نٹ کھٹ
گیلی گیلی سی دھوپ کے گچھّے
ٹھنڈی ٹھنڈی سی آگ کی لپٹیں
سرخ چمکیلا گُل مہر کا پیڑ
نیم تاریک بند کمرے سے
جب بھی دروازہ کھول کر نکلوں
سرخ چمکیلی دھوپ کا چھینٹا
ایسے لگتا ہے آنکھ پر آ کر
جیسے چنچل شریر اِک بچّہ
چوری چوری کواڑ سے کودے
"ہاہ" کہہ کر ڈرائے اور ہنس دے
گلزار کی یہ نظم فاتح صاحب کی نذر
عادتا" ہی - - - - - -
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے
جیئے جانا بھی کیا روایت ہے
کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں
کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں
پاؤں بے حِس ہیں چلتے جاتے ہیں
اِک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے
کتنے برسوں سے کتنی صدیوں سے
سانس لیتے ہیں، جیتے رہتے ہیں...
تنکا تنکا کانٹے توڑے ، ساری رات کٹائی کی
کیوں اتنی لمبی ہو تی ہے، چاندنی رات جُدائی کی
نیند میں کوئی اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہے
کال کنویں میں گونجتی ہے، آواز کسی سودائی کی
سینے میں دِل کی آہٹ، جیسے کوئی جاسوس چلے
ہر سائے کا پیچھا کرنا، عادت ہے ہر جائی کی
آنکھوں اور کانوں میں...
سکیچ
یاد ہے اِک دن
میرے میز پہ بیٹھے بیٹھے
سگریٹ کی ڈبیہ پر تم نے
چھوٹے سے اِک پودے کا
ایک سکیچ بنایا تھا
آکر دیکھو
اس پودے پر پھول آیا ہے !( گلزار )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرید - گلزار
جی چاہے کہ
پتھر مار کے سورج ٹکڑے ٹکڑے کردوں
سارے فلک پر بکھرا دوںاس کانچ کے ٹکڑے
جی چاہے کہ
لمبی ایک کمند بنا کر
دور افق پر ہُک لگاؤں
کھینچ کے چادر چیر دوں ساری
جھانک کے دیکھوں پیچھے کیا ہے
شاید کوئی اور فلک ہو!
معنی کا عذاب - گلزار
چوک سے چل کر، منڈی اور بازار سے ہوکر
لال گلی سے گزری ہے کاغذ کی کشتی
بارش کے لاوارث پانی پر بیٹھی بیچاری کشتی
شہر کی آوارہ گلیوں میں سہمی سہمی گھوم رہی ہے
پوچھ رہی ہے
ہر کشتی کا ساحل ہوتا ہے تو کیا میرا بھی کوئی ساحل ہوگا
بھولے بھالے اک بچے نے
بے معنی کو معنی دے...
اعتراف - گلزار
مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جلاہے!
اکثر تجھ کو دیکھا ہے کہ تانا بنتے
جب کوئی تاگا ٹوٹ گیا یا ختم ہوا
پھر سے باندھ کے
اور سرا کوئی جوڑ کے اس میں
آگے بننے لگتے ہو
تیرے اس تانے میں لیکن
اک بھی گانٹھ گرہ بُنتر کی
کوئی دیکھ نہیں سکتا ہے
میں نے تو اک بار بُنا تھا ایک...
مکمّل نظم - گلزار
نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں
شعر اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر
لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں
اڑتے پھرے ہیں تتلیوں کی طرح
کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم
سادہ کاغذ پہ لکھ کے نام ترا
بس ترا نام ہی مکمّل ہے
اس سے بہتر بھی نظم کیا ہوگی!
کھلی کتاب کے صفحے اُلٹتے رہتے ہیں
ہوا چلے نہ چلے، دن پلٹتے رہتے ہیں
بس ایک وحشتِ منزل ہے اور کچھ بھی نہیں
کہ چند سیڑھیاں چڑھتے اُترتے رہتے ہیں
مجھے تو روز کسوٹی پہ دَرد کستا ہے
کہ جاں سے جسم کے بخیے اُدھڑتے رہتے ہیں
کبھی رُکا نہیں کوئی مقام صحرا میں
کہ ٹیلے پاؤں تلے سے سرکتے رہتے...
شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے
دفن کردو ہمیں کہ سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے
کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے
وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے
کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی
ایک تسلیم لازمی سی ہے
آئیے راستے الگ کر لیں
یہ...
[align=right:cd8b19b11c]ادّھا ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪
سب اُسے " ادّھا “ کہہ کے بلاتے تھے ۔پورا کیا ، پونا کیا ،بس ادّھا --------- قد کا بونا جو تھا ۔پتہ نہیں کس نے نام رکھا تھا ۔ماں باپ ہوتے تو ان سے پوچھتا ۔
جب سے ہوش سنبھالا تھا، یہی نام سنا تھا اور یہ بھی نہیں کہ کبھی کوئی تکلیف ہوئی ہو ۔دل دُ کھا ہو...
کھنڈر
شاعر: گُلزار
میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں پر میلے کتبے
دلوں کی ٹوٹی ہوئی صلیبیں گری پڑی ہیں
شفق کی ٹھنڈی چھاؤں سے راکھ اُڑ رہی ہے
جگہ جگہ گرز وقت کے چور ہو گئے
جگہ جگہ ڈھیر ہو گئیں ہیں عظیم صدیاں
میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں...
رات چپ چاپ دبے پاؤں چلی جاتی ہے
صرف خاموش ہے روتی نہیں، ہنستی بھی نہیں
کانچ کا نیلا سا گنبد بھی اڑا جاتا ہے
خالی خالی کوئی بجرا سا بہا جاتا ہے
چاند کی کرنوں میں وہ روز سا ریشم بھی نہیں
چاند مصری کی ڈلی ہے کہ گھلی جاتی ہے
اور سناٹوں کی اک دھول اڑی جاتی ہے
کاش اک بار کبھی نیند سے اٹھ کر تم...