یہ غزل یوں تو انٹرنیٹ پر کئی ایک جگہ پر کئی بلاگز پر مل جائے گی۔ لیکن مکمل کہیں بھی نہیں۔ میں نے اپنے بلاگ پر مکمل شائع کی تو سوچا محفل میں بھی مکمل پیش کر دی جائے۔
ضبط کر کے ہنسی کو بُھول گیا
میں تو اُس زخم ہی کو بُھول گیا
ذات در ذات ہمسفر رہ کر
اجنبی، اجنبی کو بُھول گیا
صبح تک وجہِ جانکنی...
سُکھاں نے ہڑتال اے کیتی
تَرنا دِتّا دُکّھاں نیں
سُوچاں نیں اے ریلی کڈی
جلسہ کیتا اے پُکّھاں نیں
سَاوَاں ہتھوں سمجھوں ہُن
حکومت چُھٹن والی اے
صدراں والی صابرؔ یار
اسمبلی ٹُٹّن والی اے
صابر علی صابر
اک دے مگر سی چوکھے لگے
جان بچاون لئی او پجا
وا وا پجا
چوکھا پجا
پر اوناں پِچھا نا چھڈیا
آخر بے وس ھو کے اونیں
لتاں دے وچ پونچھل لے کے
ماڑے ھون دا ترلا پایا
سارے اونوں چھڈ کے ٹر گئے
پر جے اوتھے ۔ ۔ ۔
کتیاں دی تھا بندے ہندے ۔ ۔ ۔ فیر کی ہندا؟؟
صابر علی صابر
یارو! نگہ یار کو، یاروں سے گِلہ ہے
خونیں جگروں، سینہ فگاروں سے گِلہ ہے
جاں سے بھی گئے، بات بھی جاناں کی نہ سمجھی
جاناں کو بہت عشق کے ماروں سے گِلہ ہے
اب وصل ہو یا ہجر، نہ اب تک بسر آیا
اِک لمحہ، جسے لمحہ شماروں سے گِلہ ہے
اُڑتی ہے ہر اک شور کے سینے سے خموشی
صحراؤں کو پُرشور دیاروں سے گِلہ...
ہوکے غلطاں خوں میں، کوئی شہسوار آیا تو کیا
زخم خوردہ بےقراری کو، قرار آیا تو کیا
زندگی کی دھوپ میں مُرجھا گیا میرا شباب
اب بہار آئی تو کیا، ابرِ بہار آیا تو کیا
میرے تیور بُجھ گئے، میری نگاہیں جَل گئیں
اب کوئی آئینہ رُو، آئینہ دار آیا تو کیا
اب کہ جب جانانہ تم کو ہے سبھی پر اعتبار
اب تمہیں...
اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہو گا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے
دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا
وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے
واقفس میں کوئی در خود میرا صیاد کرے
سلب بینائی...
شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم مِلے تمہیں
تم سر بسر خوشی تھے مگر غم مِلے تمہیں
میں اپنے آپ میں نہ ملا اس کا غم نہیں
غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم مِلے تمہیں
ہے جو ہمارا ایک حساب اُس حساب سے
آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم مِلے تمہیں
تم کو جہان شوق و تمنا میں کیا ملا
ہم بھی ملے تو درہم و برہم مِلے تمہیں...
ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دست زمانہ کے زخم کاری لگے
اداسیاں ہوں مسلسل تو دل نہیں روتا
کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیاری لگے
بظاہر ایک ہی شب ہے فراق یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
علاج اس دل درد آشنا کا کیا کیجئے
کہ تیر بن کے جسے حرف غمگساری لگے
ہمارے پاس...
دل کا دیار خواب میں، دور تلک گزر رہا
پاؤں نہیں تھے درمیاں، آج بڑا سفر رہا
ہو نہ سکا کبھی ہمیں اپنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا، لوح خیال پر رہا
نقش گروں سے چاہیے، نقش و نگار کا حساب
رنگ کی بات مت کرو، رنگ بہت بکھر رہا
جانے گماں کی وہ گلی ایسی جگہ ہے کون سی
دیکھ رہے ہو تم کہ میں، پھر وہیں...
ہر خراش نفس ، لکھے جاؤں
بس لکھے جاؤں ، بس لکھے جاؤں
ہجر کی تیرگی میں روک کے سانس
روشنی کے برس لکھے جاؤں
ان بسی بستیوں کا سارا لکھا
ڈھول کے پیش و نظر پس لکھے جاؤں
مجھ ہوس ناک سے ہے شرط کہ میں
بے حسی کی ہوس لکھے جاؤں
ہے جہاں تک خیال کی پرواز
میں وہاں تک قفس لکھے جاؤں
ہیں خس و خار دید ،...
