نظر لکھنوی - غزلیں

  1. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: گم ہوتے ہوئے عقلِ بشر دیکھ رہے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    گم ہوتے ہوئے عقلِ بشر دیکھ رہے ہیں کم ہوتے ہوئے اہلِ نظر دیکھ رہے ہیں اک عالمِ پنہاں وَ دگر دیکھ رہے ہیں جو چیر کے ذرہ کا جگر دیکھ رہے ہیں افسونِ شبِ تار سے مغلوب ہوا تُو ہم چشمِ تصور سے سحر دیکھ رہے ہیں دل خانۂ سرد اب تو ہوا جاتا ہے صد حیف بجھتا ہوا ایماں کا شرر دیکھ رہے ہیں سینچا ہے...
  2. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: خستہ دل، نالہ بلب، شعلہ بجاں ٹھہرے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    خستہ دل، نالہ بلب، شعلہ بجاں ٹھہرے ہیں پھر بھی کس شوق سے سب اہلِ جہاں ٹھہرے ہیں ناتواں دل ہے مگر عزم جواں ٹھہرے ہیں ان سے پوچھے کوئی آ کر یہ کہاں ٹھہرے ہیں نیند آ جائے ہمیں بھی نہ عیاذاً باللہ سب یہ کہتے ہیں کہ وہ سحر بیاں ٹھہرے ہیں ہم نے واعظ کو نہ پایا کبھی سرگرمِ عمل دمِ تقریر مگر شعلہ...
  3. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: وہ جب سے بدگمان و سرگراں معلوم ہوتے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    وہ جب سے بدگمان و سرگراں معلوم ہوتے ہیں ہمیں بے کیف سے کون و مکاں معلوم ہوتے ہیں وہ رگ رگ میں مری روحِ رواں معلوم ہوتے ہیں نظر آئیں نہ آئیں دلستاں معلوم ہوتے ہیں اِدھر ذرے ہیں تابندہ، اُدھر تارے درخشندہ ترے جلوے زمیں تا آسماں معلوم ہوتے ہیں مرے قصے میں ضمناً آ گئے تھے تذکرے ان کے وہی وجہِ...
  4. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دورانِ خطابت منبر پر اوروں پہ تو برہم ہوتے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    دورانِ خطابت منبر پر اوروں پہ تو برہم ہوتے ہیں منکر کی مجالس میں لیکن خود شیخِ مکرم ہوتے ہیں جنت ہے تمہارا مل جانا، دوزخ ہے بچھڑ جانا تم سے کچھ اس کے سوا معلوم نہیں کیا خلد و جہنم ہوتے ہیں وہ آخرِ شب کا سناٹا، وہ کیفِ تقرب کا عالم مائل بہ کرم وہ ہوتا ہے، مصروفِ دعا ہم ہوتے ہیں دیکھیں نہ تو ان...
  5. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: عطاؤں میں شانِ کرم دیکھتے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    عطاؤں میں شانِ کرم دیکھتے ہیں وہ دل کے لیے بسطِ غم دیکھتے ہیں ہم ان کا کرم در کرم دیکھتے ہیں توجہ ترحّم بہم دیکھتے ہیں دلوں پر ہیں جن کے عنایت کی نظریں وہ تا اوجِ لوح و قلم دیکھتے ہیں غم و نالۂ و آہ و اندوہ و حرماں محبت ستم ہی ستم دیکھتے ہیں نگاہِ توجہ مداوائے صد غم کرم کو محیطِ ستم...
  6. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: درمیاں پردۂ حائل کو اٹھا سکتے ہیں٭ نظرؔ لکھنوی

