بہت عرصے سے کچھ احباب نے درخواست کی ہوئی تھی کہ اپنے دادا محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی مرحوم کا تعارف پیش کروں۔
اس سلسلے میں ایک مضمون جو ان شاء اللہ دادا کے عنقریب پبلش ہونے والے مجموعۂ کلام کا ابتدائیہ بھی ہو گا، یہاں پیش کر رہا ہوں۔
مضمون کا بیشتر حصہ والدِ محترم کے ایک مضمون "میرے...
دادا مرحوم کی ایک غزل احباب کے ذوق کی نذر:
غم گیا لذتِ حیات گئی
ہائے جینے میں تھی جو بات گئی
جاں گئی حسن کی زکات گئی
کون سی کوئی کائنات گئی
حالتِ غم بدل سکی نہ مری
آبروئے تغیرات گئی
کہہ تو دوں عرضِ مدعا لیکن
کیا کروں گا مری جو بات گئی
اے غمِ عشق تیری عمر دراز
فکرِ آلام و حادثات گئی
موجِ...
دادا مرحوم کی ایک غزل احبابِ محفل کے ذوق کی نذر:
نکالو بزم سے تم حاشیہ نشینوں کو
تو ہم بھی جمع کریں پھر تماشہ بینوں کو
سمجھ حقیر نہ تو بوریہ نشینوں کو
اتار لیتے ہیں یہ عرش کے مکینوں کو
کسی طرح بھی وہ اپنا نہ بن سکا اب تک
کہ آزما تو لیا ہم نے سو قرینوں کو
شریکِ سازشِ دریا جو ناخدا بھی رہے
تو...
ددا مرحوم کی ایک غزل احبابِ محفل کی نذر:
ہر متاعِ زندگی پر اف مٹا جاتا ہے دل
بہرۂ عقبیٰ سے بے بہرہ ہوا جاتا ہے دل
زندگی سے زندگی بھر پھر مٹایا کیجئے
ایک ہی لحظہ میں وہ فتنہ اٹھا جاتا ہے دل
یہ اگر سچ ہے تو پھر ویرانیوں کا کیا سبب
سنتے ہیں ہم مستقر تیرا کہا جاتا ہے دل
عاقبت اندیش کی نا عاقبت...
دادا مرحوم کی ایک غزل احباب کی خدمت میں:
دل ہے کہ اس نے سیکڑوں فتنے اٹھائے ہیں
ہم ہیں کہ اس کو سینے سے پھر بھی لگائے ہیں
ہنس کر بروئے بزم غمِ دل چھپائے ہیں
چہرے پہ ہم خوشی کا ملمع چڑھائے ہیں
ایماں کی قوتوں نے دیا ہے مجھے ثبات
جب راہِ حق میں میرے قدم ڈگمگائے ہیں
غم بجھ گئے ہیں اور تمنا چمک...
دادا مرحوم کی ایک غزل احباب کے ذوق کی نذر:
خرابِ عشق کیا دل لگی کے پردے میں
یہ دل عدو ہی بنا دوستی کے پردے میں
سمیٹتے ہیں جو زر بے زری کے پردے میں
ہزار عیش کریں مفلسی کے پردے میں
ہزار غم تھے جو اک سر خوشی کے پردے میں
چھلک پڑے ہیں کچھ آنسو ہنسی کے پردے میں
ہے اس کی یاد مرے دل کی ظلمتوں میں...
وہ لحظہ غنیمت جانو بس جو لحظہ کہ ٹلتا جاتا ہے
بیمارِ شبِ غم کا چہرہ اب رنگ بدلتا جاتا ہے
محرومی قسمت کا شکوہ با وصفِ خموشی چھپ نہ سکا
جو لفظ و بیاں میں ڈھل نہ سکا اشکوں میں وہ ڈھلتا جاتا ہے
ضربِ دمِ شمشیرِِ قاتل افزائشِ راحت کا باعث
سر دے کے مسرت سے لاشہ بسمل کا اچھلتا جاتا ہے
اللہ رے سوزِ...
یہ حالت ہو گئی ضبطِ فغاں سے
پھنکا جاتا ہے دل سوزِ نہاں سے
بھلا آئے یقیں ہم کو کہاں سے
ہمارا ذکر اور ان کی زباں سے
گلے مل لوں ذرا عمرِ رواں سے
اٹھایا جا رہا ہوں آستاں سے
ہوا خونِ تمنا اشک نکلے
کہاں کی بات ظاہر ہے کہاں سے
اُنھیں مائل کیا میں نے وفا پر
کہ تارے توڑ لایا آسماں سے
غموں کی چوٹ سے...
بنا ہے آپ سبب اپنی جگ ہنسائی کا
جو مشتِ خاک نے دعویٰ کیا خدائی کا
وہی ہے حال نگاہوں کی نارسائی کا
وہ سامنے ہیں پہ نقشہ وہی جدائی کا
تمہارے در کے سوا میں کسی جگہ نہ گیا
مجھے تو شوق نہیں قسمت آزمائی کا
یہی زمانہ مٹانے پہ تل گیا مجھ کو
جسے تھا ناز کبھی میری ہم نوائی کا
اسی نے غرق مجھے کر دیا...
دادا مرحوم کی ایک غزل احبابِ محفل کی خدمت میں:
خرد کا جامہٴ پارینہ تار تار نہیں
جنونِ عشق ابھی تجھ پہ آشکار نہیں
ہمارے ذوقِ طلب میں نہ فرق آئے گا
وہ ایک بار کہے یا ہزار بار نہیں
بہ طرزِ عام نہیں میری بادہ آشامی
رہینِ بادۂ باطل مرا خمار نہیں
رہِ طلب کے مصائب بھی عین راحت ہیں
گلِ مراد سے...
