سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام
ہر سر میں اِک رنگ دھنک کا تیرے نام
جنگل جنگل اڑنے والے سب موسم
اور ہوا کا سبز دوپٹہ تیرے نام
ہجر کی شام اکیلی رات کے خالی در
صبحِ فراق کا درد اجالا تیرے نام
تیرے بنا جو عمر بتائی بیت گئی
اب اس عمر کا باقی حصہ تیرے نام
جتنے خواب خدا نے میرے نام لکھے...
آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے
اس بت سے عشق کیجیے لیکن کچھ اس طرح
پوچھے کوئی تو صاف مُکر جانا چاہیے
مجھ سے بچھڑ کے ان دنوں کس رنگ میں ہے وہ
یہ دیکھنے رقیب کے گھر جانا چاہیے
جس شام شاہزادی فقیروں کے گھر میں آئے
اُس شام وقت کو بھی ٹھہر جانا چاہیے
ربِّ وصال،...
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں
ترکِ محبت، ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں
دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں
سناٹا جب تنہائی کے زہر میں گھلتا ہے
وہ گھڑیاں...
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ زنجیر
اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں
بے نیازی سے سبھی قریہء جاں سے گزرے
دیکھتا کوئی نہیں...
ہر چند سہارا ہے ، تیرے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ، ایک عجب خوف سا دل کو
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی ، لے اڑا نیندیں
وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی ، کھا گیا دل کو
یاں سانس کا لینا بھی ، گذر جانا ہے جی سے
یاں معرکہِ عشق بھی ، ایک کھیل کا دل کو
وہ آئیں تو حیراں ، وہ جائیں تو پریشاں
یارب...
مجھے آئی نہ جگ سے لاج -- میں اتنے زور سے ناچی آج
کہ گھنگرو ٹوٹ گئے
کچھ مجھ پہ نیا جوبن بھی تھا
کچھ پیار کا پاگل پن بھی تھا
کبھی پلک پلک مری تیر بنی
کبھی زلف مری زنجیر بنی
لیا دل ساجن کا جیت -- وہ چھیڑے پایلیا نے گیت
کہ گھنگرو ٹوٹ گئے
میں بسی تھی جس کے سپنوں میں
وہ گِنے گا اب مجھے اپنوں میں...
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی، مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خط ہوا
مجھے آپ کیوں...
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
اے درد بتا کچھ تُو ہی بتا! اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بےتاب نہاں یا آپ دلِ دلِ بےتاب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا، خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے، آ! کچھ بھی نہیں...
پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) نے موسیقی کے حوالے سے بہت گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، کلاسیکی موسیقی سے لیکر گیتوں تک بے شمار لاجواب چیزیں کمپوز ہوئی ہیں۔
انہی میں سے فریدہ خانم کا ایک خوبصورت گیت "میں نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں" حاضر ہے۔ وہ سامعین جنہوں نے پی ٹی وی کا "ضیائی" دور دیکھا ہے...
مُنی بیگم ایک اچھی گلوکارہ ہیں گو ذاتی طور پر مجھے بہت زیادہ پسند نہیں ہیں، لیکن انکی کچھ آئیٹمز ایسی ہیں کہ بس لاجواب۔ انہی میں سے ایک غزل آپکے ساتھ شیئر کر رہا ہوں:
لذّتِ غم بڑھا دیجیئے
آپ یوں مسکرا دیجیئے
بہت خوبصورت غزل ہے، سماعت فرمائیے (فائل سائز 6٫10 ایم بی)...
یہ غزل میں نے بہت عرصہ (پندرہ، سولہ سال) پہلے سنی تھی اور بہت اچھی لگی تھی۔ اتفاق سے مل گئی ہے سو شیئر کر رہا ہوں۔ غلام علی نے بہت دل دلکش انداز سے گایا ہے۔
بہاروں کو چمن یاد آ گیا ہے
مجھے وہ گلبدن یاد آ گیا ہے
لچکتی شاخ نے جب سر اٹھایا
کسی کا بانکپن یاد آ گیا ہے
تری صورت کو جب دیکھا ہے...
غزل - تیری باتیں ہی سنانے آئے (آڈیو)
شاعر - احمد فراز
گلوکارہ - نور جہاں
فائل سائز - 4٫95 ایم بی
مکمل غزل پڑھیئے۔
http://www.divshare.com/download/4407765-c3a
فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
آئنہ تو...
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار مرا
سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا
صبحدم چھوڑ گیا نکہتِ گل کی صورت
رات کو غنچہء دل میں سمٹ آنے والا
کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا
تیرے...
زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا
تو ملا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھ کو
یہ میری عمر محبت کے لیے تھوڑی ہے
اک ذرا سا غمِ دوراں کا بھی حق ہے جس پر
میں نے وہ سانس بھی تیرے لیے رکھ چھوڑی ہے
تجھ پہ ہو جاؤں گا قربان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی...
گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل
ایک سمے ترا پھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر
ایک یہ وقت کہ میں تنہا اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل...