غزل
دِلِ زخمی سےخُوں، اے ہمنشِیں! کُچھ کم نہیں نِکلا
تڑپنا تھا، مگر قسمت میں لِکھّا دَم نہیں نِکلا
ہمیشہ زخمِ دِل پر ، زہر ہی چھڑکا خیالوں نے !
کبھی اِن ہمدموں کی جیب سے مرہم نہیں نِکلا
ہمارا بھی کوئی ہمدرد ہے، اِس وقت دُنیا میں
پُکارا ہر طرف، مُنہ سے کسی کی ہم نہیں نِکلا
تجسُّس کی نظر...
سُنیو جب وہ کبھو سَوار ہُوا
تا بہ رُوح الامیں شکِار ہُوا
اُس فریب بندہ کو نہ سمجھے آہ !
ہم نے جانا کہ ہم سے یار ہُوا
نالہ ہم خاکساروں کا آخر!
خاطرِعرش کا غُبار ہُوا
مَر چَلے بے قرار ہو کر ہم
اب تو تیرے تئیں قرار ہُوا
وہ جو خنجر بَکف نظر آیا
مِیؔر سو جان سے نِثار ہُوا
مِیر تقی مِیؔر
غزل
کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے
ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے
خود میں احساس اب لئے اُن کا
لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے
ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی
گُل بھی کیا گُل دِکھائی دیتا ہے
دسترس میں ہے کُچھ نہیں پھر بھی
اُونچا اُونچا سُجائی دیتا ہے
کب محبّت میں سُرخ رُو ہونا
اپنی قسمت دِکھائی دیتا...
غزل
جیسی چاہی تھی مُلاقات نہ ہونے پائی
آج پِھر اُن سے مِری بات نہ ہونے پائی
بِکھرے بِکھرے ہی رہے مجھ میں مِرے خواب و خیال !
مجتمع مجھ سے مِری ذات نہ ہونے پائی
ضبط نے پھوڑے اگرچہ تھے پھپھولے دِل کے
شُکر آنکھوں سے وہ برسات نہ ہونے پائی
سر پہ ہر وقت چمکتا رہا میرے سُورج
دِن گُزرتے گئے اِک رات...
غزل
چہرۂ وقت سے اُٹّھے گا نہ پردا کب تک
پسِ اِمروز رہے گا، رُخِ فردا کب تک
اُس کی آنکھوں میں نمی ہے، مِرے ہونٹوں پہ ہنسی
میرے اللہ! یہ نیرنگِ تماشا کب تک
یہ تغافُل ، یہ تجاہل ، یہ سِتم ، یہ بیداد
کب تک ، اے خانہ براندازِ تمنّا !کب تک
بن گیا گردشِ دَوراں کا نِشانہ آخر
لشکرِ وقت سے لڑتا دلِ...
غزل
گو دَورِ جام ِبزم میں، تا ختمِ شب رہا !
لیکن، میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہا
پروانہ میری طرح مُصِیبت میں کب رہا
بس رات بھر جَلا تِری محِفل میں جب رہا
ساقی کی بزم میں یہ نظامِ ادب رہا !
جس نے اُٹھائی آنکھ، وہی تشنہ لب رہا
سرکار ،پُوچھتے ہیں خفا ہو کے حالِ دل
بندہ نواز میں تو بتانے سے...
غزلِ
شکؔیل خیرآبادی
مہ لِقا ساقی ہے، ہم ہیں، اور دَورِ جام ہے
کُچھ غمِ فردا ، نہ خوفِ گردشِ ایّام ہے
مَے پرستی حق پرستی ہے، یہی اِسلام ہے
بادۂ توحِید سے لبریز دِل کا جام ہے
پھر ہَمَیں شوقِ شہادت لے چلا ہے سر بکف
کوُچۂ قاتِل میں سُنتے ہیں کہ قتلِ عام ہے
رات جو دُشمن کی ہے، وہ رشکِ صُبحِ...
ابھی کُچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں
وہ گِنتے ہیں بیٹھے ہماری خطائیں
نہیں آتے پل کو جو پہروں یہاں تھے
اثر کھو چُکی ہیں سبھی اِلتجائیں
زمانہ ہُوا چھوڑ آئے وطن میں
نظر ڈُھونڈتی ہے اب اُن کی ادائیں
مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں
جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں
خَلِشؔ تم زمیں کے، وہ ہیں...
پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح
ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح
ترکیب و طرح، ناز و ادا، سب سے دل لگی !
اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح
یوسفؑ کی اِس نظیر سے دل کو نہ جمع رکھ !
ایسی متاع، جاتی ہے بازار ہر طرح
جس طرح مَیں دِکھائی دِیا ،اُس سے لگ پڑے !
ہم کشت و خُوں کے ہیں گے سزاوار ہر...
غزل
تمھاری، دِل میں محبّت کا یُوں جواب نہیں
کہ اِس سے، ہم پہ مؤثر کوئی عذاب نہیں
ہزاروں پُوجے مگر بُت کوئی نہ ہاتھ آیا
تمام عُمْر عبادت کا اِک ثواب نہیں
اُمیدِ وصْل سے قائم ہیں دھڑکنیں دِل کی
وگرنہ ہجر میں ایسا یہ کم کباب نہیں
سِوائے حُسن کسی شے کی کب اِسے پروا
ہمارے دِل سے بڑا دہرمیں...