    درمیاں پردۂ حائل کو اٹھا سکتے ہیں ایک دنیا کو وہ دیوانہ بنا سکتے ہیں نالۂ درد کہیں کام اگر آ جائے چشمِ رحمت وہ مری سمت اٹھا سکتے ہیں ایسے کم ہیں کہ جو میدانِ عمل میں اتریں بیٹھ کر بات تو سب لوگ بنا سکتے ہیں دعوتِ عام ہے میخانۂ توحید ہے یہ کلمہ ساقی کا پڑھیں جو بھی وہ آ سکتے ہیں در بدر...
  7. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دکھا دکھا کے وہ ہر نیک کام کرتے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    دکھا دکھا کے وہ ہر نیک کام کرتے ہیں جنابِ شیخ بھی کارِ حرام کرتے ہیں خدا پناہ وہ اب ایسے کام کرتے ہیں کہ فتنے دور سے ان کو سلام کرتے ہیں یہ چاندنی یہ ستارے یہ عالمِ ہجراں ہماری نیند یہ مل کر حرام کرتے ہیں طلوعِ صبح کے آثار دور دور نہیں دراز وہ تو ابھی زلفِ شام کرتے ہیں بس اتنی بات پہ یارانِ...
  8. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: وفاداریوں پر وفاداریاں ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    وفاداریوں پر وفاداریاں ہیں ہماری طرف سے یہ تیاریاں ہیں زمانہ کی کیا کیا ستم گاریاں ہیں نئی سے نئی اس کی عیاریاں ہیں خلش، آہ و آنسو، فغاں، درد و حسرت محبت میں ساری ہی بیماریاں ہیں یہ جنت، یہ نہریں، یہ غلماں، یہ حوریں مداراتِ مؤمن کی تیاریاں ہیں نکالو زکوٰةِ محبت میں جاں کو کہ اس تک ہی...
  9. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: چہار سمت سے رقصاں ہوائیں کیا کیا ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    چہار سمت سے رقصاں ہوائیں کیا کیا ہیں نظارہ خوب ہے چھائی گھٹائیں کیا کیا ہیں بہ بارگاہِ خدا التجائیں کیا کیا ہیں مریضِ ہجر کے حق میں دعائیں کیا کیا ہیں فراق و کرب، غم و التہاب و بیتابی بہ جرمِ عشقِ بتاں اف سزائیں کیا کیا ہیں ہماری لغزشِ پا کا بہت ہی امکاں ہے کہ فتنہ ہائے حسیں دائیں بائیں کیا...
  10. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: سادہ ورق نہ تھا مری فردِ گناہ میں ٭ نظرؔ لکھنوی

    سادہ ورق نہ تھا مری فردِ گناہ میں ڈھانپا ہے پھر بھی دامنِ رحمت پناہ میں عزمِ سفر کوئی ہے نہ منزل نگاہ میں اب کارواں ٹھہر ہی گیا جیسے راہ میں خود ہے اسیرِ حلقۂ شام و پگاہ میں انساں کا ہاتھ کب ہے سپید و سیاہ میں رک جائے سیلِ اشکِ رواں تھوڑی دیر کو تصویر کھنچ رہی ہے کسی کی نگاہ میں نغمہ سرائیاں...
  11. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: تو ہے خوش اور سوگوار ہوں میں ٭ نظرؔ لکھنوی

    تو ہے خوش اور سوگوار ہوں میں غم کو فی الوقت سازگار ہوں میں پائمالِ خزاں ہوں اب ورنہ روحِ افسانۂ بہار ہوں میں میکدہ سے نکل گیا خود ہی بد نصیب ایسا بادہ خوار ہوں میں کون واقف ہے میرے رازوں سے آپ ہی اپنا رازدار ہوں میں میں ہنسی اپنی روک لیتا ہوں واقفِ جورِ روزگار ہوں میں بخش دے مجھ کو اپنی...
  12. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دنیائے دوں کی چاہ کئے جا رہا ہوں میں ٭ نظرؔ لکھنوی

    دنیائے دوں کی چاہ کیے جا رہا ہوں میں دنیائے دل تباہ کیے جا رہا ہوں میں ہر لحظہ آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں ہر غم سے یوں نباہ کیے جا رہا ہوں میں محرومِ ہر گناہ کیے جا رہا ہوں میں دل پر کڑی نگاہ کیے جا رہا ہوں میں ہے جرمِ عاشقی کی سزا سوز و کرب و درد اے دل تجھے گواہ کیے جا رہا ہوں میں خوش آئے...
  13. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: نام ان کا ہر گھڑی وردِ زباں رکھتا ہوں میں ٭ نظرؔ لکھنوی

    نام ان کا ہر گھڑی وردِ زباں رکھتا ہوں میں ہر نفس کو مشکبو، عنبر فشاں رکھتا ہوں میں گرمیِ محشر سے سامانِ اماں رکھتا ہوں میں سایۂ دامانِ شاہِ دو جہاں رکھتا ہوں میں آرزوئے دعوتِ برقِ تپاں رکھتا ہوں میں شاخِ ہر گل پر بنائے آشیاں رکھتا ہوں میں میں نہیں، ہاں میں نہیں شائستۂ منزل ابھی دل میں صد...
  14. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دلِ غم زدہ کا صلہ چاہتا ہوں ٭ نظرؔ لکھنوی

