مصطفیٰ زیدی

  1. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی ایک زخمی تصّور

    ایک زخمی تصّور یہ ترا عزم ِ سفر یہ مرے ہونٹوں کا سکوت اب تو دنیا نہ کہے گی کہ شکایت کی تھی میں سمجھ لوں گا کہ میں نے کسی انساں کے عوض ایک بےجان ستارے سے محبّت کی تھی اک دمکتے ہوئے پتھر کی جبیں چومی تھی ! ایک آدرش کی تصویر سے اُلفت کی تھی ! میں نے سوچا تھا کہ آندھی میں چَراغاں کر دوں...
  2. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی دیوانوں پہ کیا گزری

    دِیوانوں پہ کیا گُزری صِرف دو چار برس قبل یُونہیں برسرِ راہ مِل گیا ہوتا اگر کوئی اشارا ہم کو کِسی خاموش تکلّم کا سہارا ہم کو یہی دُزدیدہ تبسّم ، یہی چہرے کی پُکار یہی وعدہ ، یہی ایما ، یہی مُبہم اِقرار ہم اِسے عرش کی سرحَد سے مِلانے چلتے پُھول کہتے کبھی سِنگیت بنانے چلتے خانقاہوں کی...
  3. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی ہر اک نے کہا : کیُوں تجھے آرام نہ آیا

    ہر اک نے کہا : کیُوں تجھے آرام نہ آیا سُنتے رہے ہم ، لب پہ ترا نام نہ آیا دیوانے کو تکتی ہیں ترے شہر کی گلیاں نِکلا ، تو اِدھر لَوٹ کے بدنام نہ آیا مت پُوچھ کہ ہم ضبط کی کِس راہ سے گُزرے یہ دیکھ کہ تُجھ پر کوئی اِلزام نہ آیا کیا جانئیے کیا بیت گئی دِن کے سفر میں وُہ مُنتظَر ِ شام...
  4. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی سحر جیتے گی یا شام ِ غریبَاں دیکھتے رہنا

    سحر جیتے گی یا شام ِ غریبَاں دیکھتے رہنا یہ سر جھکتے ہیں یا دیوار ِ زنداں دیکھتے رہنا ہر اک اہل ِ لہو نے بازیء ایماں لگا دی ہے جو اب کی بار ہوگا وہ چراغاں دیکھتے رہنا ادھر سے مدّعی گزریں گے ایقان ِ شریعت کے نظر آجائے شاید کوئی انساں دیکھتے رہنا اُسے تم لوگ کیا سمجھو گے جیسا ہم سمجھتے ہیں...
  5. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی راکھ

    راکھ میں رات ایسے جزیرے میں تھا جہاں مجھ کو ہر ایک ٹھوس حقیقت مِلی گماں کی طرح پکارتا تھا پُراَسرار عالم موجود تھکی تھکی ہُوئی ارواح ِ رفتگاں کی طرح دَمک رہا تھا ہر اک گوشہ ء وطن لیکن خزاں کی دھوپ میں صحرائے بیکراں کی طرح مَیں اپنی قوم سے اپنی زباں میں گویا تھا زبان ِ شہر ِ...
  6. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی تھدیہ

    تھدیہ مُغاں سے لُطفِ ملاقات لے کہ آیا ہُوں نگاہ ِ پِیر ِ خرابات لے کے آیا ہُوں زمیں کے کرب میں شامِل ہُوا ہُوں ، راہ روو فقیر ِ راہ کی سوغات لے کے آیا ہُوں نظر میں عصر ِ جواں کی بغاوتوں کا غرور جگر میں سوز ِ روایات لے کے آیا ہُوں یہ فکر ہے کہ یُونہی تیری روشنی چمکے گناہ گار ہُوں ،...
  7. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی کونپلیں ریت سے پُھوٹیں گی سر ِ دشت ِ وفا

    کونپلیں ریت سے پُھوٹیں گی سر ِ دشت ِ وفا آبیاری کے لِیے خُون ِ جِگر تو لاؤ کِسی گُھونگھٹ سے نکل آئے گا رُخسار کا چاند جو اُسے دیکھ سکے ایسی نظر تو لاؤ شہر کے کُوچہ و بازار میں سنّاٹا ہے آج کیا سانِحہ گُذرا ہے خبر تو لاؤ ایک لمحے کے لِیے اُس نے کِیا ہے اقرار ایک لمحے کے لِیے عُمر ِ...
  8. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی تمہیں کیا فکر کیا اندیشہء جاں ہم جو بیٹھے ہیں !

