مصطفیٰ زیدی

  1. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی حسن ِ ظن تو نہیں اگر یہ کہوں

    حسن ِ ظن تو نہیں اگر یہ کہوں میں بھی تھوڑا شعور رکھتا ہوں خصلتا" چُپ ہے تیرا جذباتی ورنہ کیا بات کر نہیں آتی میری نظموں کا ہے ہر اک انداز میرے پورے وجود کی آواز اک خلا کی صؔدا نہیں ہوں میں ہڈیاں بھی ہیں پھیپھڑے بھی ہیں دِل پُرخوں ہے میری اِک اِک رَگ شاعرانہ مبالغوں سے الگ میرے لہجے...
  2. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی صنم خانے

    صنم خانے سچ یہ ہے کہ وہ غم بھی رہا شاملِ امروز جس غم میں نہ تخلیق نہ تعمیر نہ پرواز جو گنبدِ آفاق کی ہمرَاز رہی تھی دیوار سے ٹکرا کے پلٹ آئی وہ آواز اب سنگِ سُبک مایہء زنداں بھی نہیں ہیں آئینہء زلف و لب و مژگاں تھے جو الفاظ جس طبع کے دامن میں تھے اٹھتے ہوئے خورشید وہ ڈوبتے مہتاب کی...
  3. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی اِنقلاب

    اِنقلاب یُوں ہَوا مُنتظِرِ ساعتِ نو ہے جیسے ایک اِک لمحے کی آواز شبستاں بن جائے ایک اِک لمحہ دبے پاؤں بڑھا آتا ہے کاش یہ سخت زمیں ابرِ خراماں بن جائے قُفلِ زنداں کی ابھی آنکھ لگی ہے شاید آنکھ کُھل جائے، تو ہر خواب بیاباں بن جائے ایک اِک سانس پہ ہے ساعتِ فردا کا مدار پُھول بن جائے کہ...
  4. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی فرار

    فرار اِس سے پہلے کہ خرابات کا دروازہ گرے رقص تھم جائے ، اداؤں کے خزانے لُٹ جائیں وقت کا درد ، نگاہوں کی تھکن ، ذہن کا بوجھ نغمہ و ساغر و اِلہام کا رُتبہ پا لے کونپلیں دُھوپ سے اک قطرہ ء شبنم مانگیں سنگساری کا سزاوار ہو بلّور کا جِسم دِل کے اُجڑے ہوئے مندر میں وفا کی مِشعل مصلحت...
  5. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی شہکار کی بات

    شہکار کی بات آج آئی ہے لب ِ سَاز پہ جھنکار کی بات اس میں پیکار کے قصّے ہیں نہ تلوار کی بات صرف اک گمشدہ فردوس کا افسانہ ہے صرف اک پاس سے گذرے ہوئے کردار کی بات تیری نظروں میں روایات کی سَلمائیں ہیں جیسے بچوں کی بتائی ہوئی بازار کی بات جیسے پربت کی بلندی سے زمیں کے مینار جیسے اک...
  6. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی ایک نوحہ

    ایک نوحہ ایک تاریک ستارہ ہے اُفق پر غلطاں اک الم ناک خموشی ہے پسِ پردہ ء ساز یہ اندھیرے میں کِسے شوقِ پزیرائی ہے یہ خلاؤں میں کِسے ڈھونڈھ رہی ہے آواز مرہمِ لُطف و وفا تجھ کو کہاں آئے زخم ہم سفر تجھ کو کہاں لے گئی تیری پرواز زندگی نغمہ و آہنگ تھی تیرے دم سے موت نے چھین لیا کیسے تِرے...
  7. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی تِری ہنسی

    تِری ہنسی فلک کا ایک تقاضا تھا ابنِ آدم سے سُلگ سُلگ کے رہے اَور پلک جھپک نہ سکے ترس رہا ہو فضا کا مہیب سنّاٹا سڈول پاؤں کی پائل مگر چھنک نہ سکے کلی کے اذنِ تبّسم کے ساتھ شرط یہ ہے کہ دیر تک کسی آغوش میں مہک نہ سکے میں سوچتا ہُوں کہ یہ تری بےحجاب ہنسی ! مِزاجِ زِیست سے اِس درجہ مُختلِف...
  8. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی تَشَکُّک

