تیرے ابرووںکی حسیںکماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم ، نہ کشش ہلال کے خم سے کم
نہ ستا مجھے ، نہ رلا مجھے ، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے ، تری کائناتِ ستم سے کم
یہ کرم ہے کم سرِ انجمن کہ پلائی اس نے مئے سخن
مجھے پاس اپنے بلا لیا ، رہی بات میری تو کم سے کم...
آج بروز جمعۃ المبارک ، سید نصیر الدین نصیر انتقال فرما گئے ہیں۔
ان کی نمازِ جنازہ بروز ہفتہ گولڑہ شریف میں ادا کی جائے گی۔
سخنِ سید نصیر الدین نصیر
عکسِ سید نصیر الدین نصیر
جنازہِ سید نصیر الدین نصیر --- تصاویر
سید نصیر الدین نصیر
نگینوں کی تلاش
از صاحبزادہ پیر سید ظفر قادری
غزلیاتِ نصیر گولڑوی
ڈاکٹر سید عبد اللہ مرحوم
تخلیقاتِ نصیر
دستاویزی ویڈیو حصہ اول : سید نصیر الدین نصیر
دستاویزی ویڈیو حصہ دوم : سید نصیر الدین نصیر
نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہلِ ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے
بساطِ بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش ، سُبُو چپ ، اداس پیمانے
یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا
یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے
بھری بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا
مری نگاہ کو کیا ہوگیا خدا جانے
ہے کون بر لبِ...
اے تیر غمت را دلِ عشاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ
مجنوں صفتم در بدر و خانہ بخانہ
شاید کہ بہ بینم رخِ لیلے بہ بہانہ
گہ معتکفِ مسجد و گہ ساکنِ دیرم
یعنی کہ ترا می طلبم خانہ بخانہ
حاجی بہ رہِ کعبہ و من طالبِ دیدار
اُو خانہ ہمی جوید و من صاحبِ خانہ
تقصیرِ ہلالی بامیدِ...
بہت کچھ ہم نے دیکھا دیکھنے کو
رہا دنیا میں اب کیا دیکھنے کو
میں خود اک قدِ آدم آئنہ ہوں
ترا اپنا سراپا دیکھنے کو
کہاں ساحل پہ موجوں کا تبسم
اُنہیں آتا ہے دریا دیکھنے کو
نکل آئے فلک پر چاند سُورج
ترا نقشِ کفِ پا دیکھنے کو
دمِ آخر کروں گا راز اِفشا
مجھے آپ آئیں تنہا دیکھنے کو...
ہم کسی کا گِلا نہیں کرتے
نہ ملیں ، جو ملا نہیں کرتے
چند کلیاں شگفتہ قسمت ہیں
سارے غنچے کھلا نہیں کرتے
جن کو دستِ جنوں نے چاک کیا
وہ گریباں سلا نہیں کرتے
آپ محتاط ہوں زمانے میں
ہر کسی سے ملا نہیں کرتے
جو محبت میں سنگِ میل بنیں
وہ جگہ سے ہلا نہیں کرتے
ناز ہے اُن کو بے وفائی پر...
غمِ ہجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں
جاں بلب ہے ترا بیمار ، سنا ہے کہ نہیں
وہ جو آیا تھا، تو دل لے کے گیا ہے کہ نہیں
جھانک لے سینے میں کم بخت ذرا ، ہے کہ نہیں
مخمصے میں تری آہٹ نے مجھے ڈال دیا
یہ مرے دل کے دھڑکنے کی صدا ہے کہ نہیں
سامنے آنا ، گزر جانا ، تغافل کرنا
کیا یہ دنیا میں...
اٹھے نہ تھے ابھی ہم حالِ دل سنانے کو
زمانہ بیٹھ گیا حاشیے چڑھانے کو
بھری بہار میں پہنچی خزاں مٹانے کو
قدم اٹھائے جو کلیوں نے مسکرانے کو
جلایا آتشِ گُل نے چمن میں ہر تنکا
بہار پھونک گئی میرے آشیانے کو
جمالِ بادہ و ساغر میں ہیں رُموز بہت
مری نگاہ سے دیکھو شراب خانے کو
قدم قدم پہ...