    تمہیں کیا فکر کیا اندیشہء جاں ہم جو بیٹھے ہیں ! کہاں جائیں گے دنیا بھر کے طوفاں ہم جو بیٹھے ہیں سحر کے قافلو تم اپنی اپنی راہ پر جَاؤ یہیں رہ جائے گی شام ِ غریباں ہم جو بیٹھے ہیں ! دکان ِ شاعری میں اک سے اک رمز ِ نہاں لیکر بِکے گا اس کا دین اور اس کا ایماں ہم جو بیٹھے ہیں گنہگارو عروج...
  9. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ

    قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ زوال ِ عشق میں سوداگروں کا ہات تو دیکھ بس ایک ہم تھے جو تھوڑا سا سر اٹھا کے چلے اسی روش پہ رقیبوں کے واقعات تو دیکھ غم ِ حیات میں حاضر ہوں لیکن ایک ذرا نگار ِ شہر سے میرے تعلقات تو دیکھ خود اپنی آنچ میں جلتا ہے چاندنی کا بدن کسی کے نرم خنک گیسوؤں کی رات...
  10. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی ناشناس (۱)

    ناشناس (۱) کِتنے لہجوں کی کٹاریں مری گردن پہ چلیں کِتنے الفاظ کا سِیسہ مِرے کانوں میں گُھلا جس میں اِک سَمت دُھندلکا تھا اَور اِک سَمت غُبار اُس ترازو پہ مِرے درد کا سامان تُلا کم نِگاہی نے بصیرت پہ اُٹھائے نیزے جُوئے تقلِید میں پیراہن ِ افکار دُھلا قحط اَیسا تھا کہ برپا نہ ہوئی...
  11. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی دل ِ رُسوا

    دل ِ رُسوا وہی اک ہمدم ِ دیرینہ رہا اپنا رفیق جس کو ہم سوختہ تن ، آبلہ پا کہتے تھے جس کو اغیار سے حاصل ہوئی فقروں کی صلیب شہر کے کتنے ہی کوچوں سے اٹھا اسکا جلوس کتنے اخباروں نے تصویر اُتاری اس کی اس کے درشن سے بنا کوئی رشی کوئی ادیب اگلے وقتوں سے یہی رسم چلی آتی ہے ہم نے چاہا تھا...
  12. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی طلِسم

    طلِسم بُجھ گیا ہے وُہ ستارہ جو مِری رُوح میں تھا کھو گئی ہے وُہ حرارت جو تِری یاد میں تھی وُہ نہیں عِشرت ِ آسودگیء منزِل میں جو کسک جادہء گُم گشتہ کی اُفتاد میں تھی دُور اِک شمع لرزتی ہے پس ِ پردہء شب اِک زمانہ تھا کہ یہ لَو مِری فریاد میں تھی ایک لاوے کی دھمک آتی تھی کُہساروں سے...
  13. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی "دیکھنا اہل ِ جنوں، ساعتِ جہد آ پُہنچی"

    "دیکھنا اہل ِ جنوں، ساعتِ جہد آ پُہنچی" دیکھنا اہل ِ جنوں، ساعتِ جہد آ پُہنچی اب کے توہین ِ لب ِ دار نہ ہونے پائے اب کے کُھل جائیں خزانے نفَس ِ سوزاں کے اب کے محرومیء اظہار نہ ہونے پائے یہ جو غدّار ھے اپنی ہی صَف ِ اوّل میں غیر کے ہات کی تلوار نہ ہونے پائے یُوں تو ہر جوھر ِ گُفتار بڑا...
  14. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی نہ کوئی مخملی تصویر نہ کوئی نغمہ (ترجمہ)