    تَشَکُّک مُجھ کو دیے اکثر خداؤں نے بہ طَور ِ پیش کش دُنیا و دیں مَیں ، مُصطفٰے زیدی ، ضعِیفُ الاعتقاد و کم یقیں لیکن نہیں اَے پڑھنے والو تم کو شاید اِس کا اندازہ نہیں جِن راستوں سے ہو کے آیا ہے یہ دَور ِ آخریں اِس میں مِلے صَحرا ، بگُولے ، دشت ، دریا ، آگ ، نَفرت ، تِیرَگی اِلحان ،...
  9. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی نگر نگر میلے کو گئے کون سُنے گا تیری پُکار

    نگر نگر میلے کو گئے کون سُنے گا تیری پُکار اے دل ، اے دیوانے دل ! دیواروں سے سر دے مار رُوح کے اس ویرانے میں تیری یاد ہی سب کچھ تھی آج تو وہ بھی یوں گزری جیسے غریبوں کا تیوہار اُس کے وار پہ شاید آج تجھ کو یاد آئے ہوں وُہ دِن اے نادان خلوص کہ جب وہ غافل تھا ہم ہُشیار پل پل صدیاں بیت گئیں...
  10. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی کسی تو کام زمانے کے سوگوار آئے

    کسی تو کام زمانے کے سوگوار آئے تجھے جو پا نہ سکے زیست کو سنّوار آئے تھا جس پہ وعدہ ء فردوس و عاقبت کا مدار وہ رات ہم سر ِ کوئے بُتاں گزار آئے ترے خیال پہ شب خوں تو خیر کیا کرتے بہت ہُوا تو اک اوچھا سا ہات مار آئے متاع ِ دل ہی بچی تھی بس اک زمانے سے سو ہم اسے بھی تری انجمن میں ہار آئے...
  11. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی آؤ کسی اداس ستارے کے پاس جَائیں

    آؤ کسی اداس ستارے کے پاس جَائیں دریائے آسماں کے شکارے کے پاس جائیں اس سے بھی پوچھ لیں کہ گزرتی ہے کس طرح یارو کبھی کسی کے سہارے کے پاس جائیں مٹھی میں لے کے دل میں بٹھا لیں جو ہو سکے اک ناچتی کِرن کے شرارے کے پاس جائیں اس مہ جبیں کی یاد بھی باقی نہیں رہی کس منہ سے چاندنی کے نظارے کے...
  12. فاتح

    مصطفیٰ زیدی نظم "سپردگی"۔۔۔ از مصطفیٰ زیدی

    سپردگی میں ترے راگ سے اس طرح بھرا ہوں جیسے کوئی چھیڑے تو میں اک نغمۂ عرفاں بن جاؤں ذہن ہر وقت ستاروں میں رہا کرتا ہے کیا عجب میں بھی کوئی کرمکِ حیراں بن جاؤں رازِ بستہ کو نشاناتِ خفی میں پڑھ لوں واقفِ صورتِ ارواحِ بزرگاں بن جاؤں دیکھنا اوجِ محبّت کہ زمیں کے اوپر ایسے چلتا ہوں کہ چاہوں تو...
  13. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی سفر کو نکلے تھے ہم جس کی رہ نمائی پر

    سفر کو نکلے تھے ہم جس کی رہ نمائی پر وُہ اِک سِتارہ کِسی اور آسماں کا تھا جِسے ہم اپنی رگ ِ جاں بنائے بیٹھے تھے وُہ دوست تھا ، مگر اِک اور مہربان کا تھا عجیب دِن تھے کہ با وصف ِ دُوریؑ ساغر گمان نشّے کا تھا اور نشہ گمان کا تھا بس ایک صُورت ِ اخلاق تھی نگاہ ِ کرم بس ایک طرز ِ تکلّم مزا...
  14. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی اس قدر اَب غم ِ دَوراں کی فراوانی ہے

