محوِ دیدارِ بتاں تھے پہلے
ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے
خود بھی خود پر نہ عیاں تھے پہلے
وہ بھی آئے ہی کہاں تھے پہلے
اتنے کب شعلہ بجاں تھے پہلے
ہم کو غم اتنے کہاں تھے پہلے
دور تر ہم سے ہوئی ہے منزل
اب وہاں کب کہ جہاں تھے پہلے
اب تو ہیں خود ہی معمہ ہم لوگ
کاشفِ سرِّ نہاں تھے پہلے
اپنی منزل پہ...