نظر لکھنوی - غزلیں

  1. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: جہاں میں جنسِ وفا کم ہے کالعدم تو نہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    جہاں میں جنسِ وفا کم ہے کالعدم تو نہیں ہمارے حوصلۂ دل کو یہ بھی کم تو نہیں ہم ایک سانس میں پی جائیں جامِ جم تو نہیں سرشکِ غم ہیں پئیں گے پر ایک دم تو نہیں تمہارے قہر کی خاطر اکیلے ہم تو نہیں نگاہِ مہر بھی ڈالو تمہیں قسم تو نہیں خدا کا گھر ہے مرا دل یہاں صنم تو نہیں یہ میکدہ تو نہیں ہے یہ کچھ...
  2. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: سر نہ سجدے سے اٹھا تاخیر پر تاخیر کر ٭ نظرؔ لکھنوی

    سر نہ سجدے سے اٹھا تاخیر پر تاخیر کر ذرے جو تحتِ جبیں آئے انہیں اکسیر کر بندۂ رب بن کے روشن اپنی تو تقدیر کر عالمِ کن ہے ترا قبضے میں یہ جاگیر کر عشقِ باری، حبِّ احمدؐ، انسِ مخلوقِ جہاں یہ ہیں اجزائے ثلاثہ ان سے دل تعمیر کر دامنِ ہستی میں تیرے جو ہیں ذرے خاک کے ضربِ اللہ ھو سے اس مٹی کو پُر...
  3. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: منزل ملے بے حوصلۂ جاں نہیں دیکھا ٭ نظرؔ لکھنوی

    منزل ملے بے حوصلۂ جاں نہیں دیکھا ہوتے ہوئے ایسا تو کبھی ہاں نہیں دیکھا غیر آئے گئے، پھول چنے، بو بھی اُڑائی ہم ایسے کہ اپنا ہی گلستاں نہیں دیکھا دامن بھی سلامت ہے، گریباں بھی سلامت اے جوشِ جنوں تجھ کو نمایاں نہیں دیکھا ہیں تیرے تسلط میں فضائیں بھی، زمیں بھی تجھ میں ہی مگر ذوقِ سلیماں نہیں...
  4. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: نظارہ کروں کیسے تری جلوہ گری کا ٭ نظرؔ لکھنوی

    نظارہ کروں کیسے تری جلوہ گری کا پردہ ابھی حائل ہے مری بے بصری کا اسلوب نیا راس نہیں چارہ گری کا بیمار پہ عالم ہے وہی بے خبری کا چسکا اسے اُف پڑ ہی گیا در بدری کا کیا کیجیے انساں کی اس آشفتہ سری کا یہ راہِ محبت ہے یہ کانٹوں سے بھری ہے مقدور نہیں سب کو مری ہمسفری کا ہمدم نہ اڑا جامۂ اخلاق کی...
  5. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: مطلعِ رخ پہ تری زلفِ دوتا ہو جانا ٭ نظرؔ لکھنوی

    مطلعِ رخ پہ تری زلفِ دوتا ہو جانا عالمِ صبح کا ہم رنگِ مسا ہو جانا کون کہتا ہے کہ مرنا ہے فنا ہو جانا یہ تو ہے واصلِ دنیائے لِقا ہو جانا اپنے ماحول سے باہر ہے پریشاں حالی راس نغمہ کو نہیں نے سے جدا ہو جانا باعثِ ننگ ہے اے بندۂ یزداں تیرا بندۂ حرص و ہوس صیدِ ہوا ہو جانا اب نظرؔ آتے نہیں نقشِ...
  6. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: کہیے کس درجہ وہ خورشید جمال اچھا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    اسی زمین میں ایک اور غزل کہیے کس درجہ وہ خورشید جمال اچھا ہے مختصر یہ کہ وہ آپ اپنی مثال اچھا ہے دوسروں کے دلِ نازک کا خیال اچھا ہے کوئی پوچھے تو میں کہہ دیتا ہوں حال اچھا ہے آئے دن کی تو نہیں ٹھیک جنوں خیزیِ دل موسمِ گل تو یہ بس سال بہ سال اچھا ہے مجھ کو کافی ہے میں سمجھوں گا اسے حسنِ جواب...
  7. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: فتنہ زا فکر ہر اک دل سے نکال اچھا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    اسی زمین میں ایک اور غزل فتنہ زا فکر ہر اک دل سے نکال اچھا ہے آئے گر حسنِ خیال، اس کو سنبھال اچھا ہے میرے احساسِ خودی پر نہ کوئی زد آئے تو جو دے دے مجھے بے حرف سوال اچھا ہے آپ مانیں نہ برا گر، تو کہوں اے ناصح صاحبِ قال سے تو صاحبِ حال اچھا ہے بے خیالی نہ رہے، خام خیالی سے بچوں دل میں بس جائے...
  8. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دل میں جو خلش پنہاں ہے کہیں اس کا ہی تو یہ انجام نہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    دل میں جو خلش پنہاں ہے کہیں، اس کا ہی تو یہ انجام نہیں دل وقفِ غم و آلام ہوا، اب دل میں خوشی کا نام نہیں مرہونِ حقیقت ہیں اب ہم، باطل سے ہمیں کچھ کام نہیں احسانِ نگاہِ ساقی ہے، اب شغلِ مئے گل فام نہیں احساسِ زیاں تو رکھتے ہیں، لیکن یہ بروئے کار بھی ہو منزل کی طلب ہے دل میں مگر، منزل کی طرف...
  9. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: سمجھا ہے تو کہ خوش ہیں عنادل بہار میں ٭ نظرؔ لکھنوی