    دلِ غم زدہ کا صلہ چاہتا ہوں ان آنکھوں سے میں اور کیا چاہتا ہوں سفاہت مری دیکھ کیا چاہتا ہوں خدا چاہتا ماسوا چاہتا ہوں جبیں آستانے پہ تیرے جھکا دی میں تجدیدِ قالو بلیٰ چاہتا ہوں جو تیری محبت سے سرشار ہو بس میں اس طرح کا دل بنا چاہتا ہوں میں کیا چاہوں تم جیسے رطب اللساں سے میں بس اپنے حق میں...
  15. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: عمر اک چاہیے وا چشمِ بشر ہونے تک ٭ نظرؔ لکھنوی

    عمر اک چاہیے وا چشمِ بشر ہونے تک یعنی من جملۂ اربابِ نظر ہونے تک مری عظمت، مری سطوت، مری قوت، سب کچھ سید کون و مکاں کا سگِ در ہونے تک زندگی ایک سفر طول و طویل و پُر خار آبلہ پائیاں اُف ختمِ سفر ہونے تک بخش دینا ترا شیوہ ہے مرے ربِ کریم لغزشِ پا مرے ورثہ میں بشر ہونے تک فکر و آلامِ بشر یہ...
  16. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: گر دل میں چھپاؤں تو ہے کچھ شعلہ فشاں اور ٭ نظرؔ لکھنوی

    گر دل میں چھپاؤں تو ہے کچھ شعلہ فشاں اور ظاہر جو کروں غم کو تو دنیا کو گماں اور کچھ لوگ لیے پھرتے ہیں اک عشقِ نہاں اور سوز اور، تپش اور، خلش اور، فغاں اور تیرِ غمِ دنیا کا ہدف بن ہی گیا دل سینے میں چھپا رکھا تھا لے جاتے کہاں اور بربادیِ دل کا مرے منکر تو نہیں وہ پر میرا بیاں اور ہے کچھ اس کا...
  17. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: آنسو بہا نہ غم کے تو ،آہ نہ بار بار کر ٭ نظرؔ لکھنوی

    آنسو بہا نہ غم کے تو ،آہ نہ بار بار کر اس دلِ سوگوار کو اور نہ سوگوار کر سلسلہ ہائے غم بہت ان کا نہیں شمار کچھ دن یہ تری حیات کے کتنے ہیں اب شمار کر آہوں کو کر شرر فشاں، نالوں کو شعلہ بار کر دردِ نہاں کی کیفیت دنیا پہ آشکار کر اٹھنے کا بارِ معصیت تجھ سے کہاں ہے یہ نظرؔ راہِ عدم طویل ہے ،رکھ...
  18. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: تقریر میں کی اس نے ہجوِ مئے ناب آخر ٭ نظرؔ لکھنوی

    تقریر میں کی اس نے ہجوِ مئے ناب آخر واعظ نے زباں تَر کی از ذکرِ شراب آخر عرصہ تھا جوانی کا اک عرصۂ خواب آخر جب آنکھ کھلی اپنی تھا دورِ شباب آخر حق بات کو کہنے میں کیا مجھ کو حجاب آخر اول ہے کتابوں میں اتری جو کتاب آخر بے چین ہمیں رکھنا بے چین ہی خود رہنا دل لے کے کہاں جائیں خر مست و خراب آخر...
  19. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: ان کا خیال جملہ مشاغل کے ساتھ ساتھ ٭ نظرؔ لکھنوی

    ان کا خیال جملہ مشاغل کے ساتھ ساتھ رہتی ہے ان کی یاد مرے دل کے ساتھ ساتھ اٹھے جو وہ تو رونقِ محفل بھی اٹھ گئی رونق تو بس تھی رونقِ محفل کے ساتھ ساتھ یا رب سفینہ غرق نہ ہو جائے یہ کہیں طوفانِ غم چلا ہے مرے دل کے ساتھ ساتھ اصحابؓ اس طرح سے تھے گرد آنحضورؐ کے جیسے نجوم ہیں مہِ کامل کے ساتھ ساتھ...
  20. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: ملی ہزاروں کو اس طرح سے بھی راہِ صواب ٭ نظرؔ لکھنوی

    ملی ہزاروں کو اس طرح سے بھی راہِ صواب نہیں کرم سے ہے خالی تری نگاہِ عتاب برائے مکتبِ دنیا ہے مستقل وہ نصاب طفیلِ شاہِ مدینہ ملی ہمیں جو کتاب مئے حجاز کی مستی سے ہے غرض مجھ کو ملے نہ جامِ مصفّٰی تو دُردِ بادۂ ناب پیو پلاؤ مئے عشقِ ساقیِ کوثر جو حور و خلد کی خواہش تمہیں ہے روزِ حساب ڈھلی ہے...
Top