مصطفیٰ زیدی

  1. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی جسم کی بےسود پکار

    جسم کی بےسود پکار آج تو مڑ کے بھی اس نے نہیں دیکھا ساتھی ورنہ اس راہ پہ ، ذرات ہیں پامال جہاں اس کی آنکھوں میں تھی انجان ستاروں کی تلاش کھیلتے ، گھومتے ، گمگارتے دھاروں کی تلاش جھومتے ، ڈولتے ، خاموش اِشاروں کی تلاش آج آنکھوں میں تڑپ تھی نہ اِشارہ ساتھی یہ نہیں ہے کہ اسے شوقِ خود آرائی...
  2. غزل قاضی

    فاصلہ

    فاصلہ (۱) رات آئی تو چراغوں نے لویں اُکسا دیں نیند ٹوٹی تو ستاروں نے لہو نذرکیا کسی گوزے سے دبے پاؤں چلی بادِ شمال کیا عجب اُس کے تبسُّم کی ملاحت مِل جائے خواب لہرائے کہ افسانہ سے افسانہ بنے ایک کونپل ہی چٹک جائے تو پھر جام چلے دیر سے صُبحِ بہاراں ہَے نہ شامِ فردوس وقت کو فکر ، کہ وُہ...
  3. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی کبھی جِھڑکی سے کبھی پیار سے سمجھاتے رہے

    کبھی جِھڑکی سے کبھی پیار سے سمجھاتے رہے ہم گئی رات پہ دل کو لیے بہلاتے رہے اپنے اخلاق کی شہرت نے عجب دن دکھلائے وہ بھی آتے رہے ، احباب بھی ساتھ آتے رہے ہم نے تو لُٹ کے محّبت کی روایت رکھ لی اُن سے تو پوچھیے وُہ کس لیے پچھتاتے رہے اُس کے تو نام سے وابستہ ہے کلیوں کا گداز آنُسوؤ تم سے...
  4. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی اب تک ہمارے ساتھ رفیقانِ جستجو

    اب تک ہمارے ساتھ رفیقانِ جستجو کچھ موت ، کچھ حیات کے ہمراہ آئے تھے ہم ایسے بد نصیب کہ میخانہ دیکھنے یاروں کے التفات کے ہمراہ آئے تھے یوں ہم کہاں ، شراب کہاں لیکن ایک شام کچھ یار دوست ساتھ تھے کچھ ہم اداس تھے اس کی نظر کے فیض سے غم اور بڑھ گیا پہلے بھی تھے اداس مگر کم اداس تھے ( مصطفیٰ...
  5. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی ہُوئی ایجاد نئی طرزِ خوشامد کہ نہیں

    غزل ہُوئی ایجاد نئی طرزِ خوشامد کہ نہیں کل کا آئین ہے اب تک سرِ مسند کہ نہیں آگئی اے مِرے سائے سے بھی بچنے والی رفتہ رفتہ ترے اقرار کی سرحد کہ نہیں نہر خوں ہو چکی ، فرہاد کی مزدوری کو اب کے تیشے سے ملی قیمتِ ساعد کہ نہیں ناصحا اس لئے میں گوش بر آواز نہ تھا تری آواز سے چھوٹا ہے ترا قد...
  6. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی ہم کافروں کی مشقِ سُخَن ہائے گُفتَنی

    ہم کافروں کی مشقِ سُخَن ہائے گُفتَنی اُس مرحلے پہ آئی کہ اِلہام ہو گئی دُنیا کی بےاُصول عداوت تو دیکھئے ہم بُوالہوس بنے تو وفا عام ہو گئی کل رات، اُس کے اَور مِرے ہونٹوں میں تیرا عکس اَیسے پڑا کہ رات تِرے نام ہو گئی (مصطفیٰ زیدی از قبائے سَاز )
  7. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی اپسراؤں کا گیت