    سمجھا ہے تو کہ خوش ہیں عنادل بہار میں محسوس مجھ کو درد ہے صوتِ ہزار میں سو رنگ بھر گئے ہیں دلِ شرمسار میں تصویر کس کی ہے نگہِ اشکبار میں دراصل ہاں وہی تو غریب الدیار ہے جس کا کہ جی لگے نہ خود اپنے دیار میں وعدوں کے اعتبار کا ایسا یقیں کہاں جیسا یقینِ شک ہے مجھے اعتبار میں کیا کیا ہوا بہار...
  10. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: مسلماں دیکھ کر اب دل کی حیرانی نہیں جاتی ٭ نظرؔ لکھنوی

    مسلماں دیکھ کر اب دل کی حیرانی نہیں جاتی کُجا سیرت، کہ صورت تک بھی پہچانی نہیں جاتی حدیثِ غم سنانے سے پریشانی نہیں جاتی مگر کچھ لوگ ہیں جن کی یہ نادانی نہیں جاتی جنابِ شیخ بول اٹھیں، بہ ہر مبحث، بہ ہر موقع کہ ان کی خوئے پندارِ ہمہ دانی نہیں جاتی سنا سیلِ تمنا میں ہزاروں شہرِ دل ڈوبے مگر پھر...
  11. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: گہ گُل نم ہے گہ شرارا بھی ٭ نظرؔ لکھنوی

    گہ گُل نم ہے گہ شرارا بھی دل یہ کیا چیز ہے ہمارا بھی ہو مخالف جہاں یہ سارا بھی ڈر ہے کیا، ہے خدا ہمارا بھی کیوں اسی زندگی کے ہو رہیے؟ مر کے ہے زندگی دوبارا بھی تو کہ ہے اور یہ کہ سنتا ہے میں نے ڈھونڈا تجھے، پکارا بھی موجِ طوفاں ہی سے لپٹ رہیے آپ آ جائے گا کنارا بھی مری خود داریاں، تعال اللہ...
  12. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: چہرہ ان کا صبحِ روشن گیسو جیسے کالی رات٭ نظرؔ لکھنوی

    چہرہ ان کا صبحِ روشن، گیسو جیسے کالی رات باتیں اُن کی سبحان اللہ، گویا قرآں کی آیات رُخ کا جلوہ پنہاں رکھا پیدا کر کے مخلوقات حُسنِ ظاہر سب نے دیکھا، کس نے دیکھا حُسنِ ذات جذبہ کی سب گرمی، سردی، بہتے اشکوں کی برسات ہم نے سارے موسم دیکھے، ہم پر گزرے سب حالات غم کی ساری چالیں گہری، بچتے بچتے...
  13. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: بہ ہر صورت یہ دیکھا ہے کسی صورت زیاں پہنچا ٭ نظرؔ لکھنوی

    بہ ہر صورت یہ دیکھا ہے کسی صورت زیاں پہنچا نشیمن پایۂ تکمیل تک میرا کہاں پہنچا پئے سجدہ جھکی جاتی ہے کیوں لوحِ جبیں اپنی یہیں نزدیک اب شاید مقامِ آستاں پہنچا ہمارے چار تنکوں کے نشیمن کا خدا حافظ کہ اب صحنِ چمن تک شعلۂ برقِ تپاں پہنچا سمجھ لے گا حقیقت سوزِ دل کی اے جفا پیشہ کوئی نالہ جو تا حدِ...
  14. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دل میں یادِ صنم ارے توبہ ٭ نظرؔ لکھنوی