عشق کی مار بڑی دردیلی عشق میں جی نہ پھنسانا جی
سب کچھ کرنا، عشق نہ کرنا، عشق سے جان بچانا جی
وقت نہ دیکھے، عمر نہ دیکھے، جب چاہے مجبور کرے
موت اور عشق کے آگے تو کوئی چلے نہ بہانہ جی
عشق کی ٹھوکر موت کی ہچکی دونوں کا ہے ایک اثر
ایک کرے گھر گھر رسوا، ایک کرے افسانہ جی
عشق کی نعمت پھر بھی...
سرکار! اب جنوں کی ہے سرکار کچھ سنا
ہیں بند سارے شہر کے بازار کچھ سنا
شہر قلندراں کا ہوا ہے عجیب طور
سب ہیں جہاں پناہ سے بیزار کچھ سنا
مصروف کوئی کاتبِ غیبی ہے روز و شب
کیا ہے بھلا نوشتۂ دیوار کچھ سنا
آثار اب یہ ہیں کہ گریبان شاہ سے
الجھیں گے ہاتھ برسرِ دربار کچھ سنا
اہل ستم سے معرکہ آرا...
تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا
مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا
طرفہ عذاب لائے گی اب اس کی بددعا
دروازہ جس پہ شہر کا کوئی کھلا نہ تھا
شامل تو ہوگئے تھے سبھی اک جلوس میں
لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا
آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا
جو...
اک دیہاڑے انکھاں والا اک مزدور
سڑک کنارے
وانگ کبوتر اکھاں میٹی
تیلے دے نال ماں دھرتی دا سینہ پھولے
خورے کنک دادا نہ لبھے
رمبا کہئی تے چھینی ہتھوڑا
گینتی اپنے اگے دھر کے
چوری اکھیں ویکھ کے اپنے آل دوالے
کر کے موہنہ اسماناں ولے
ہولی ہولی بھیڑے بھیڑے اکھر بولے
اچی اچی
اچیا ربا، سچیا ربا، چنگیا ربا...
آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا
جس راہ پر پڑے تھے ترے پاؤں کے نشاں
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا
چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے
نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا
ہر بار ہے نیا ترے ملنے کا ذائقہ
ایسا ثمر کسی بھی شجر نے نہیں دیا
اتنے بڑے جہان میں جائے...
خبر اب تو لے بے مروت کسی کی
چلی جان تیری بدولت کسی کی
مجھے حشر میں پیش داور جو دیکھا
ذرا سی نکل آئی صورت کسی کی
خدا کے لئے یوں نہ ٹھکرا کے چلئے
کہ پامال ہوتی ہے تربت کسی کی
ذرا روٹھ جانے پہ اتنی خوشامد
قمرتم بگاڑو گے عادت کسی کی
چونکہ اس کا مقطع بہت مشہور ہے۔ لہذا غالب گمان تھا کہ محفل میں...
آخر وہ میرے قد کی بھی حد سے گزر گیا
کل شام میں تو اپنے ہی سائے سے ڈر گیا
مٹھی میں بند کیا ہوا بچوں کے کھیل میں
جگنو کے ساتھ اس کا اجالا بھی مر گیا
کچھ ہی برس کے بعد تو اس سے ملا تھا میں
دیکھا جو میرا عکس تو آئینہ ڈر گیا
ایسا نہیں کہ غم نے بڑھا لی ہو اپنی عمر
موسم خوشی کا وقت سے پہلے گزر...
گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے
اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے
ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی
جام ہوں گے چھلک گئے ہوں گے
وہ بھی اب ہم سے تھک گیا ہو گا
ہم بھی اب اس سے تھک گئے ہوں گے
شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے
کتنے ہی لوگ حرص شہرت میں
دار پر خود لٹک گئے ہوں گے
شکر ہے اس...
راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع
تو میری جانِ جاں سو مری جان الوداع
میں تیرے ساتھ بجھ نہ سکا حد گزر گئی
اے شمع! میں ہوں تجھ سے پشیمان الوداع
میں جا رہا ہوں اپنے بیابانِ حال میں
دامان الوداع! گریبان الوداع
اِک رودِ نا شناس میں ہے ڈوبنا مجھے
سو اے کنارِ رود ، بیابان الوداع
خود اپنی اک...
کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے
یہ تو آشوب ناک صورت ہے
انجمن میں یہ میری خاموشی
بُردباری نہیں ہے وحشت ہے
تجھ سے یہ گاہ گاہ کا شکوہ
جب تلک ہے بسا غنیمت ہے
خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
یہ اذیت بڑی اذیت ہے
لوگ مصروف جانتے ہیں مجھے
یاں میرا غم ہی میری فُرصت ہے
سنگ پیرائے تبسم میں
اس تکلف کی کیا...