ہم سے مستی میں بھی خُم کا نہ گلو ٹوٹ گیا
تجھ سے پر ساقیِ کم ظرف! سبو ٹوٹ گیا
شیخ صاحب کی نمازِ سحَری کو ہے سلام
حسنِ نیت سے مصلّے پہ وضو ٹوٹ گیا
پیچ و تاب اس دلِ صد چاک نے کھایا جو کوئی
دستِ شانہ سے تری زلف کا مُو ٹوٹ گیا
دیکھ کر کیوں کہ نہ ہو دیدۂ سوزاں حیراں
پیرہن کا مرے ہر تارِ رفو ٹوٹ...
غزل 1
رکھ پاؤں سرِ گورِ غریبان سمجھ کر
چلتا ہے زمیں پر ہر اک انسان سمجھ کر
ہشیار دِلا رہیو کہ دکھلا کے وہ زلفیں
لیتا ہے تجھے پہنچے میں نادان سمجھ کر
سرکا ہے دوپٹا رخِ مہ وَش پہ سحر کو
گردوں پہ نکل مبرِ درخشان سمجھ کر
لایا ہوں تری نذر کو لختِ جگر و اشک
رکھ دستِ مژہ پر دُرِ مرجان سمجھ کر...
شاہ نصیرؔ کو مشکل اور ادک زمینوں اور قافیوں میں شعر کہنے پر کمال حاصل تھا۔ مشکل زمین میں ان کی ایک غزل
میں ضعف سے جوں نقشِ قدم اٹھ نہیں سکتا
بیٹھا ہوں سرِ خاک پہ جم، اٹھ نہیں سکتا
اے اشکِ رواں! ساتھ لے اب آہِ جگر کو
عاشق کہیں بے فوج و علم اٹھ نہیں سکتا
سقفِ فلکِ کہنہ میں کیا خاک لگاؤں
اے...
جس کی جرأت پر جہانِ رنگ و بو سجدے میں ہے
آج وہ رَمز آشنائے سِرِّ ھُو سجدے میں ہے
ہر نفس میں انشراحِ صدر کی خوشبو لیے
منزلِ حق کی مجسم جستجو سجدے میں ہے
کیسا عابد ہے یہ مقتل کے مصلی پر کھڑا
کیا نمازی ہے کہ بے خوف ِ عدو سجدے میں ہے
اے حسین ابن علی تجھ کو مبارک یہ عروج
آج تو اپنے خدا کے...
نور آنکھوں میں تو چہروں پہ اُجالے ہوں گے
مصطفی والوں کے انداز نرالے ہوں گے
حشر میں اُن کی شفاعت کے حوالے ہوں گے
ہم گنہگاروں کو سرکار سنبھالے ہوں گے
نزع میں ان کے تصور سے مقدر چمکا
قبر میں اب تو اُجالے ہی اُجالے ہوں گے
اُن کی ہر ایک صفت جب کہ ہے اعجاز نصیر
نعت گوئی کے بھی انداز نرالے ہوں گے...
اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے
جو ربِ دوعالم کا محبوب یگانہ ہے
کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے ، سبطین کا نانا ہے
اس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جو حسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے
عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے...
کلام ؛ پیر نصیرالدین نصیر
دین سے دور ، نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں
تیری دہلیز پہ ہوں، سب سے الگ بیٹھا ہوں
ڈھنگ کی بات کہے کوئی ، تو بولوں میں بھی
مطلبی ہوں، کسی مطلب سے الگ بیٹھا ہوں
بزمِ احباب میں حاصل نہ ہوا چین مجھے
مطمئن دل ہے بہت ، جب سے الگ بیٹھا ہوں
غیر سے دور، مگر اُس کی نگاہوں کے قریں...
بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے
کر دیا ہو نہ کہیں تُو نے فراموش مجھے
تیری آنکھوں کا یہ میخانہ سلامت ساقی
مست رکھتا ہے ترا بادہ ء سرجوش مجھے
ہچکیاں موت کی آنے لگیں اب تو آجا
اور کچھ دیر میں شاید نہ رہے ہوش مجھے
کب کا رسوا میرے اعمال مجھے کر دیتے
میری قسمت کہ ملا تجھ سا خطا پوش مجھے
کس کی...
