"کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است"
---------------------------------------------
بر درِ خُوباں نظامے دیگر است
انتظام و اہتمامے دیگر است
خاک بر سر ، چاک داماں ، دیدہ تر
در محبت ننگ و نامے دیگر است
السلام اے مفتی و قاضی و شیخ
مسجدِ ما را امامے دیگر است
زاہداں در کعبہ ، ما در...
"آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا" غالب علیہ الرحمۃ
سوئے گلشن وہ تیرا گھر سے خراماں ہونا
سرو کا جھومنا ، غنچوں کا غزلخواں ہونا
خوبرو گرچہ ہوئے اور بھی لاکھوں لیکن
تجھ سے مخصوص رہا خسرو خوباں ہونا
زندگی بھر کی تمناوں کا ٹھہرا حاصل
سامنے تیرے میرا خاک میں پنہاں ہونا
یہ تو اندر...
سید نصیر الدین نصیر اسی زمین میں بعمر 14 سال لکھتے ہیں:
اے کہ نامت بر زبانِ ما غریباں ہر دمے
وے کہ یادت مونسِ ہر بیدلے در ہر غمے
از جمالِ رُوئے تو جمعیتِ صد جان و دل
و ز پریشانیِ زلفِ تو ، پریشاں عالمے
از خطا شرمندہ ام لطفے بفرما اے کریم!
رشحہ ابرِ کرم ، موجے بہ کاہد از یمے
ساقیم آں بادہ...
آج بروز جمعۃ المبارک ، سید نصیر الدین نصیر انتقال فرما گئے ہیں۔
ان کی نمازِ جنازہ بروز ہفتہ گولڑہ شریف میں ادا کی جائے گی۔
سخنِ سید نصیر الدین نصیر
عکسِ سید نصیر الدین نصیر
جنازہِ سید نصیر الدین نصیر --- تصاویر
سید نصیر الدین نصیر
نگینوں کی تلاش
از صاحبزادہ پیر سید ظفر قادری
غزلیاتِ نصیر گولڑوی
ڈاکٹر سید عبد اللہ مرحوم
تخلیقاتِ نصیر
دستاویزی ویڈیو حصہ اول : سید نصیر الدین نصیر
دستاویزی ویڈیو حصہ دوم : سید نصیر الدین نصیر
دل خون ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے
آخر کو تعلق ہے اسے دیدہ تر سے
کچھ دیر تو اس قلب شکستہ میں بھی ٹھہرو
یوں تو نہ گزر جاو اس اجڑے ہوئے گھر سے
ہر موج سے طوفانِ حوادث کی حدی خواں
مشکل ہے نکلنا مری کشتی کا بھنور سے
یہ حسن یہ شوخی یہ تبسم یہ جوانی
اللہ بچائے تمہیں بد بیں کی نظر سے...
کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی
نہ وہ ذوق دیدہ وری رہا ، نہ وہ شان جلوہ گری رہی
جو خلش ہو دل کو سکوں ملے ، جو تپش ہو سوز دروں ملے
وہ حیات اصل میں کچھ نہیں ، جو حیات غم سے بری رہی
وہ خزاں کی گرم روی بڑھی تو چمن کا روپ جھلس گیا
کوئی غنچہ سر نہ اٹھا سکا ، کوئی شاخ گل نہ ہری...
جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا
اُسے دل کون کہہ سکتا ہے، وہ دل ہو نہیں سکتا
وہ بندہ ، جس کو عرفاں اپنا حاصل ہو نہیں سکتا
کبھی خاصانِ حق کی صف میں شامل ہو نہیں سکتا
زمیں و آسماں کا فرق ہے دونوں کی فطرت میں
کوئی ذرّہ چمک کر ماہِ کامل ہو نہیں سکتا
محبت میں تو بس دیوانگی ہی کام آتی ہے...
یہ زمانہ یہ دور کچھ بھی نہیں
اک تماشہ ہے اور کچھ بھی نہیں
اک تری آرزو سے ہے آباد
ورنہ اس دل میں اور کچھ بھی نہیں
عشق رسم و رواج کیا جانے
یہ طریقے یہ طور کچھ بھی نہیں
وہ ہمارے ہم ان کے ہو جائیں
بات اتنی ہے اور کچھ بھی نہیں
جلنے والوں کو صرف جلنا ہے
ان کی قسمت میں اور کچھ بھی نہیں...
وہ تو بس وعدہء دیدار سے بہلانا تھا
ہم کوآنا تھا یقیں اُن کو مُکر جانا تھا
لاکھ ٹُھکرایا ہمیں تو نےمگر ہم نہ ٹلے
تیرے قدموں سےالگ ہو کےکہاں جانا تھا
جن سے نیکی کی توقع ہو وُہی نام دھریں
ایک یہ وقت بھی قسمت میں مری آنا تھا
بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہوا
لاکھ رنجش سہی اِک عمر کا یارانہ تھا...