِ ساقی میں ہُوئے سب یونہی سیرابِ...
غزل
کب کہاں ہوتا نہیں اِنساں ،جہاں میں عام و خاص
جو حقیقت میں نہیں، تو ہے گُماں میں عام و خاص
وہ بھی منظر دیکھنے کا تھا ، گلی اور دِید کا
خاک پر بیٹھے رہے اکثر جہاں، میں، عام و خاص
ایک مُدّت تک رہا یہ شور ، وہ آنے کو ہیں
ایک مدّت، منتظر تھے سب وہاں ، میں، عام و خاص
ڈر بَھلا کب ذہن میں خدشے...
غزل
پیارے پاگل سے واسطہ سا لگے
پیار جس کو یہ، حادثہ سا لگے
ضبط ِغم ہی کا یہ صِلہ سا لگے
مُنہ میں اشکوں کا ذائقہ سا لگے
بدشگونی کا سلسلہ سا لگے
کچھ بھی کہیے، اُنھیں گِلہ سا لگے
جب بھی ناراضگی کا غلبہ ہو
دو قدم اُن کو فاصلہ سا لگے
راز وہ خاک راز رکھیں گے!
ہرعمل جن کا ، ناطقہ سا لگے
اب...
غزل
حسرؔت موہانی
چُپ ہیں کیوں آپ، مِرے غم سے جو دِلگیر نہیں
اب نہ کہیے گا، تِری آہ میں تاثیر نہیں
کیا وہ یُوں ہم سے ہیں راضی، کہ نہیں ہیں راضی!
کیا یہ وہ خواب ہے، جس خواب کی تعبیر نہیں
وہ بھی چُپ، ہم بھی ہیں خاموش بہ ہنگامِ وصال
کثرتِ شوق بہ اندازۂ تقرِیر نہیں
شوق کو یادِ رُخِ یار نہ...
غزلِ
فراؔق گورکھپُوری
(رگھوپتی سہائے)
یہ نِکہتوں کی نرم رَوی، یہ ہَوا، یہ رات
یاد آ رہے ہیں عِشق کو ٹُوٹے تعلّقات
مایُوسِیوں کی گود میں دَم توڑتا ہے عِشق
اب بھی کوئی بنا لے تو بِگڑی نہیں ہے بات
اِک عُمر کٹ گئی ہے تِرے اِنتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ، کٹ نہ سکی جِن سے ایک رات
ہم اہلِ...
غزل
شفیق خلؔش
دُعا میں اب وہ اثر کا پتہ نہیں چلتا
کُچھ اِلتفاتِ نظر کا پتہ نہیں چلتا
اُتر کے خود سےسمندر میں دیکھنا ہوگا
کہ ساحلوں سے بھنور کا پتہ نہیں چلتا
خیالِ یار میں بیٹھے ہُوئے ہمَیں اکثر
گُزرتے شام و سَحر کا پتہ نہیں چلتا
نظر میں روزِ اوائل کا چاند ہو جیسے
نِگہ بغور کمر کا پتہ...
نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی
کلاہ سر سے تو قد سے قبا زیادہ تھی
رمیدگی تھی تو پھر ختم تھا گریز اس پر
سپردگی تھی تو بے انتہا زیادہ تھی
غرور اس کا بھی کچھ تھا جدائیوں کا سبب
کچھ اپنے سر میں بھی شاید ہوا زیادہ تھی
وفا کی بات الگ پر جسے جسے چاہا
کسی میں حسن، کسی میں ادا زیادہ تھی...
غزل
گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا
یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں
ہم نہ مل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا
روئے گی صُبح ہمَیں، شام بھی مُضطر ہوگی
کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا
وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے
جاں...