Peer Naseer-Udin-Naseer Sahib in India (Mushahera) Poetry Mehfil 8/15
Peer Naseer-Udin-Naseer Sahib in India (Mushahera) Poetry Mehfil 9/15
؎
Peer Naseer-Udin-Naseer Sahib in India (Mushahera) Poetry Mehfil 10/15
Peer Naseer-Udin-Naseer Sahib in India (Mushahera) Poetry Mehfil 11/15...
مرحبا یہ جلوہ زیبائے بامِ عائشہ
ہے ہلالِ آمنہ ، ماہِ تمامِ عائشہ
عائشہ کے اس شرف کو بھی ذرا ملحوظ رکھ
اپنے منہ سے مصطفی لیتے تھے نامِ عائشہ
آ نہ جائے سن کے زہرا کی طبیعت پر ملال
لی جیو مت بے ادب لہجے میں نامِ عائشہ
جب نکیرین آئیں گے کہہ دوں گا اُن سے قبر میں
مجھ سے کچھ مت پوچھیے ،...
لگی تھی دل میں ، بالآخر زباں تک آپہنچی
کہاں کی آگ تھی ، لیکن کہاں تک آپہنچی
ہوائے شوق ، مری خاک کو اُڑا لائی
بچھڑ گئی تھی ، مگر کارواں تک آپہنچی
وہ ہم سے رُوٹھ گئے اور بے سبب روٹھے
خدا کی شان! کہ نوبت یہاں تک آ پہنچی
یقین تو نہیں مجھ کو تری جفا کا ، مگر
یہ اک خلش مرے وہم و گماں تک آ پہنچی
ہم...
راہِ دشوار کو آسان بنا کر چلیے
شوق منزل ہے ، تو پھر ہوش میں آ کر چلیے
ہجر کی راہ میں یہ فرض ادا کر چلیے
اپنی پلکوں پہ چراغوں کو سجا کر چلیے
روشنی ہو تو چمک اٹھتی ہے ہر راہِ سیاہ
دو قدم چلیے ، مگر شمع جلا کر چلیے
خار ہی خار زمانے میں نظر آتے ہیں
اپنے دامن کو برائی سے بچا کر چلیے
آپ کی سست روی...
جو وہ تو نہ رہا تو وہ بات گئی ، جو وہ بات گئی تو مزا نہ رہا
وہ اُمنگ کہاں، وہ ترنگ کہاں ، وہ مزاج وفا و جفا نہ رہا
شب و روز کہیںبھی الگ نہ ہوا ، شب و روز کہاں وہ ملا نہ رہا
رگ جاں سے ہماری قریب رہا ، رگ جاں سے ہماری جدا نہ رہا
کسی شکل میںبھی ، کسی رنگ میںبھی ، کسی روپ میںبھی کسی ڈھنگ...
خوش است کاکُل و چشم و دو ابروئے دلبر
یکے کمند و دُوُم نرگس و سِوُم خنجر
بود برائے دِلم
یکے بلا و دُوُم فتنہ و سِوُم محشر
بہ چشمِ اہلِ وفا
یکے قشنگ و دُوُم دلکش و سَوُم خوشتر
چہ ہست بہرِ زناں
یکے حیا و دُوُم عصمت و سَوُم چادر
بہ شرعِ مصطفوی
یکے طراز و دُوُم زینت و سَوُم زیور...
اے دل ! مدام بندہء آن شہر یار باش
بے غم ز گردشِ فلکِ کج مدار باش
ہر گز مبیچ گردنِ تسلیم ز امرِ دوست
چوں کوہ در طریقِ رضا استوار باش
بے سوزِ عشق ، زیست بود شمعِ بے فروغ
پروانہ واز مردِ محبت شعار باش
لوحِ جبینِ خویش بہ خاکِ درش بِسائے
با روزگار ہمدم و بابخت ، یار باش
دل را بہ دامِ گیسوئے جاناں...
تعالی اللہ چہ زیبا بر سرِ محفل نشستستش
تو گوئی جان و ایمان و دلِ عالم بدستستش
جُنوں درکارِ خود ہشیار از فیضِ نگاہِ اُو
خرد رم خوردہ جامِ رحیقِ چشمِ مستستش
کُجا اغیار و اعدا ، خویش را بیگانہ می بینم
کہ از پیوستنش بس وحشت افزا ترگستستش
ز یادِ خود مدہ آوارہ دشتِ محبت را
بجانِ تو کہ یادِ تو...