    دل میں یادِ صنم ارے توبہ کفر اور در حرم ارے توبہ صبحِ خنداں کو دل ترستا ہے ظلمتِ شامِ غم ارے توبہ مے ہے ساقی ہے ابر ہے لیکن توڑیں توبہ کو ہم ارے توبہ زندگی کیا اسی کو کہتے ہیں غم ہی غم، غم ہی غم ارے توبہ بجھ نہ جائے چراغ یہ دیکھو لو ہے ایماں کی کم ارے توبہ دل کہ نازک سا آبگینہ ہے اس پہ کوہِ...
  15. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل٭ طلسمِ شامِ خزاں نہ ٹوٹے گا دل کو یہ اعتبار سا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    دادا مرحوم کی ایک غزل احباب کی خدمت میں طلسمِ شامِ خزاں نہ ٹوٹے گا دل کو یہ اعتبار سا ہے طلوعِ صبحِ بہار کا پھر نہ جانے کیوں انتظارسا ہے ترے تصور میں غرق ہوں میں ترا ہی قرب و جوار سا ہے خزاں صفت شامِ غم کو میں نے بنا لیا خوشگوار سا ہے فریبِ دنیا عیاذ باللہ غمِ زمانہ کی سازشیں اف قرار کی صورتوں...
  16. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: اس چہرۂ حسیں کا خیالِ حسیں رہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    دادا مرحوم کی ایک غزل احباب کے ذوق کی نذر: اس چہرۂ حسیں کا خیالِ حسیں رہے دل میں کھلی سدا یہ کتابِ مبیں رہے گلشن پسند ہم تھے پہ صحرا نشیں رہے اندوہگیں سے ہائے ہم اندوہگیں رہے سر مستی و سرور کا اس کے ٹھکانہ کیا جس دل کی سمت وہ نگہِ سرمگیں رہے خاکی تھے ہم تو خاک سے نسبت نہیں گئی روئے زمیں سے...
  17. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: عبادت پر میں اکسایا گیا ہوں ٭ نظرؔ لکھنوی

    حسن محمود جماعتی بھائی نے ایک زمین میں چھ غزلیں پیش کیں، تو سوچا کہ اس زمین میں ساتویں غزل بھی پوسٹ کر دوں۔ :) احبابِ محفل کے ذوق کی نذر: عبادت پر میں اکسایا گیا ہوں بذکرِ حور للچایا گیا ہوں بنی ہے تب مسلماں کی سی صورت جب انگاروں پہ تڑپایا گیا ہوں تصور سے بنایا پیکرِ گِل کہاں تھا میں کہاں...
  18. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: موجبِ غم بھی وجہِ راحت بھی٭ نظرؔ لکھنوی

    دادا مرحوم کی ایک غزل احبابِ محفل کے ذوق کی نذر: موجبِ غم بھی وجہِ راحت بھی کیا عجب چیز ہے محبت بھی جو ہے طیب اسی کی حرمت بھی ہے بڑا فرق، فرقِ علت بھی تیرا دیدار اگر نہ ہو حاصل مثلِ دوزخ ہے مجھ کو جنت بھی خود غرض آدمی ہوا اتنا بے سہارا ہے آدمیت بھی موت سے کوئی ہو گیا خائف ورنہ ایسے ہیں جن...
  19. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: سامنے آ سکے نہ جو بزم کو جگمگائے کیوں ٭ نظرؔ لکھنوی

    دادا مرحوم کی ایک غزل احبابِ محفل کے ذوق کی نذر سامنے آ سکے نہ جو بزم کو جگمگائے کیوں رخ پہ نقاب ڈال کر جلوۂ رخ دکھائے کیوں خار کی ہر چبھن پہ اب کرتے ہیں ہائے ہائے کیوں کس نے کہا تھا آپ سے سیرِ چمن کو آئے کیوں پالے جو اتنی آرزو کھائے بھی زخمِ آرزو دل کی ہر ایک آرزو آدمی کی بر آئے کیوں عشق...
  20. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: کوششِ مسلسل بھی رائیگاں سی لگتی ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    دادا مرحوم کی ایک غزل احبابِ محفل کے ذوق کی نذر: کوششِ مسلسل بھی رائیگاں سی لگتی ہے آرزوئے دل اب تو نیم جاں سی لگتی ہے کچھ مشیتِ یزداں سرگراں سی لگتی ہے یا مری طبیعت ہی بد گماں سی لگتی ہے نغمہ جُو نہ ہو اے دل وقت اب نہیں ایسا ہر گھڑی مجھے دنیا نوحہ خواں سی لگتی ہے جب بھی آئے یہ ظالم ساتھ لے...
Top