غزل
خواجہ محمد مِیر اثؔر دہلوی
لوگ کہتے ہیں یار آتا ہے
دِل تجھے اعتبار آتا ہے؟
دوست ہوتا جو وہ، تو کیا ہوتا
دُشمنی پر تو پیار آتا ہے
تیرے کوچے میں بیقرار تِرا
ہر گھڑی بار بار آتا ہے
زیرِ دِیوار تُو سُنے نہ سُنے
نام تیرا پُکار آتا ہے
حال اپنے پہ ،مجھ کو آپ اثؔر!
رحم بے اِختیار آتا ہے
خواجہ...
غزل
یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو
مائل بہ عِشق جس سے دِل آرام بھی تو ہو
اُن تک سفر کا میرے اب انجام بھی تو ہو
کچھ تگ و دو یہ باعثِ اِنعام بھی تو ہو
دُشنام گو لَبوں پہ خَلِش نام بھی تو ہو!
عاشِق ہو تم، تو شہرمیں بدنام بھی تو ہو
پتّھر برس رہے ہوں کہ ہو موت منتظر
اُن کا، گلی میں آنے...
غزل
شفیق خلؔش
تب اَوج پر مِری واماندگی سی ہوتی ہے
جب اُس نظر میں بھی بیگانگی سی ہوتی ہے
پِھر روز و شب لِئے افسُردگی سی ہوتی ہے
بس اُس کے مِلنے پہ آسودگی سی ہوتی ہے
ترس رہے ہیں ذرا سی ہنسی، خوشی کے لیے
کہ زندگی بھی نہ اب زندگی سی ہوتی ہے
دِیا سُخن کو نیا رنگ تیری فُرقت نے
اب بول چال میں...
غزل
پھر لہُو بول رہا ہے دِل میں
دَم بہ دَم کوئی صدا ہے دِل میں
تاب لائیں گے نہ سُننے والے
آج وہ نغمہ چِھڑا ہے دِل میں
ہاتھ ملتے ہی رہیں گے گُل چِیں
آج وہ پُھول کِھلا ہے دِل میں
دشت بھی دیکھے ، چمن بھی دیکھا
کُچھ عجب آب و ہَوا ہے دِل میں
رنج بھی دیکھے، خوشی بھی دیکھی
آج کُچھ درد نیا ہے دِل...
غزل
آ ہی جائے گی سَحر مطلعِ اِمکاں تو کُھلا
نہ سہی بابِ قفس، روزنِ زِنداں تو کُھلا
لے کے آئی تو صبا اُس گُلِ چینی کا پیام
وہ سہی زخم کی صُورت، لبِ خنداں تو کُھلا
سیلِ رنگ آ ہی رہے گا، مگر اے کشتِ چمن!
ضربِ موسم تو پڑی، بند ِبہاراں تو کُھلا
دِل تلک پہنچے نہ پہنچے، مگر اے چشم ِحیات !
بعد...
غزل
تازہ محبّتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے
پھر موسمِ بہار مِرے گُلستاں میں ہے
اِک خواب ہے کہ بارِ دگر دیکھتے ہیں ہم
اِک آشنا سی روشنی سارے مکاں میں ہے
تابِش میں اپنی مہر و مہ و نجم سے سَوا
جگنو سی یہ زمِیں جو کفِ آسماں میں ہے
اِک شاخِ یاسمین تھی کل تک خِزاں اَثر
اور آج سارا باغ اُسی کی اماں میں...
غزل
مِسمار کرنے آئی مِری راحتوں کے خواب
تعبیر وسوَسے لئے سب چاہتوں کے خواب
دِل کے یقینِ وصل کو پُختہ کریں کُچھ اور
ہرشب ہی ولوَلوں سے بھرے ہمّتوں کے خواب
پَژمُردہ دِل تُلا ہے مِٹانے کو ذہن سے
اچّھی بُری سبھی وہ تِری عادتوں کے خواب
کیسے کریں کنارا، کہ پیشِ نظر رہیں
تکمیلِ آرزُو سے جُڑے...
غزل
شیخ غلام ہمدانی مصحفؔی
شب گھر سے جو سیٹی کی وہ آواز پہ نِکلا
نِکلا تو وہ، لیکن عجب انداز پہ نِکلا
مانی نے قلمداں میں رکھا خامۂ مُو کو
خط جب سے تِرے لعلِ فسُوں ساز پہ نِکلا
دِل مجلسِ خُوباں میں جو گُم رات ہُوا تھا
صد شُکر اُسی محرمِ ہمراز پہ نِکلا
سو حُسن کی تصوِیریں لِکھیں کلکِ قضا...
غزل
سِراؔج اورنگ آبادی
میرے جِگر کے درد کا چاراکب آئے گا
یک بار ہوگیا ہے، دوبارا کب آئے گا
پُتلی ، ہمارے نیں کے جھروکے میں بیٹھ کر !
بیکل ہو جھانکتی ہے، پیارا کب آئے گا
اُس مُشتری جبِیں کا مجھے غم ہُوا زُحل
طالع مِرے کا نیک سِتارا کب آئے گا
مُرجھا رہی ہے دِل کی کلی غم کی دُھوپ...
غزل
سِراؔج اورنگ آبادی
جس کو مزا لگا ہے تِرے لب کی بات کا
ہرگز نہیں ہے ذَوق اُسے پِھر نبات کا
دیکھے سے اُن لبوں کے جسے عُمرِ خضر ہے
پیاسا نہیں ہے چشمۂ آبِ حیات کا
اے شوخ! بزمِ ہجر میں روشن ہے شمعِ آہ
قصّہ نہ پُوچھ مجھ سے جُدائی کی رات کا
یا رب! طلب ہے داغِ محبّت کی مُہر کی
مُدّت سے...