    اس قدر اَب غم ِ دَوراں کی فراوانی ہے تُو بھی مِنجُملہ ء اسباب ِ پریشانی ہے مُجھ کو اِس شہر سے کُچھ دُور ٹھر جانے دو میرے ہمراہ مِری بےسروسامانی ہے آنکھ جُھک جاتی ہے جب بند ِ قبا کُھلتے ہیں تُجھ میں اُٹھتے ہُوئے خُورشید کی عُریانی ہے اِک تِرا لمحہ ء اقرار نہیں مر سکتا اَور ہر لمحہ زمانے کی...
  15. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی لانیحل

    لانیحل زباں پہ مُہر گدائی ہے ، کِس سے بات کروں حُروف کاسہؑ بےمایہ ہیں ، قلم کشکول ضمیر بےحِس و حرکت ہے زیست بےپہلُو شِکَن ہے دامَن ِ ہستی میں ، آستِین پہ جھول مَیں خود طِلسم کی پریوں سے بےکِنار ہؤا کِسے کہوں کہ مِری رُوح کے دریچے کھول میں اِک سراب کی خواہش پہ بیچ آیا ہُوں تمام بادہ و...
  16. بلال جلیل

    مصطفیٰ زیدی آخری بار مِلو

    آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل راکھ ہوجائیں، کوئی اور تقاضا نہ کریں چاک وعدہ نہ سِلے، زخمِ تمنّا نہ کِھلے سانس ہموار رہے شمع کی لَو تک نہ ہِلے باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آکر گِن جائیں آنکھ اٹھائے کوئی اُمید تو آنکھیں چھن جائیں اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں جس سے اِک اور ملاقات...
  17. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی یوں تو وہ ہر کسی سے ملتی ہے

    یوں تو وہ ہر کسی سے ملتی ہے ہم سے اپنی خوشی سے ملتی ہے سیج مہکی بدن سے شرما کر یہ ادا بھی اسی سے ملتی ہے وہ ابھی پھول سے نہیں ملتی جوہئیے کی کلی سے ملتی ہے دن کو یہ رکھ رکھاؤ والی شکل شب کو دیوانگی سے ملتی ہے آج کل آپ کی خبر ہم کو ! غیر کی دوستی سے ملتی ہے شیخ صاحب کو روز کی روٹی رات...
  18. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی اَے دَور ِ کور پرور

    اَے دَور ِ کور پرور اَب وُہ خوشی نہ وُہ غم ، خنداں ہیں اَب نہ گِریاں کِس کِس کو رو چُکے ہیں اَے حادثات ِ دوراں ترتیب ِ زندگی نے دُنیا اُجاڑ دی ہے اَے چشم ِ لا اُبالی اَے گیسُوئے پریشاں دِن رات کا تسلسل بے ربط ہو چکا ہے اب ہم ہیں اَور خموشی یا وحشت ِ غزالاں یا دِن کو خاک ِ صحرا یا شب کو...
  19. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی فن کے گاہک محو ہیں تکرار میں

    فن کے گاہک محو ہیں تکرار میں ہم تماشائی ہیں اس بازار میں تیرے خدّ و خال سے ملتی ہوئی شکل تھی اک روح کے معیار میں جِھلملائیں پہلے پلکوں کے اُدھر پھر وُہ شمعیں جاگ اٹھیں رخسار میں فتح کے احساس میں گم تھا نیاز آنسوؤں کی آنچ تھی پندار میں سب نے اس کے حکم پر سجدے کئے ہم اکیلے رہ گئے...
  20. غزل قاضی

    مصطفیٰ زیدی حمد

    حمد ہم نے اُس قوّت ِ موہُوم کو دیکھا نہ سُنا ہم نے اُس گوہر ِ نادیدہ کو پرکھا نہ چُنا اِک سواری کہ شناسا نہ تھی ، گھر پر اُتری اِک تجلّی تھی کہ تہذیب ِ نظر پر اُتری جلوے دیکھے جو کبھی شامل ایماں بھی نہ تھے اَور ہم اَیسے تن آساں تھے کہ حیراں بھی نہ تھے دِل کے آغوش میں اک نُور...
Top