مئی کے آخری عشرے میں دفتری ضرورت سے دہلی جاناہوا- 27مئی کونماز جمعہ سے پہلے بلی ماران میں واقعہ غالب کی حویلی دیکھنے چلا گیا - تصویری جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں-
حویلی کا داخلی دروازہ
آنگن
پوشاک
کتابت شدہ کلام غالب
اسی طرح کے پیالے وغیرہ غالب کے زمانے میں استعمال ہوتے تھے-
شطرنج
چچاغالب...
نومیدیِ ما گردشِ ایام ندارد
روزی کہ سیہ شد سحر وشام ندارد۔
ہر رشحہ باندازہِ ہر حوصلہ ریزند
میخانہِ توفیق خم و جام ندارد۔
"مرزا غالب"
منظوم ترجمہ:
مایوسیاں ہیں گردشِ ایّام نہیں ہیں
روز ایسے سیاہ ہیں کہ سحر و شام نہیں ہیں
ہر قطرہ بہ اندازۂ ہمّت سے ہی ٹپکے
میخانہ میں اسبابِ خُم و جام نہیں ہیں...
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے قسمت میں مری صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
دل ہوا کشمکشِ چارۂ زحمت میں تمام
مٹ گیا گھسنے میں اس عقدے کا وا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا
ضعف سے...
"دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا"
میری خاطر، ہیر کے چاچے سے ٹکراویں گے کیا
گنج زخمی ہے مگر ناخن بھی چھوٹے ہیں ابھی
"زخم کے بھرتے تلک ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا"
صاف کیوں آتی نہیں آواز موبی لنک پر
"ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرماویں گے، کیا؟"
"چوہدری صاحب"، اپوزیشن کو سمجھانے گئے...
ایک دوست محمد ارسلان کی فرمائش پر کلامِ غالب بزبانِ منیب الدین
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے
پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے...
غزل
مِرزا اسدؔاللہ خاں غالبؔ
دیوانگی سے دَوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے جَیب میں اِک تار بھی نہیں
دِل کو نیازِ حسرتِ دِیدار کر چُکے
دیکھا تو، ہم میں طاقتِ دِیدار بھی نہیں
مِلنا تِرا اگر نہیں آساں، تو سہل ہے !
دُشوار تو یہی ہے کہ، دُشوار بھی نہیں
بے عِشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے، اور یاں
طاقت...
غالب کا پوسٹ مارٹم
ایک دن غالبؔ کے پڑھ کر شعر میری اہلیہ
مجھ سے بولی آپ تو کہتے تھے ان کو اولیا
عاشق بنت عنب کو آپ کہتے ہیں ولی
فاقہ مستی میں بھی ہر دم کر رہا ہے مے کشی
پوجنے سے مہ جبینوں کے یہ باز آتا نہیں
اور پھر کافر کہے جانے سے شرماتا نہیں
کوئی بھی مہوش اکیلے میں اگر آ جائے ہاتھ...
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدعا پایا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا
غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
فکرِ نالہ...
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی
اک خوں چکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی
واعظ! نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی!
لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل، کہ کیوں اٹھا؟
گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی
آمد بہار...
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
دل ہوا کشمکشِ چارۂ زحمت میں تمام
مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو...
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جویائے زخم کاری ہے
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
آمد فصل لالہ کاری ہے
قبلۂ مقصد نگاہ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے
چشم دلال جنس رسوائی
دل خریدار ذوق خواری ہے
وہی صد رنگ نالہ فرسائی
وہی صد گونہ اشک باری ہے
دل ہوائے خرام ناز سے پھر
محشرستان بیقراری ہے...
غالب اور سرکاری ملازمت
(تحریر: سعادت حسن منٹو)
حکیم محمود خان مرحوم کے دیوان خانے کے متصل یہ جو مسجد کے عقب میں ایک مکان ہے، مرزا غالب کا ہے۔ اسی کی نسبت آپ نے ایک دفعہ کہا تھا۔
مسجد کے زیر سایہ ایک گھر بنا لیا ہے
یہ بندۂ کمینہ ہمسایۂ خُدا ہے
آئیے! ہم یہاں آپ کو دیوان خانے میں لے چلیں۔ کوئی حرج...
خود جاں دے کے روح کو آزاد کیجئے
تاکے خیالِ خاطرِ جلّاد کیجئے
بھولے ہوئے جو غم ہیں انہیں یاد کیجئے
تب جاکے ان سے شکوۀ بے داد کیجئے
حالانکہ اب زباں میں نہیں طاقتِ فغاں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ فریاد کیجئے
بس ہے دلوں کے واسطے اک جنبشِ نگاه
اجڑے ہوئے گھروں کو پھر آباد کیجئے
کچھ دردمند منتظرِ انقلاب...
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے
پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کیے ہوئے
پھر پرسشِ جراحتِ...
غالب اور سرکاری ملازمت
(تحریر: سعادت حسن منٹو)
حکیم محمود خان مرحوم کے دیوان خانے کے متصل یہ جو مسجد کے عقب میں ایک مکان ہے، مرزا غالب کا ہے۔ اسی کی نسبت آپ نے ایک دفعہ کہا تھا۔
مسجد کے زیر سایہ ایک گھر بنا لیا ہے
یہ بندۂ کمینہ ہمسایۂ خُدا کا ہے
آئیے! ہم یہاں آپ کو دیوان خانے میں لے چلیں۔...
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
کیا مزہ ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک
گرد راہ یار ہے سامان ناز زخم دل
ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک
مجھ کو ارزانی رہے تجھ کو مبارک ہوجیو
نالۂ بلبل کا درد اور خندۂ گل کا نمک
شور جولاں تھا کنار بحر پر کس کا کہ آج
گرد ساحل ہے بہ زخم موجۂ دریا...
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
نگاہ دل سے ترے سرمہ سا نکلتی ہے
فشار تنگی خلوت سے بنتی ہے شبنم
صبا جو غنچے کے پردے میں جا نکلتی ہے
نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آب تیغ نگاہ
کہ زخم روزن در سے ہوا نکلتی ہے
بہ رنگ شیشہ ہوں یک گوشۂ دل خالی
کبھی پری مری خلوت میں آ نکلتی ہے
مرزا غالب