غزل
شفیق خلؔش
نظرسے جواُس کی نظر مِل گئی ہے
محبّت کو جیسے اثر مِل گئی ہے
سرِشام وہ بام پر آئے ، شاید !
ہم آئے گلی میں خبر مِل گئی ہے
مزید اب خوشی زندگی میں نہیں ہے
تھی قسمت میں جومُختصرمِل گئی ہے
گِلہ کیوں کریں ہم مِلی بے کلی کا
توسُّط سے اُس کے اگرمِل گئی ہے
ہَمہ وقت طاری جو رہتی...
غزل
خواجہ حیدر علی آتؔش
آئنہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
چہرۂ شاہدِ مقصُود عیاں ہے کہ جو تھا
عِشقِ گُل میں وہی بُلبُل کا فُغاں ہے کہ جو تھا
پرتَوِ مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا
عالَمِ حُسن ِخُداداد ِبُتاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز بَلائے دِل و جاں ہے کہ جو تھا
راہ میں تیری شب و روز بَسر...
غزل
غم تِراجَلوَہ دَہِ کون و مکاں ہے، کہ جو تھا
یعنی اِنسان وہی شُعلہ بجاں ہے، کہ جو تھا
پھر وہی رنگِ تکلّم نگِہہ ناز میں ہے
وہی انداز، وہی حُسنِ بیاں ہے کہ جو تھا
کب ہے اِنکار تِرے لُطف وکَرَم سے، لیکن!
تووہی دُشمنِ دِل، دُشمنِ جاں ہے، کہ جو تھا
عِشقِ افسُردہ نہیں آج بھی افسُر دہ بہت ...
غزل
بنے بنائے ہُوئے راستوں پہ جانکلے
یہ ہم سفر مِرے ،کتنے گُریز پا نکلے
چلے تھے اور کسی راستے کی دُھن میں، مگر
ہم اِتّفاق سے، تیری گلی میں آ نکلے
غمِ فراق میںکُچھ دیر رو ہی لینے دو
بُخار کُچھ تو ، دلِ بے قرار کا نکلے
نصیحتیں ہَمَیںکرتے ہیں ترکِ اُلفت کی
یہ خیر خواہ ہمارے کِدھر سے آنکلے...
غزل
باغِ عالَم میں رہے شادی و ماتم کی طرح
پُھول کی طرح ہنسے ، رَو دِیئے شبنم کی طرح
شِکوہ کرتے ہو ،خوشی تم سے منائی نہ گئی
ہم سے غم بھی تو منایا نہ گیا غم کی طرح
روز محِفل سے اُٹھاتے ہو تو دِل دُکھتا ہے !
اب نکلواؤ تو پھر حضرتِ آدم کی طرح
لاکھ ہم رِند سہی حضرتِ واعظ ، لیکن
آج تک ہم نے نہ...
غزل
مِیر تقی مِیؔر
دیکھی تھی تیرے کان کے موتی کی اِک جھلک
جاتی نہیں ہے اشک کی رُخسار کے ڈھلک
یارب اِک اِشتیاق نِکلتا ہے چال سے
ملتے پھریں ہیں خاک میں کِس کے لیے فلک
طاقت ہو جس کے دل میں، وہ دو چار دن رہے!
ہم ناتوانِ عشق تمھارے، کہاں تلک
برسوں ہُوئے، کہ جان سے جاتی نہیں خلش
ٹک ہل گئی تھی...
غزل
شفیق خلؔش
خاک بے خوابی کو تھپک دیکھوں
غم کی ہر اُور سے لپک دیکھوں
خُونِ دِل سا ہی اب ٹپک دیکھوں
سیلِ غم میں وہی چَپَک دیکھوں
اب بھی سینے میں تیری یاد سے وہ
شُعلۂ عِشق کی لپک دیکھوں
ہے توقُّف بھی اِنتظار میں کُچھ
کاش پلکیں ذرا جھپک دیکھوں
اُلفت اِس دِل میں وہ ہُوئی یُوں خلش...
غزلِ
فراؔق گورکھپُوری
(رگھوپتی سہائے)
دِیدار میں اِک طُرفہ دِیدار نظر آیا
ہر بار چُھپا کوئی ، ہر بار نظر آیا
چھالوں کو بیاباں بھی گُلزار نظر آیا
جب چھیڑ پر آمادہ ہر خار نظر آیا
صُبحِ شبِ ہجراں کی وہ چاک گریبانی
اِک عالَمِ نیرنگی ہر تار نظر آیا
ہو صبر ،کہ بیتابی، اُمِّید کہ،...
غزل
اب تو ایسی کوئی گھڑی آئے!
حُسن کو خود سُپردگی آئے
اب ہَمَیں دے گی کیامزہ یہ شراب
ہم تو آنکھوں سے اُس کی، پی آئے
دُشمنوں سے بھی راہ و رسم بڑھیں
دوستوں میں جو کچھ کمی آئے
دِل کے آنگن میں کُچھ اندھیرا ہے
کسی مُکھڑے کی روشنی آئے
اِس طرح آرہا ہے دِل کا مکیں...
غزل
شفیق خلؔش
خواب ہی خواب اب تلک دیکھوں
کب حقیقت میں اِ ک جھلک دیکھوں
کوئی صُورت دِکھے وہی صُورت
معجزہ کچھ تو، اے فلک دیکھوں
چشم ترسے ہے بَوجھ پلکوں پر
جی کرے غم ذرا چھلک دیکھوں
گِرتےقطرے کی کیا حقیقت ہے
بن کے آنسو میں خود ڈھلک دیکھوں
دِید سے جس کی ، زندگی بدلی!
کاش اُس کی میں...