    نہ کوئی مخملی تصویر نہ کوئی نغمہ (ترجمہ) نہ کوئی مخملی تصویر ، نہ کوئی نغمہ میرے مفہُوم کو مفہُوم بنا سکتا ہے اس لیئے، میں نے وُہ الفاظ چُنے ہیں، جن سے میرے افکار ، تعیش کی حدوں کے باہر اِک نیا دائرہء ذھن بنا سکتے ہوں دائرہ، جس میں نہیں فِکر و نظر کا اُلجھاؤ اَور آئیں گے ؛ اگر چاہو ، تو...
  15. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی عدالت

    عدالت خدائے قُدّوس کی بُزرگ اور عظیم پلکیں زمیں کے چہرے پہ جُھک گئی ہَیں زمین کی دُختر ِ سعید اپنے آنسوؤں اور ہچکیوں میں شفیق ، ہمدرد باپ کی بارگاہ کا اک ستُون تھامے گُنہ کا اقرار کر رہی ہے ترے فرشتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترے فرشتے کہ جن کی قسمت میں محض تسبیح و نَے نوازی نہ...
  16. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی پرستیدم ، شِکستم

    پرستیدم ، شِکستم پہلے مرے گیتوں میں سرمئی نقابیں تھیں چمپیء تبسُم تھے ! پہلے میرے نغموں پر جُھومتی ہُوئی کلیاں آنکھ کھول دیتی تھیں انقلاب کی لَے پر میری نظمیں بڑھتی تھیں جیسے ریل کے پہیے پٹریوں کے لوہے پر فن کے گیت گاتے ہوں میری نظم کے پیچھے زندگی کی دھڑکن تھی ماسکو کے گنبد تھے...
  17. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی شہناز (۴)

    شہناز (۴) " خود کو تاراج کرو ، زندگیاں کم کر لو جتنا چاہو دل ِ شوریدہ کا ماتم کر لو تاب ِ وحشت کسی صحرا ، کسی زنداں میں نہیں اِس قدر چارہ گری وقت کے امکاں میں نہیں خاطر ِ جاں کے قرینے تو کہاں آئیں گے صرف یہ ہو گا کہ احباب بچھڑ جائیں گے گھر جو اُجڑے تو سنورتے نہیں دیکھے اب تک ایسے...
  18. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی دیدنی ۔ مصطفیٰ زیدی (میری پلکوں کو مت دیکھو)

    دیدنی میری پلکوں کو مت دیکھو اِن کا اٹھنا، اِن کا جھپکنا، جسم کا نامحسوس عمل ہے میری آنکھوں کو مت دیکھو اِن کی اوٹ میں شامِ غریباں، اِن کی آڑ میں دشتِ ازل ہے میرے چہرے کو مت دیکھو اِس میں کوئی وعدہء فردا، اس میں کوئی آج نہ کل ہے اب اُس دریا تک مت آؤ جس کی لہریں ٹوٹ چکی ہیں اُس سینے سے لو نہ...
  19. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تنہا از مصطفیٰ زیدی

    تنہا میں وہی قطرۂ بے بحر وہی دشت نورد اپنے کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے صحرا کا طلسم اپنے سینے میں چھپائے ہوئے سیلاب کا درد ٹوٹ کر رشتۂ تسبیح سے آ نکلا ہوں دل کی دھڑکن میں برستے ہوئے لمحوں کا خروش میری پلکوں پہ بگولوں کی اڑائی ہوئی گرد لاکھ لہروں سے اٹھا ہے مری فطرت کا خمیر لاکھ قلزم مرے سینے میں...
  20. رند

    مصطفیٰ زیدی میرے محبوب وطن کی گلیو! ۔ مصطفیٰ زیدی

    میرے محبوب وطن کی گلیو! تم کو اور اپنے دوستوں کو سلام اپنے زخمی شباب کو تسلیم اپنے بچپن کے قہقہوں کو سلام عمر بھر کے لیے تمھارے پاس رہ گئی ہے شگفتگی میری آخری رات کے اداس دیو! یاد ہے تم کو بے بسی میری؟ یاد ہے تم کو جب بھلائے تھے عمر بھر کے کیے ہوئے وعدے رسم و مذہب کی اک بچارن نے ایک چاندی کے...
Top