    اپسراؤں کا گیت ( ایک ریویو ) (۱) آج کی رات بھی کٹ گئی جھومتی مسکراتی ہوئی اب کی برسات بھی کَٹ گئی زخم دھونے کی فرصت ملے کاش وہ فصل بھی آسکے جس میں رونے کی فرصت ملے (۲) ہم نے جو کچھ کہا، ہو گیا وقت قدموں سے لپٹا رہا فاصلہ راہ میں سو گَیا رنگ و رَم سے بھی الجھے کوئی کوئی پتھر ،...
  8. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی تیرے چہرے کی طرح اور مرے سینے کی طرح

    تیرے چہرے کی طرح اور مرے سینے کی طرح میرا ہر شعر دمکتا ہے نگینے کی طرح پُھول جاگے ہیں کہیں تیرے بدن کی مانند اوس مہکی ہے کہیں تیرے پسینے کی طرح اَے مُجھے چھوڑ کے طُوفان میں، جانیوالی دوست ہوتا ہے تلاطم میں سفینے کی طرح اَے مرے غم کو زمانے سے بتانے والی میں ترا راز چُھپاتا ہوں دفینے کی طرح...
  9. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی منزل منزل

    منزل منزل آج کیوں میرے شب و روز ہیں محرُوم ِ گُداز اَے مِری رُوح کے نغمے مِرے دِل کی آواز اِک نہ اِک غم ہے نشاطِ سحروشام کے ساتھ اَور اِس غم کا مفہُوم نہ مقصد نہ نہ جَواز مَیں تو اِقبال کی چوکھٹ سے بھی مایُوس آیا میرے اَشکوں کا مداوا نہ بدخشاں نہ حِجاز چند لمحوں سے تمنّا کہ دوامی بن جائیں ایک...
  10. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی شطرنج

    عزیز دوست مرے ذہن کے اندھیرے میں ترے خیال کے دیپک بھٹک رہے ہیں ابھی کہاں سے ہو کے کہاں تک حیات آ پہنچی اداس پلکوں پہ تارے چھلک رہے ہیں ابھی ترے جمال کو احساسِ درد ہو کہ نہ ہو بجھے پڑے ہیں ترانے ستار زخمی ہیں حیات سوگ میں ہے بےزبان دل کیطرح کہ نوجوان امنگوں کے ھَار زخمی ہیں مرے رفیق...
  11. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی جیل

    جیل آج کی رات ہر اک گھر کا یہی عالِم ہے آج کی رات ہر اک گھر میں صفِ ماتم ہے ماتمی ہات فقط سینہ زنی جانتے ہیں ماتمی ہاتوں سے زنجیر نہیں کٹ سکتی اور زنجیر کٹے بھی تو فَصیلِ زنداں ایسی مُحکم ہے کہ رستے سے نہیں ہٹ سکتی اور ہٹ جائے بھی بالفرض تو اس کے آگے اور زِنداں ہے جو اِس سے بھی بڑا...
  12. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی ہار جِیت

    ہار جِیت میری بن جانے پہ آمادہ ہے وُہ جانِ حیات جو کِسی اَور سے پیمانِ وفا رکھتی ہے میرے آغوش میں آنے کے لئے راضِی ہے جو کِسی اور کو سِینے میں چھپا رکھتی ہے شاعرِی ہی نہیں کُچھ باعثِ عزّت مُجھ کو اَور بہت کُچھ حَسَد و رشک کے اسباب میں ہے مجھ کو حاصِل ہے وُہ معیارِ شب و روز کہ جو اُس کے...
  13. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی آں دِلے کہ ما داریم

    آں دِلے کہ ما داریم صبا کے ساتھ ہمارا خرام بھی ہوگا کبھی تو عصرِ رواں تیز گام بھی ہوگا ہرا ہے زخمِ جگر ، لالہ فام بھی ہوگا تمھاری سال گرہ پر خواص آتے تھے سُنا ہے اب کی برس جشنِ عام بھی ہوگا ہماری نظم کی سارے جہاں میں شُہرت ہَے ہمارے ساتھ رہو گے تو نام بھی ہوگا تمھارے وقت کا ٹھرا ہُوا...
  14. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی آواز کے سائے