دادا مرحوم کی ایک غزل احبابِ محفل کے ذوق کی نذر:
فیضیابِ حال ہے نے فکرِ مستقبل میں ہے
آدمی ہوش و خرد کی کون سی منزل میں ہے
بات کر سکتے نہیں گو حشر برپا دل میں ہے
تیری محفل میں ہیں جب تک دل بڑی مشکل میں ہے
آخرت سے بے نیازی کیوں تمہارے دل میں ہے
کون سا ایسا مزہ دنیائے آب وگل میں ہے
ہر قدم...
دادا مرحوم کی ایک غزل احبابِ محفل کی بصارتوں کی نذر:
خلش کی بڑھ کے در دِبیکراں تک بات پہنچی ہے
محبت کی ذر ا دیکھیں کہاں تک بات پہنچی ہے
نکل کر آہِ دل میری سر ِعرشِ بریں پہنچی
درونِ دل سے چل کر آسماں تک بات پہنچی ہے
جو منزل تک پہنچ کر اُف پلٹ آیا ہے منزل سے
ا سی گم کردہ منزل کارواں تک بات...
دادا مرحوم کی ایک اور غزل احباب کے ذوق کی نذر:
قدم ڈگمگائے خیالات بھٹکے
تصور سے تیرے رہا دل جو ہٹ کے
بری بات جینا تھا موقف سے ہٹ کے
بُرا کیا ہوا جو سرِ دار لٹکے
مجھے منتقل کر کے شہرِ خموشاں
نہ پھر حال پوچھا کسی نے پلٹ کے
جسے وسعتِ دو جہاں بھی نہیں کچھ
مرے دل میں کیسا سمایا سمٹ کے
مرا کوئی...
دادا مرحوم کی ایک اور غزل احباب کی ذوق کی نذر:
کیسی کیسی خبر نہیں آتی
بس کہ فرحت اثر نہیں آتی
جس سے مجھ کو رسائیِ منزل
اک وہی رہ گزر نہیں آتی
چاکِ داماں کی خیر ہو یا رب
منتِ بخیہ گر نہیں آتی
اچھی قسمت عطائے فطرت ہے
کچھ بزور و بزر نہیں آتی
ظلمتیں کیسی دل پہ ہیں طاری
اس طرف کیا سحر نہیں...
دادا مرحوم کی ایک اور غزل احباب کے ذوق کی نذر:
پردے پہ تخیل کے ان کی تصویر اتارا کرتے ہیں
تنہائی کی گھڑیاں اکثر ہم اس طرح گزارا کرتے ہیں
یہ عشق کے مارے بے چارے کب درد کا چارہ کرتے ہیں
ہر چوٹ کو سہتے ہیں ہنس کر، ہر زخم گوارا کرتے ہیں
وہ آگ کی بھٹی سے پہلے طالب کو گزارا کرتے ہیں
پھر کہہ کے...
دادا مرحوم کی ایک اور غزل احبابِ محفل کی خدمت میں:
سنہرے خواب کی لازم نہیں اچھی ہوں تعبیریں
کہ بنتے بنتے دیکھا ہے بگڑ جاتی ہیں تقدیریں
بیانِ غم کی تمہیدوں میں چشمِ خونچکاں میری
کتابِ دل کے دیباچے میں خوں آلودہ تحریریں
وہ یزداں ہے تو برسائے گا رحمت کی گھٹا پھر بھی
ہم انساں ہیں تو ہوتی ہی رہیں...
دادا مرحوم کی ایک غزل احبابِ محفل کے ذوق کی نذر
عمرِ عزیز اپنی چلے ہم گزار کے
آئے نہیں پلٹ کے مگر دن بہار کے
چھاؤں میں زلفِ پر شکن و تابدار کے
بھولا ہوا ہوں سیکڑوں غم روزگار کے
دورِ خزاں میں نغمے ہیں فصلِ بہار کے
قربان جائیں گردشِ لیل و نہار کے
اس رات کی سحر ہی نہیں ہم سے پوچھ لو
مارے ہوئے...
دادا مرحوم کی ایک غزل، احبابِ محفل کے ذوق کی نذر :
حقیقت جو پوچھو تو یہ زندگانی
فریبِ مسلسل کی لمبی کہانی
ابھی اور ہونے دے یہ خون پانی
ابھی سے ہے رکھی کہاں کامرانی
مجھے تو وہی چاہئے غیر فانی
فقیری میں ہے جو شکوہِ کیانی
غمِ عشق اندر تو شعلہ بہ دل ہے
مگر آنکھ تک آ کے ہے پانی پانی
بیانِ غلط کا...
دادا مرحوم کی ایک غزل، احبابِ محفل کی نذر :
سلسلہ ہائے رنج و غم ہیں طویل
مدتِ زندگی خوشا ہے قلیل
اس کے جلووں کی بارشِ پیہم
ہائے محرومئ نگاہِ علیل
اصل بس لا الٰہ الّا اللہ
اور سب قیل و قالِ مردِ عقیل
یاد آئی ہے کس نگاریں کی
دل مجسم بنا ہے نقشِ جمیل
کھینچتی ہے جو اپنی سمت حیات
موت دیتی ہمیں...
فاتح بھائی کی شراکت، امیر مینائی کی غزل تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے نظر سے گزری۔ اسی زمین میں دادا مرحوم کی ایک غزل احبابِ محفل کے ذوق کی نذر:
یادِ یزداں آخری سِن کے لئے
کچھ اٹھا رکھیے بُرے دن کے لیے
کون جانبر ہو سکا از دردِ عشق
کیا دوا اس دردِ مُزمن کے لیے
رنج و غم فکر و الم حزن و ملال
آدمِ...