غزل
عذابِ زِیست کی سامانیاں نہیں جاتیں
مِری نظر سے وہ رعنائیاں نہیں جاتیں
بچھڑ کے تجھ سے بھی پرچھائیاں نہیں جاتیں
جو تیرے دَم سے تھیں شُنوائیاں، نہیں جاتیں
گو ایک عُمر جُدائی میں ہو گئی ہے بَسَر
خیال وخواب سے انگڑائیاں نہیں جاتیں
مُراد دِل کی بھی کوئی، کہاں سے بھرآئے
جب اِس حیات سے ناکامیاں...
ذرّوں سے باتیں کرتے ہیں، دِیوار و دَر سے ہم
وابستہ کِس قدر ہیں ، تِری رہگُذر سے ہم
دیکھا جہاں بھی حُسن، وہیں لَوٹ ہو گئے!
تنگ آ گئے ہیں اپنے مزاجِ نظر سے ہم
چھیڑَیں کسی سے، اور ہمارے ہی سامنے!
لڑتے ہیں دِل ہی دِل میں، نَسِیمِ سَحر سے ہم
اِتنی سی بات پر ہے بس اِک جنگِ زرگری
پہلے اُدھر...
غزل
جتنے کم مجھ سے مُلاقات کے اِمکاں ہونگے
اُتنا اُتنا ہی، وہ مِلنے کو پریشاں ہونگے
ہیں فقط ہم ہی نہیں دِید کے طالِب اُس کے !
گھر سے نِکلیں جو کبھی جان کے حیراں ہونگے
ہر قدم اُس کو دِلائے گا مِرا ہی احساس
اُس کی راہوں میں بِچھے یُوں مِرے ارماں ہونگے
پھر بہار آئی گی، اور پھر مِری یادیں...
غزل
کمالِ عشق ہے دِیوانہ ہوگیا ہُوں مَیں
یہ کِس کے ہاتھ سے دامن چُھڑا رہا ہُوں مَیں
تمھیں تو ہو، جِسے کہتی ہے ناخُدا دُنیا
بچا سکو تو بچا لو، کہ ڈُوبتا ہُوں مَیں
یہ میرے عِشق کی مجبُورِیاں، معاذاللہ!
تمھارا راز، تمھیں سے چُھپا رہا ہُوں مَیں
اِس اِک حجاب پہ سَو بے حجابیاں صدقے !
جہاں سے...
غزل
دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں
ہم اُن سے کچھ نہ کہیں گے یہ ٹھان بیٹھے ہیں
رہِ غزال میں باندھے مچان بیٹھے ہیں
ہم آزمانے کو قسمت ہی آن بیٹھے ہیں
کُشادہ دل ہیں، سِتم سے رہے ہیں کب خائف
کریں وہ ظُلم بھی ہم پرجو ٹھان بیٹھے ہیں
نہیں ہے اُن سے ہماری کوئی شناسائی
گلی میں شوقِ تجلّی میں...
ہم بھی پِھرتے ہیں یک حَشَم لے کر
دستۂ داغ و فوجِ غم لے کر
دست کش نالہ، پیش رُو گریہ
آہ چلتی ہے یاں، علَم لے کر
مرگ اِک ماندَگی کاوقفہ ہے!
یعنی آگے چلیں گے دَم لے کر
اُس کے اُوپر، کہ دِل سے تھا نزدِیک !
غم ِدُوری چلے ہیں ہم لے کر
بارہا صید گہ سے اُس کی گئے
داغِ یاس ،آہُوئے حَرَم لے کر...
غالب کہ یہ دِل خستہ شَبِ ہجر میں مر جائے
یہ رات نہیں وہ، جو کہانی میں گُزر جائے
ہے طُرفہ مُفتّن نِگہ اُس آئینہ رُو کی!
اِک پَل میں کرے سینکڑوں خُوں، اور مُکر جائے
نہ بُت کدہ ہے منزلِ مقصود، نہ کعبہ!
جو کوئی تلاشی ہو تِرا ، آہ ! کِدھر جائے
ہر صُبح تو خورشید تِرے مُنہ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو ،...
غم مجسّم نظر آیا ، تو ہم اِنساں سمجھے
برق جب جِسم سے وابسطہ ہُوئی ، جاں سمجھے
شوق کی گرمیِ ہنگامہ کو وحشت جانا
جمع جب خاطرِ وحشت ہُوئی، ارماں سمجھے
حکمِ وحشت ہےکہ، زِنداں کو بھی صحرا جانو
دِل وہ آزاد کہ صحرا کو بھی زِنداں سمجھے
فانؔی اِس عالَمِ ظاہر میں سراپا غم تھا !
چُھپ گیا خاک میں تو...
چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں
میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ، لیکن
ایک مُٹّھی میں ، مِرے خواب کہاں آتے ہیں
مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا!
ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں
میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے!
نیند آئی بھی تو ،...
روز و شب کا رہا خیال نہیں!
کیوں یُوں گذریں کا بھی ملال نہیں
اک تنومند ہے شجر دُکھ کا
غم مِرا، اب غمِ نہال نہیں
لوگ پُوچھیں ہیں نام تک اُس کا
صرف افسُردگی سوال نہیں
کچھ بھی کہنا کہاں ہے کچھ مُشکل
کچھ کہوں دِل کی، یہ مجال نہیں
لوگ ہنستے ہیں حال پر جو مِرے
میں بھی ہنستا ہوں کیا کمال نہیں
آ...