    آواز کے سائے خبر نہیں تم کہاں ہو یارو ہماری اُفتادِ روز و شب کی تمہیں خبر مِل سکی ، کہ تم بھی رہینِ دستِ خزاں ہو یارو دِنوں میں تفرِیق مِٹ چُکی ہے کہ وقت سے خُوش گُماں ہو یارو ابھی لڑکپن کے حوصلے ہیں کہ بے سروسائباں ہو یارو ہماری اُفتادِ روز و شب کی نہ جانے کتنی ہی بار اب تک دھنک...
  15. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی

    واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی غم تیشہء فرہاد بھی غم سنگِ گراں بھی اُس شخص سے وابستہ خموشی بھی بیاں بھی جو نِشترِ فصّاد بھی ہے اَور رگِ جاں بھی کِس سے کہیں اُس حُسن کا افسانہ کہ جِس کو کہتے ہیں کہ ظالم ہے، تو رُکتی ہے زباں بھی ہاں یہ خمِ گردن ہے یا تابانیء افشاں پہلو میں مِرے قوس...
  16. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی شیریں زبانیوں کے دریچے اُجڑ گئے

    شیریں زبانیوں کے دریچے اُجڑ گئے وہ لُطفِ حرف و لذّتِ حسنِ بیاں کہاں پیچھے گُزر گئی ہے سِتاروں کی روشنی یارو ، بسا رہے ہو نئی بستیاں کہاں اے منزلِ ابد کے چراغو ، جواب دو آگے اب اور ہو گا مرا کارواں کہاں ہر شکل پر فرشتہ رُخی کا گمان تھا اُس عالمِ جنوں کی نظر بندیاں کہاں بن جائے گی...
  17. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی غزل : عشقَ بُتاں اس فکرِ معاش پر اپنا رنگ جماتا کیا

    غزل عشقَ بُتاں اس فکرِ معاش پر اپنا رنگ جماتا کیا ہم نے مانا کُنّبہ دِلّی میں رہتا پر کَھاتا کیا پہلی بار کے عشق میں ایسا دیوانہ پن ممکن ہے روز کی اس شوریدہ سری پر کوئی ہمیں سمجھاتا کیا دو دن کی یہ محفل ساقی رندوں سے ہنّس بول کے کاٹ ہم پھر اپنی راہ لگیں گے تیرا ہمارا ناتا کیا یوں تو...
  18. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی بازار

    بازار وُہی ذِمہ دارانِ نامُوسِ اُمّت ، وُہی حامیانِ حَرَم بِک چُکے ہیں جو لَوح و قلم کی حِفاظَت کو نِکلے تھے خُود اُن کے لَوح و قلم بِک چُکے ہیں خطِیبانِ بزمِ صَفا لُٹ گئے ہیں ، حرِیفانِ بَیتُ الصَّنم بِک چُکے ہیں کُچھ آدرش خندہ بہ لَب مر گئے ہیں ، کُچھ افکار با چشمِ نم بِک چُکے ہیں...
  19. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی جرمنی

    جرمنی میں نے کب جنگ کی وحشت کے قصیدے لکھے میں نے کب امن کے آہنگ سے انکار کیا میں نے تو اپنے سرِ دامنِ دل کو اب تک کبھی پُھولوں ، کبھی تاروں کا گنہگار کیا اے مری روحِ طرب میں نے ہر عَالم میں جب بھی تو آئی ترے پَیار کا اقرار کیا لیکن اس دیس کے آہنگِ گراں بار میں بھی وہی نغمہ ہے جو شب...
  20. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی آسماں زرد تھا

    آسماں زرد تھا اے کلی تجھ کو ہمارا بھی خیال آ ہی گیا ہم تو مایوس ہوئے بیٹھے تھے صحراؤں میں اب ترا روپ بھی دُھندلا سا چلا تھا دل میں تو بھی اک یاد سی تھی جُملہ حسیناؤں میں تہ بہ تہ گرد سے آلود تھا دن کا دامن رات کا نام نہ آتا تھا تمناؤں میں رقصِ شبنم کی پرستار نگاہوں کے لئے دُھوپ کے اَبر...
Top