دل کی دھڑکن کہ جاں سے آتی ہے
اُن کی خوشبو ، کہاں سے آتی ہے
حدِ اوہام سے گزر کے کُھلا
خوش یقینی ،گُماں سے آتی ہے
جراتِ بندگیِ ربِ جلیل
بت شکن کی اذاں سے آتی ہے
ایسی طاقت کہ جو نہ ہو تسخیر
دل میں عزمِ جواں سے آتی ہے
اُن کی آواز میرے کانوں میں
آرہی ہے ، جہاں سے آتی ہے
سر کو توفیق سجدہ...
مری نظر سے مکمل بہار گزری ہے
کہ مُسکراتی ہوئی شکلِ یار گزری ہے
غم و الم کے ، اذیت کے ، کرب زاروں میں
تڑپ تڑپ کے شبِ انتظار گزری ہے
نفس نفس پہ چُبھن تھی قدم قدم پہ خلش
تمام عمر سرِ نوکِ خار گزری ہے
قفس میں حال نہ پوچھا صبا نے آکے کبھی
مرے قریب سے بیگانہ وار گزری ہے
سکونِ دل نہ میسر ہوا...
دل خون ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے
آخر کو تعلق ہے اسے دیدہ تر سے
کچھ دیر تو اس قلب شکستہ میں بھی ٹھہرو
یوں تو نہ گزر جاو اس اجڑے ہوئے گھر سے
ہر موج سے طوفانِ حوادث کی حدی خواں
مشکل ہے نکلنا مری کشتی کا بھنور سے
یہ حسن یہ شوخی یہ تبسم یہ جوانی
اللہ بچائے تمہیں بد بیں کی نظر سے...
کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی
نہ وہ ذوق دیدہ وری رہا ، نہ وہ شان جلوہ گری رہی
جو خلش ہو دل کو سکوں ملے ، جو تپش ہو سوز دروں ملے
وہ حیات اصل میں کچھ نہیں ، جو حیات غم سے بری رہی
وہ خزاں کی گرم روی بڑھی تو چمن کا روپ جھلس گیا
کوئی غنچہ سر نہ اٹھا سکا ، کوئی شاخ گل نہ ہری...
جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا
اُسے دل کون کہہ سکتا ہے، وہ دل ہو نہیں سکتا
وہ بندہ ، جس کو عرفاں اپنا حاصل ہو نہیں سکتا
کبھی خاصانِ حق کی صف میں شامل ہو نہیں سکتا
زمیں و آسماں کا فرق ہے دونوں کی فطرت میں
کوئی ذرّہ چمک کر ماہِ کامل ہو نہیں سکتا
محبت میں تو بس دیوانگی ہی کام آتی ہے...
یہ زمانہ یہ دور کچھ بھی نہیں
اک تماشہ ہے اور کچھ بھی نہیں
اک تری آرزو سے ہے آباد
ورنہ اس دل میں اور کچھ بھی نہیں
عشق رسم و رواج کیا جانے
یہ طریقے یہ طور کچھ بھی نہیں
وہ ہمارے ہم ان کے ہو جائیں
بات اتنی ہے اور کچھ بھی نہیں
جلنے والوں کو صرف جلنا ہے
ان کی قسمت میں اور کچھ بھی نہیں...
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تضمینات
برکلام حضرت مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
از شاعر ہفت زباں علامہ پیر سید نصیر الدین نصیر گولڑوی
پیش گفتار
ڈاکٹر توصیف تبسم (بدایونی)
اسلام آباد 3 ربیع الاول 1426 ھجری
پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی کی ان تضمینوں پر جو حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی...
وہ تو بس وعدہء دیدار سے بہلانا تھا
ہم کوآنا تھا یقیں اُن کو مُکر جانا تھا
لاکھ ٹُھکرایا ہمیں تو نےمگر ہم نہ ٹلے
تیرے قدموں سےالگ ہو کےکہاں جانا تھا
جن سے نیکی کی توقع ہو وُہی نام دھریں
ایک یہ وقت بھی قسمت میں مری آنا تھا
بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہوا
لاکھ رنجش سہی اِک عمر کا یارانہ تھا...